نئے نقاد کے نام وارث علوی کا دوسرا خط

1,193

عزیزی و محبی!

بہشت میں میرے شب و روز بڑے منظم انداز سے گزر رہے ہیں۔ صبح دم باغِ خلد کی سیر، وقتِ چاشت فَوَاكِهُ الجنت کا ناشتہ، دن بھر تفریح و مشاغل، شام ڈھلے مجلسِ رقص و سرور، رات ہوتے ہی آراستگیء دسترخوانِ بہشتِ بریں اور اس کے بعد کے مشاغل وہی جو مولانا حضرات خطباتِ جمعہ میں بہ سلسلہ تذکرہء حور و غلمان بڑی وضاحت اور سخاوت سے بیان کرتے ہیں۔ غرض کہ عیش ہی عیش ہے۔

شمس الرحمن فاروقی کے آنے سے ادبی محفلیں بھی جمنے لگی ہیں۔ سکہ بند مشاغلِ بہشت سے فراغت پانے اور انہیں دوہرانے کے درمیان نقد و نظر کے مسائل پر بھی گفتگو ہوتی ہے۔ فاروقی اپنے مکمل دنیاوی مزاج اور اہداف کے ساتھ یہاں پہنچے ہیں۔ لہذا آتے ہی انہوں نے ادبی گروہ بندی کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ میرے ساتھ موصوف پہلے دن ہی سے کِھچے کِھچے رہتے ہیں، ان کی محافل میں جاؤں تو مجھے دیکھتے ہی گفتگو کا سلسلہ منقطع کر دیتے ہیں اور ناگواری سے منھ موڑ لیتے ہیں یا قیلولے کے بہانے وہاں سے کِھسک جاتے ہیں۔ مَیں ان کی اس بے آرامی سے بہت لطف اندوز ہوتا ہوں۔

کل ایک مجلس مَیں سنیاسی نقاد کے تمہارے نام لکھے گئے دوسرے خط کا احوال سنا تو بڑی تشویش ہوئی کہ آخر کیوں یہ تمہاری جان نہیں چھوڑ رہا۔ فوراً وہاں سے اٹھ کر سوق الجنہ سے ملحقہ اپنے بالا خانے پہنچا اور مکتوب ہذا لکھنے لگا۔

برخوردار! موصوف کے پہلے خط کی بابت مَیں نے لکھا تھا کہ یہ راہبانہ مشوروں کی ایسی کتاب ہے جس کی بیشتر آیات وقت اور زمانے کے ہاتھوں منسوخ ہو چکی ہیں۔ ان پر عمل پیرا ہو کر دین و دنیا مت برباد کرنا۔ اس مکتوب کا مضمون بھی نقد و نظر کے بنیادی مقاصد کا خون کرتا نظر آتا ہے جس میں تنقید کے عصری تقاضوں کو چبائی ہوئی تنقیدی اصطلاحات، رد شدہ درسی اخلاقیات اور دھتکاری ہوئی مکتبی نصیحات کی کُند چھری سے زبح کیا گیا ہے۔ حضرتِ نقاد نے اپنے مطالعے کی دھاک تو بٹھائی ہے، نقد و ادب کی ناک نہیں بچائی۔

راہب نقاد نے اپنے مراسلے میں تمہیں نہ تو تخلیقی ادب کی ماہئیت معلوم کرنے کا کوئی گُر سکھایا ہے، نہ ادب اور تنقید کے نامیاتی عمل کا شعور دینے کی کوشش کی ہے، نہ تخلیقی تجربے کی باز آفرینی سے آگاہ کیا ہے، نہ متن کی شرح و بسط سے سوال اُگانے کی ترکیب بتائی ہے اور نہ ہی تنقیدی اقدار کے تعین کا کوئی کلیہ سکھایا ہے۔ خط کیا ہے، صرف و محض موصوف کے افکارِ پریشاں کا پلندا ہے جسے وہ تمہارے گلے کا پھندا بنانے پر تُلا ہوا ہے۔

خط نگار نے تم سے پوچھے بغیر ہی حتمی طور پر طے کر لیا ہے کہ میاں! تم مشوش ہو اور ساتھ ہی تمہیں اپنی تشویش کے اسباب پر غور کرنے کی نصیحت بھی داغ دی ہے:

’’مجھے تمھاری تشویش سمجھ میں آتی ہے۔ ذرا غور کرو گے تو تمھیں تشویش کے اسباب بھی سمجھ آ جائیں گے۔اپنی ہر حالت کو، اس حالت سے باہر نکل کر دیکھو گے تو تمھیں کئی مشکل سوالوں کے جواب ملنے لگیں گے۔ تشویش کو کچھ دیر معطل کرو اور پھر اس پر غور کرو۔ ( یہ مشکل کام ہے مگر تمھاری بساط سے باہر نہیں ہے ) تم پر کھلے گا کہ چیزیں بجائے خود مشکل نہیں ہیں، وہ مشکل لگتی ہیں اور اس لیے لگتی ہیں کہ ہر چیز کے گرد آرا اور تاثرات کے اتنے دبیز جالے بنے ہوئے ہیں کہ عام سی چیز بھی پراسرار، پیچیدہ اور کبھی کبھی تو عفریت نظر آنے لگتی ہے۔ صرف ایک ہنر سیکھ لو۔ ہر شے کو اس کے بارے میں ظاہر کیے گئے تاثر سے الگ کر کے دیکھنے کا ہنر۔‘‘

موصوف سے پوچھو کہ ان فرمودات کی روشنی میں تمہاری تشویش سے متعلق اس کی ’’رائے اور تاثر‘‘ کے بارے میں کیا حکم ہے؟

بہ ہر حال، تمہیں غور و خوض کا موقع دئیے بغیر ہی مراسلہ نگار نے اسی خط میں اپنی حتمی ’’رائے اور تاثر‘‘ سے تمہاری تشویش کے اسباب بھی خود ہی بیان کر دئیے ہیں:

’’تمھاری تشویش کا سبب وہ سوالات اور اعتراضات ہیں جو تم روز تنقید کے سلسلے میں سنتے اور پڑھتے ہو۔‘‘

(تمہیں ان اسباب پر غور کرنے کی دعوت: چہ معنی دارد)

جانِ وارث! تبلیغی نقاد کے خط سے اقتباسات محض تمہاری تسہیل کے لئے پیش کر رہا ہوں کہ میرا مکتوب پڑھتے ہوئے تمہیں بہ طور حوالہ اسے ساتھ نہ رکھنا پڑے۔

موصوف نے اپنے خط میں تاثر کی جارحیت کے خلاف بڑے جارحانہ تاثرات کا اظہار کیا ہے:

’’میں تاثر کے خلاف نہیں، تاثر کی جارحیت کے سلسلے میں تحفظات رکھتا ہوں۔ اگر تاثر یہ کہہ کر پیش کیا جائے کہ یہ کسی چیز کے بارے میں ایک شخص کا، ایک خاص موقع اور سیاق میں پیش کیا گیا تبصرہ ہے، جو کسی دوسرے وقت مختلف بھی ہو سکتا ہے (اور اس میں ایک نوع کا عارضی پن ہے)، کیوں کہ کوئی آدمی ایک لمحے میں سب باتیں، پوری وضاحت اور گہرائی کے ساتھ سمجھنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ نیز یہ بات بھی اصولی طور پر تسلیم کی جائے کہ کسی دوسرے شخص کو بھی اسی طرح تاثر ظاہر کرنے کا پورا حق حاصل ہے تو اس سے تاثر کی جارحیت قائم نہیں ہوتی، لیکن جب کوئی شخص کسی شے کے بارے میں اپنے تاثر کو ایسے پیش کرے، جیسے اس پر کوئی ابدی سچائی اتری ہو تو تمھیں فوراً چوکنا ہوجانا چاہیے۔ اپنی حدوں کے سلسلے میں فریب کے شکار افراد ہی تاثر اور سچائی کا فرق مٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘

’’یاد رکھو، طاقت صرف کرسی، بندوق، دھن کی نہیں، گروہ کی بھی ہے۔ جب تم طاقت کے منبع کو پہچان لو گے تو اس کے خوف سے باہر آنے میں تمھیں دقت نہیں ہوگی۔ تم یہ بھی دیکھو گے کہ جنھیں تم طاقت ور سمجھتے ہو، وہ خود بھی خوفزدہ ہوتے ہیں۔ کرسی، بندوق، دھن والے اور گروہ اسی لیے تنقید سے خوفزدہ رہتے ہیں۔‘‘

تاثر کی جارحیت اور اسے ابدی سچائی کے طور پر  پیش کرنے والوں سے چوکنا رہنے کی  تلقین کرنے کے فوری بعد ہی موصوف  ’’یاد رکھو‘‘ جیسے آفاقی حقیقتیں آشکار کرنے والے حکمیہ انتباہ سے اپنی بات کا آغاز کرتا ہے اور ’’تم یہ بھی دیکھو گے‘‘ جیسے علمِ قطعی اور حتمیت کے مظہر جملے سے بات آگے بڑھاتا ہے:

’’یاد رکھو، طاقت صرف کرسی، بندوق، دھن کی نہیں، گروہ کی بھی ہے۔ جب تم طاقت کے منبع کو پہچان لو گے تو اس کے خوف سے باہر آنے میں تمھیں دقت نہیں ہوگی۔ تم یہ بھی دیکھو گے کہ جنھیں تم طاقت ور سمجھتے ہو، وہ خود بھی خوفزدہ ہوتے ہیں۔ کرسی، بندوق، دھن والے اور گروہ اسی لیے تنقید سے خوفزدہ رہتے ہیں۔‘‘

ترنت جوابی خط لکھ کر مبلغ نقاد سے پوچھو کہ ساری پند و نصائح صرف تمہارے ہی لیے ہیں یا اسے بھی ان پر عمل پیرا ہو کر سدھرنے کا کوئی حق ہے۔

دیکھو نوجوان! ان مبہم اور مذبذب افکار کے غبار میں کہیں اپنا کھرا پن، تیقن اور بھروسا گم نہ کر بیٹھنا۔ اپنے موقف پر یقین اور اپنے فہم پر اعتبار ہی فکر و نظر کو تذبذب کے پاتال سے نکالتے ہیں۔ شش و پنج، گومگو اور اضطراب محض فکر کا عذاب ہیں۔ اپنا تاثر مکمل اعتماد اور دلیری کے ساتھ پیش کرو۔ تمہیں ایسی فکر دوسروں تک پہنچانے کا کوئی حق نہیں جس کی بابت  تم خود گومگو کا شکار ہو۔ ہر لمحہ اپنے موقف کے غلط ہونے کا خدشہ اظہار سے انکار کا باعث بنتا ہے۔ سچائی کی ایکسپائری ڈیٹ ذہن میں ہو تو اظہار نہیں ضبطِ اظہار کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ ہر لمحے کا ایک اپنا سچ ہوتا ہے، ببانگِ دہل اس کا اظہار کرو۔ بولنے سے پہلے تولو، تول پورا ہو تو کُھل کر اپنے تاثر کا اظہار کرو۔ اس خط سے جس کی ہر دوسری سطر پہلی کا ابطال ہے تم سوائے پریشانیء خیال کے اور کیا سیکھو گے۔

سَنت نقاد نے اپنے خط میں سوال اور اعتراض کی مکتبی جُگل بندی تو پیش کی ہے لیکن اسے اردو تنقید کے عصری رجحانات پر منطبق کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس مرحلے پر موصوف ایک مرتبہ پھر نظریے اور عمل کے تضاد سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ تمہیں طنز اور تمسخر سے احتراز کی تلقین کرنے والا چند سطور بعد ہی خود طناز بن گیا:

’’کبھی نہ بھولو کہ یہاں کوئی شخص، تنہا سب کچھ کرنے کا اہل نہیں۔ کوئی ایسا دعویٰ کرے تو اسے دیوانے کی بڑ سمجھو۔ دیوانے کی بڑ کو فکشن نگار اور تحلیل نفسی کے ماہر کے لیے چھوڑ دو‘‘

درویش نقاد نے اپنے مراسلے میں سوال اور اعتراض کی من چاہی تعریف، دل پسند تشریح اور اس کے من چاہے اطلاق سے ان دونوں کے درمیان تفریق کرکے تمہیں الجھانے کی کوشش کی ہے۔ اسے جواب میں لکھو کہ علمی اعتراض زیادہ زوردار سوال ہوتا ہے۔ کوئی بھی اعتراض سوال کے زریعے اور کوئی بھی سوال بہ شکل اعتراض کیا جا سکتا ہے یعنی سوال اعتراض ہوسکتا ہے اور اعتراض سوال لہذا اس مسئلے کی کھال اتارنے سے کچھ حاصل وصول نہیں ہونے والا۔ موصوف نے اس موضوع پر خطبہ محض اپنا رتبہ بڑھانے کے دیا گیا ہے تمہیں اس پر دھیان دے کر اپنا وقت ضائع کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔

مصلح نقاد، کے خط کا اصل مدعا بین السطور ہے۔ اسے کسی بات کا انتہائی رنج ہے جس پر وہ اپنے غصے کا اظہار بھی کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ  موصوف یہ بھی باور کرانے کا متمنی ہے کہ وہ جمہوری مزاج کا حامل ایک باوقار شخص ہے جو اختلافِ رائے کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتا ہے اور مکالمے کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ لیکن زبان و بیان سے لاعلمی، زہنی کشمکش، فکری الجھاؤ اور ژولیدہ بیانی مذکورہ اہداف کے حصول میں زبردست رکاوٹ ہے۔ نتیجہ: باہم متناقض خیالات، نظریے اور عمل کا تضاد ۔۔۔۔۔ زندہ باد۔

سادھو نقاد کا خط بہ غور پڑھو، تم جان لو گے کہ اس کا ہدف فن نہیں فن کار ہے۔ یاد رکھو، بدترین تنقید وہ ہے جو فن کو آشکار کرنے کی بجائے فن کار کا شکار کرے۔ تخلیق کار کی قیمت پر اپنے علم اور بصیرت کا اعلان محض نقد و ادب کا نقصان ہے۔ علم سے تخیل اور نظریے سے تخلیق کو مغلوب کرنے کی خواہش کے پیچھے نیت عموماً اپنے علم کی نمائش کی ہوتی ہے۔ اس حرکت سے تخلیق کا تو خیر کچھ نہیں بگڑتا تاہم تنقید کے پرزے اڑ جاتے ہیں۔ یاد رکھنا آرٹ کی دنیا مدرسہ نہیں جادونگری ہے جو خشک مکتبی بحثوں سے آپ کو اکتاتی نہیں، اپنی رنگا رنگی اور طلسم آفرینیوں سے لبھاتی ہے۔ علم و فضل کو تخلیقی تجربے کا نعم البدل سمجھ کر بے لطف مضامین لکھنے والے اور زبردستی حسن کے فارمولے اور مسرت کے پیمانے بنانے والے اس طلسم خانے کو مکتب بنانے پر بضد ہیں۔ یہ تختِ طلسمات کے مقابل تختہِ سیاہ رکھ کر تمہیں گرافوں اور چارٹوں کے زریعے نقد و ادب پڑھانا چاہتے ہیں۔

فکشنی اسلوب، ہئیت، ساختیات اور وصفِ زاتی پر تنقید کے اصول شعری تنقید کے قواعد سے یقیناً مختلف ہیں لیکن فکشنی تنقید ایسے ادیب نما حضرات پر نہیں ہوتی جو زبان کے کوالیفائنگ راؤنڈ ہی میں مقابلے سے باہر ہو جاتے ہیں

میرے عزیز! نکتہ رسی پر نکتہ آفرینی کو ترجیح دو اور ایسے معلم اور مصلح نقادوں سے دور رہو۔ یاد رکھو بہ طور نقاد تمہارا اصل کام کسی بھی تخلیق میں فنی اقدار کی نشان دہی کرنا ہے لیکن اس انداز سے کہ اس میں غنچہء بہار کی شگفتگی ہو، نہ کہ مکتبی افکار کی خشکی۔ ادب کا بیان والہانہ وارفتگیء شوق سے کرو کہ تمہاری تنقید میں پژمردہ اور نڈھال مشقت کی گھٹن کی بجائے زوقِ اکتشاف کی تازگی کا احساس ملے۔ خاطر نشان رہے، آرٹ مقنن نقادوں پر نہیں بل کہ  مشتاق طالب علموں پر اپنے نکتہ ہائے سر بستہ عیاں کرنا پسند کرتا ہے۔

نوجوان! جب تک تم اسٹیٹس کو کے حامی ادبی گروہوں کے آگے سر نہ جھکا دو اور ان کے حکم پر خزف ریزوں کو لعل و گہر نہ کہنے لگو، تم پر نت نئے طریقوں سے وار ہوتے رہیں گے۔  یہ خط بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اور مکتوب نگار انہی گروہوں کا نمائندہ ہے۔ سوال کی اہمیت پر پورا لیکچر جھاڑنے والے پرانے نقاد سے پوچھو کہ اس نے عصری اردو ادب پر آج تک کتنے سوال اٹھائے ہیں اور کتنی مرتبہ اس پر بےلاگ اور دو ٹوک رائے دی ہے؟ جواباً اس کی خاموشی تم پر حقیقت آشکار کر دے گی۔ میرے بچے!  ادیب نما نوٹنکیوں کے صحافتی رجسٹروں جیسے ناولوں کی تقاریبِ رونمائی میں کرسیء صدارت پر بیٹھ کر محض گروہی بالادستی کے  “عظیم الشان” مقصد کے لیے انہیں ادبِ عالیہ قرار دے کر ادبی معیار کو مصلوب کرنے والے افراد کے تنقیدی اخلاقیات پر دئیے گئے بھاشن کو قطعاً سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں۔

اے خورشیدِ صبحِ امید! نقاد کو شریف، بےضرر، مکتبی اور ہومیو پیتھک بنانے والے کسی ظاہراً اصلاحی ایجنڈے کا حصہ مت بننا اور ادبی مافیا کی غلیظ سوچ کی گھڑی ہوئی مِتھس اور اس کے تراشے ہوئے بت پاش پاش کرتے رہنا۔ وہ ادیب نما مسخرے جو دو دو درجن ” کتابیں” لکھنے کے باوجود صاف اور رواں اردو میں اپنے بچوں کو خیریت کا خط لکھنے پر بھی قادر نہیں، منکشف ہوتے ہی تمہارے تجزیوں پر منشیانہ تنقید کا الزام لگائیں گے۔ ان سے گھبرانے کی مطلق ضرورت نہیں کہ یہ نادان نہیں جانتے کہ تنقید ہمیشہ تخلیق کا دامن تھام کر اس کے پیچھے پیچھے چلتی ہے۔  منشیانہ تحریر پر تنقید بھی منشیانہ ہوتی ہے۔ جیسا کام ویسا دام، جیسی روح ویسے فرشتے اور جیسا منھ ویسی ہی۔۔۔۔۔ سمجھ گئے نا۔ یہ اصل میں اردو ادب کی ٹیلر شاپ کے وہ نالائق درزی ہیں جو شلواروں کو کالر لگا کر اور قمیصوں میں نیفے ڈال کر بھی قصور گاہکوں کا نکالتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ادیب نما جوکر ایسے بھی ہیں کہ اگر کوئی تنک مزاج گاہک ان کی بد زبانی کے ردِعمل میں ان کی طبیعت درست کرنے لگے تو بجائے مردانہ وار مقابلہ کرنے کے، خواجہ سراؤں کی طرح تالیاں پِیٹ پِیٹ کر ’’تپ گیا، تپ گیا‘‘ کہہ کر دوڑ لگا دیتے ہیں۔ فن کاری اور خودداری سے بہ یک وقت محروم ان ادیب نما رنگ بازوں کی ایسی حرکات کا ہرگز جواب نہ دو۔ تمہارا کام ادب کی عزت افزائی ہے اپنی کشور کشائی نہیں۔

اپنی تحریروں میں تعقید، ابتذال، شتر گربہ، غرابت، تنافر اور ضعفِ تالیف سے قاری کو تکلیف دے کر تمہارے تجزیوں سے بے نقاب ہونے والے تم پر شعری تنقید کے قواعد نثری ادب پر لاگو کرنے کی تہمت لگائیں گے۔ انھیں بتانا کہ یہ معائبِ سخن ہیں جو شعر و نثر کا اسلوب، آہنگ اور وصفِ زاتی مختلف ہونے کے باوجود ان دونوں پر یک ساں اثر انداز ہوتے ہیں اور فصاحت و بلاغت اور معیارِ شعر و نثر کو زیر و زبر کرتے ہیں۔ اس بابت انھیں ابن خلدون کا یہ قول بھی سناؤ: ’’نثر ہو یا نظم، الفاظ ہی سب کچھ ہوتے ہیں، خیال الفاظ کا پابند ہوتا ہے۔‘‘ اور ملارمے کے اس مشہور مکالمے کا حوالہ بھی دو جس میں اس نے ڈیگا سے کہا تھا: ’’میاں، شاعری خیالات سے نہیں الفاظ سے ہوتی ہے۔‘‘ جب دونوں اصنافِ سخن اپنے اظہار کے لیے الفاظ ہی کی پابند ہیں تو ان کے بیان کے معائب و محاسن کی جانچ کے اصول بھی کم و بیش ایک سے ہوں گے۔ فکشنی اسلوب، ہئیت،ساختیات اور وصفِ زاتی پر تنقید کے اصول شعری تنقید کے قواعد سے یقیناً مختلف ہیں لیکن فکشنی تنقید ایسے ادیب نما حضرات پر نہیں ہوتی جو زبان کے کوالیفائنگ راؤنڈ ہی میں مقابلے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ زبان و بیان کی عدالت کے سزا یافتہ ادیب  سنجیدہ فکشنی تنقید کے لیے ہمیشہ نا اہل قرار پاتے ہیں۔ میں نے تمہیں اپنے پہلے خط میں نصیحت کی تھی: بے ہنروں پر تنقید نہیں کی جاتی، انھیں بےنقاب کیا جاتا ہے۔ ان ادیب نما جوکروں کو کُھل کر بےنقاب کرو اور ادبی مافیا کے پراپیگنڈے کے گرد و غبار پر دیانت دار تجزیوں کا بھرپور چھڑکاؤ کرو۔ یہ دھول بیٹھے گی تو قارئین کو جینوئن ادیبوں کے چہرے نظر آئیں گے جو اشتہار بازی، لابنگ، پروپیگنڈے اور مارکیٹنگ سے کاملاً بےنیاز فصلِ ادب کی اپنے خونِ جگر سے آبیاری کرنے میں مصروف ہیں۔ گلشنِ ادب میں رونق انہی کے دم سے ہے۔ ان کی تحریروں کے مطالعے سے تمہاری تنقیدی بصیرت میں اضافہ ہوگا کہ عمدہ تنقید کے سوتے ہمیشہ اعلیٰ تخلیق ہی سے پھوٹتے ہیں۔

برخوردار! تم سے اور بہت سی ضروری باتیں کرنا چاہتا تھا لیکن سنیاسی نقاد کا خط سارا وقت لے گیا۔ اب بار بار مظفر علی سید کے میسج آ رہے ہیں کہ مجھے جلد زنجبیل کے عقب میں ملو۔ فاروقی کے آنے سے اب یہاں پہلے جیسا امن نہیں رہا۔ خدا خیر کرے، پتا کرتا ہوں، کیا معاملہ ہے۔ تم سے آیندہ بھی بات ہوتی رہے گی۔ اپنا اور اپنے قلم کا خیال رکھنا۔

خیر اندیش

وارث علوی

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...