جب ٹائی ٹینک ڈوب رہا تھا

671

جب میں نے پہلی بار ٹائی ٹینک کے ڈوبنے کی کہانی پڑھی تو یہ واقعاتی رپوتاژ سے زیادہ ایک تجزیاتی مطالعہ تھا کہ کس طرح برق رفتاری اور زیادہ منافع کی آرزو غرقاب کردینے والے حادثوں کو جنم دیتی ہے۔ پھر جوانی میں ٹائی ٹینک پر فلم آئی تو ایک رومانی پہلو بھی سامنے آگیا۔ کون کیسے طبقاتی تفریق سے بالا ہوکر کسی کا دل چرا لیتا ہے۔ لیکن ایک منظر جو آج بھی آنکھوں میں پتھرا گیا وہ ڈوبتے ٹائی ٹینک کا میوزک طائفہ تھا جو بھگدڑ میں بھی موسیقی کو موت پر ترجیح دے رہا تھا۔ مجھے اس فلم کا ڈائیلاگ آج بھی یاد ہے کہ ’’شاید کوئی بھی میوزک میں دلچسپی نہیں رکھتا‘‘۔

ہم بھی بحیثیت قوم ایک ڈوبتے نہیں تو لڑکھڑاتے ٹائی ٹینک پر عرصہ دراز سے ’کرپشن‘، ’لوٹ گئے‘، ’کھاگئے‘ کا ساز سن رہے ہیں لیکن شاید ہماری قومی آزمائش اور زندگی کا عمل اتنا تلخ ہوچکا ہے کہ یہ ساز اب اپنی دلچسپی کھو رہا ہے۔ 1947ء میں کرپشن کے خلاف نوآبادیاتی قانون کو اپنایا، پھر پروڈا اور بعدازاں ایبڈو کے قوانین کے ذریعے کرپشن کا نزلہ عوامی نمائندوں کے گلے دال کر کئی مافیاؤں کو کھلی چھوٹ دی۔ ویسے تو قائد اعظم محمد علی جناح کی 11 اگست 1947ء کی تقریر میں کرپشن، اقربا پروری، ذخیرہ اندوزی وغیرہ کے مسائل ورثہ میں ملے ’گھٹی کے مسائل‘ نظر آتے ہیں تاہم قانون کا پہلا کلہاڑا عوامی نمائندگان پر چلا اور عوامی نمائندوں کی نااہلی کا قانون ’پروڈا‘ سیاسی مخالفین کو مقابلے کے میدان سے نکال باہر کرنے کے لیے استعمال ہوا۔ یہ عمل اتنا مؤثر ثابت نہ ہوا کیونکہ ڈرائنگ روموں میں ہونے والی سازشیں زیادہ ثمربار تھیں۔ جب سازشوں کی سیاست سکہ رائج الوقت بنی تو ’ایبڈو‘ کا قانون آیا جس کی صورت گری یہ تھی کہ سیاست سے توبہ تائب ہوجاؤ تو معافی ورنہ سزا۔

یہ سلسلہ آج بھی جاری وساری ہے۔ احتساب۔ پہلے احتساب پھر انتخاب، پہلے ریاست پھر سیاست، درجنوں وائٹ پیپر، میڈیا ٹرائل، ایک دوسرے پر گند پھینکے کا عمل۔ المختصر یہ سارا کھیل احتساب کے نام پر سیاسی انجیئنرنگ میں ڈھل گیا۔ وفادار رہو، تابعدار ہو تو سب کچھ معاف ورنہ زندگی بھی تنگ۔ جب دو بڑی قومی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف نبردآزما تھیں تو ایک کہانی کئی کئی زاویوں سے ری سائیکل ہوتی تھی۔ پھر چارٹر آف ڈیموکریسی کے ذریعے معافی تلافی ہوئی لیکن سیاسی جادوگری کا کھیل جاری ہے۔ آچ المیہ ی ہے کہ کرپشن کی کہانی میں لاکھوں ڈالرز کی فقط آرزو ہے لیکن کرپشن کی کھوج کے نام پر لاکھوں ڈالرز کھوئے جاچکے ہیں۔

سیاست عدالت کی دہلیز پر ہر گز نہیں سلجھائی جاسکتی

کوئی اور بات ہو نہ ہو اب ٹائی ٹینک ڈوب رہا ہے اور کرپشن کی دھن پر لکھے ہوئے ترانے اپنی اہمیت کھو رہے ہیں۔ بے عملی کا آئس برگ سامنے ہے۔ برق رفتاری کی آرزو بھی ہے کہ جلدازجلد کچھ برآمد کرلیا جائے۔ لیکن اس عمل میں تو آس پاس کے جہاز بھی ڈوب رہے ہیں۔

سیاست عدالت کی دہلیز پر ہر گز نہیں سلجھائی جاسکتی۔ یہاں نااہلیاں بھی ہوئیں، پھانسیاں بھی ہوئیں، جلاوطنیاں بھی آزمائی گئیں لیکن پھر بھی سیاست ایک اٹل حقیقت رہی ہے۔ آپ الزامات دہراتے رہتے ہو اور سیاست اپنے آپ کو ری سائیکل کرتی رہتی ہے۔ اگر کرپشن داستان کو حقیقت مان بھی لیا جائے تو کیا پاکستان کو اس کی جی ڈی پی سے زیادہ لوٹا جاچکا ہے؟  جوکہ سچ نہیں۔ کیا ہم کرپشن جوکہ ایک مہلک اخلاقی بیماری کی صورت موجود ہے کا کوئی اصل علاج تلاش کرسکتے ہیں اور تمام طبقات جن میں سیاست دان، جج، جرنیل، سرکاری افسران وغیرہ شامل ہیں کا مؤثر احتساب کرسکتے ہیں، یا پھر یہ ساز فقط سیاسی انجیئنرگ کے لیے ہے؟

میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ نیشنل اکاؤنٹیبلٹی بیورو (نیب) کی چھڑی کی بدولت آج تک تین چار سیاسی پارٹیاں بن چکی ہیں، لیکن کیا یہ سچ نہیں ہے کہ نظام اس کے سہارے پیٹریاٹ (محب وطن) ہوا، قاف لیگ بھی بنی۔ آج بھی الزام ہے کہ سیاسی نظام کی عمارت اسی کے سہارے کھڑی ہے۔ یہ بنیاد اسی کے سہارے کھڑی ہے۔ یہ بنیاد ناپائیدار ہے۔ اچھا ہوگا کہ احتساب کا مؤثر جمہوری نظام بنایا جائے  اور سیاست کو سیاسی عمل ہی رہنے دیا جائے ورنہ ٹائی ٹینک ڈوب رہا ہے اور کرپشن کی موسیقی میں دلچسپی کم ہو رہی ہے۔ کیا ہم ٹائی ٹینک کا رخ بدل کر کہانی بدل سکتے ہیں؟

حرفِ آخر:

1985ء کی غیرجماعتی سیاست نے جو سیاسی قبضہ گروپ قائم کیا تھا خبریں ہیں کہ اب اس سے سبھی کچھ واگزار کرایا جا رہا ہے۔ یہ اچھی بات ہے، مگر کیا واگزار وسائل نئی سیاست کے حوالے کیے جائیں گے اور آئندہ دس پندرہ سالوں کے لیے نئی سیاسی کلاس بنائی جائے گی یا پھر عوام کے وسائل عوام کو واپس کیے جائیں گے۔

اربوں روپے کی سرکاری زمینیں واگزار کرائی جارہی ہیں تو انہیں نئی سیاسی کلاس کو الاٹ کرنے کی بجائے ہونا یہ چاہیے کہ 25 فیصد حصہ مقامی ترقی، 25 فیصد صوبائی، 25 فیصد وفاقی ضروریات اور باقی ماندہ 25 فیصد ’فیوچر فنڈ‘ کو دیا جائے جس سے آئندہ نسلوں کی تعلیم وتربیت، روزگار اور عوام کی صحت اور دیگر مسائل کے حل کے لیے خرچ کیا جائے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...