مطالعے سے زیادہ تجربے اور مشاہدے کا قائل ہوں
تخلیقی عمل سے متعلق معروف ناول نگار فاروق خالد سے گفتگو
فاروق خالد سے میرا اولین تعارف ان کے ناول سیاہ آئینے سے ہوا جیسا کہ کسی بھی اچھے قلم کار سے تعارف کی صورت ہوسکتی ہے۔ پرانی کتابوں کے بازار میں، جو انارکلی بازار میں ہر اتوار کو برپا ہوتا تھا، بائبل سوسائٹی کے سامنے فٹ پاتھ پر کوئی بیس ایک سال پہلے کتابوں کے ایک سٹال پر مجھے یہ ناول ملا۔ بلکہ سٹال کے مالک نے خصوصی طور پر اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ، کہ یہ پلاسٹک کے لفافے میں لپٹا ہوا تھا، کہا کہ اگر یہ نہیں پڑھا تو سمجھواردو ادب نہیں پڑھا۔یہ ناول کے پہلے ایڈیشن کی ایک کاپی تھی، جسے مکتبہ میری لائبریری نے پیپر بیک میں شائع کیا تھا۔ اس ناول کو 1975میں سال کے بہترین ناول کے طورپر ’آدم جی ادبی انعام‘ ملا تھا۔
سیاہ آئینے کا نشہ بہت گہرا تھا۔ اس کی نثر میں جاذبیت کی صورت ہے اور یقینا اسے ایک وجد کی کیفیت ہی میں لکھا گیا ہوگا۔ تب میری بھی عمر کچھ اتنی ہی تھی جتنی عمر میں فاروق خالد نے یہ ناول تحریر کیا تھا۔ناول کے شروع میں ایک مختصر سا نوٹ موجود ہے جو مصنف نے اس ناول کے ترمیم شدہ ایڈیشنوں میں بھی باقی رہنے دیا ہے۔ اس نوٹ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ مصنف نے کوئی پچیس ایک برس کی عمر میں خود کو یہ ناول لکھنے کے لیے کمرے میں محبوس کرلیا تھا۔ چھ ایک ماہ کی تنہائی میں انھوں نے یہ ناول لکھا۔ جس وارفتگی اور سرمستی کی کیفیت میں یہ تخلیق ہوئی، اس کا اندازہ ناول کا متن پڑھ کر ہوتا ہے۔
اس سے کئی ایک سال بعد جنگ پبلشرز لاہور میں ملازمت کے شروع کے عرصہ میں شاید 1990کے لگ بھگ اس ادارے کے انچارج اور نہایت عمدہ انسان مظفر محمد علی (مرحوم) کے دفتر میں پہلی بار فاروق خالد سے تعارف ہوا، تو انھوں نے ایک پنسل جو انگلی کی لمبائی سے بھی کم تھی، دکھاتے ہوئے کہا کہ جیسے یہ زیادہ چل چکی ہے، اور کم باقی رہ گئی ہے، ایسی ہی عمر عزیز بھی ہے، کم باقی رہ گئی ہے جس میں باقی ماندہ کام سمیٹ رہا ہوں۔ وہ جنگ پبلشرز سے اپنے سفرنامے چھپوانے کے لیے تشریف لائے تھے۔ اس کے بعد فاروق خالد سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ معلوم ہوا کہ وہ سیاہ آئینے لکھنے کے بعد ہی ملک سے باہر چلے گئے تھے۔ جب کہ مقصد دنیا بھر میں آوارہ گردی کرنا اور نئے ناول کے لیے مواد جمع کرنا تھا۔ آج کل فاروق خالد ہالینڈ میں مقیم ہیں اور آپ کی دو بیٹیاں بھی ہیں۔
فاروق خالد ایک غیر معمولی سیاح بھی ہیں۔ اپنی گاڑی میں سفر کرتے ہیں، جس میں ان کی خواب گاہ بھی ہے، باورچی خانہ بھی۔ کہیں راستے میں کسی ہوٹل یا سرائے میں قیام نہیں کرتے، گاڑی ہی میں سوتے ہیں، کئی مہینوں کا سفر کرکے ہالینڈ جہاں کے وہ شہری ہیں، پاکستان آتے ہیں، جہاں گڑھی شاہو میں ان کا آبائی گھر ہے، اور پھر چند ماہ یہاں قیام کرکے کسی مختلف راستے سے ملکوں کی سیر کرتے ہوئے واپس جاتے ہیں۔ یوں وہ دنیا کے اسّی سے زائد ملک اور کئی ملک تو ایک سے زائد بار گھوم چکے ہیں۔ ان کے چار کے قریب سفر نامے شائع ہوچکے ہیں۔ دو ناول شائع ہوئے۔ سیاہ آئینے کے بعد ان کا ناول اپنی دعاؤں کے اسیر شائع ہوا۔ اب وہ انھی دو ناولوں کے تسلسل میں اپنے تیسرے ناول پر کام کر رہے ہیں۔ ہالینڈ کے شہری ہیں۔ عمر عزیز کے ستّر کے عشرے کے پہلے نصف میں ہیں۔ لیکن مضبوط اعصاب اور توانا ارادوں اور جذبوں کے مالک ہیں۔ بے غرض خالص تخلیقی رویے پر یقین رکھتے ہیں جو ہر طرح کی تشہیر سے محترز ہوتا ہے اور فنا فی الادب ہونے کو اچھے اور سچے ادب کی تخلیق کے لیے لازمی شرط قرار دیتے ہیں۔ خود تمام عمر ہر طرح کی ادبی تشہیر کی ہر صورت سے احترازکیا۔
ذیل کا انٹرویو تخلیقی عمل سے متعلق ان کے طریقہ کار اور رویے پر روشنی ڈالتا ہے۔
س ۔ آپ نے جیسا کہ بتایا آپ بہت چھوٹی عمر میں ملک سے باہر چلے گئے تھے لیکن جب تک یہاں صحافت اور ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔ ابتدائی برسوں کی ادبی تربیت اور لکھنے کے عمل کے بارے میں کچھ بتائیے؟
ج۔میرے والد، ملک محمد حسین، پڑھے لکھے آدمی تھے۔ اپنے بچپن میں مَیں نے اپنے گھر میں ان کی ایک مختصر لائبریری دیکھی تھی جس میں اقبال، غالب، محمد حسین آزاد، ابوالکلام آزادکی کتب اور امام غزالی کی کیمیائےسعادت اور تاریخِ ابنِ خلدون کے علاوہ کئی اورکتابیں تھیں۔ مَیں ان میں سے بیشتردسویں جماعت میں پہنچنے کے قریب پڑھ چکا تھا۔ مَیں نے اپنی ابتدائی تعلیم انگلش میڈیم میں حاصل کی تھی۔ ایف-ایس-سی- کرنے کے بعد مَیں انگریزی ادبِ عالیہ اور فرانسیسی اور روسی ادبِ عالیہ کے انگریزی تراجم ذوق و شوق سے پڑھا کرتا تھا۔ لکھنے کا آغاز مَیں نے اخبارات سے کیا اور تب بہت جلد مَیں افسانے اور ایک ناول لکھنے میں منہمک ہوگیا۔ جہاں تک انسپریشن کا تعلق ہے اس ضمن میں مَیں مطالعے سے کہیں زیادہ مشاہدے اور تجربے کا قائل ہوں۔ یعنی، بقولِ شاعر: ” خدا اگردلِ فطرت شناس دے تجھ کو + سکوتِ لالہ و گل سے کلام پیدا کر”۔
س۔ لکھتے وقت جگہ و ماحول کے انتخاب سے متعلق کچھ خاص اہتمام ہوتا ہے؟
ج- مجھے لکھنے کے لیے کسی خاص جگہ یا ماحول کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے لیے مجھے کاغذ اور قلم درکار ہوتے ہیں۔ کئی ایک تحریریں مَیں نے گھپ اندھیرے میں بھی سپردِ قلم کی ہیں۔
س-لکھنے سے پہلے کی تیاری کے بارے میں عبداللہ حسین نے بتایا تھا کہ وہ آٹھ گھنٹے اس کی تیاری کرتے ہیں، جس میں وہ گھر سے باہر پارک میں سیر بھی کرتے ہیں، ٹی وی بھی دیکھتے ہیں، فیس بک کی براؤزنگ بھی کرتے ہیں؟تیاری کے اس عمل کی آپ کے ہاں کیا صورت ہے؟
ج- اس کے لیے مَیں بستر پر نیم دراز ہو کر یا میز کے سامنے کرسی پر بیٹھ کر یکساں آسانی سے لکھ لیتا ہوں۔
س۔ ناول، سفرنامہ یا افسانہ لکھنے سے پہلے کیا نوٹس لیتے ہیں، جیسے معروف ناول نگار مرزا اطہر بیگ نے ایک موقع پر کہا کہ وہ تو لکھنے کے دوران بھی الگ کاغذ میں اپنی لکھت کی پیش رفت سے متعلق نوٹس لیتے ہیں۔ آپ کے لکھنے کے رویے میں اس کی کیا صورت ہے؟
ج۔ مَیں نوٹس لینے کا تردّد نہیں کرتا۔ مَیں اس معاملے میں کلی طور پرسینتھیسس، یعنی مشاہدے، مطالعے اور تجربے کے نتیجے میں امتزاجِ تخیًل کا قائل ہوں۔ یوں سمجھیے کہ گائے یا کوئی اور چرند سبز گھاس کھاتا اور بے رنگ پانی پیتا ہے اور اس سے سفید دودھ برآمد ہوتا ہے -میرے نزدیک نظرِثانی کرنا واجب ہے۔
س- کیا لکھنا ایک خوش گوار عمل ہے؟
ج- اس دورانیے میں مَیں مختلف کیفیات میں ہوں، کبھی کم و بیش بت بنا ہوتا ہوں تو کبھی مسکرا رہا یا آنکھوں میں نمی لیے ہوتا ہوں۔ بہرحال جذب و کیف والی صورت ہوتی ہے۔
س۔ کرداروں کا معاملہ بھی فکشن نگار کے لیے ایک خاص معاملہ ہوتا تھا۔ کچھ کردار آسان ہوتے ہیں، کچھ مشکل۔ کچھ عزیز جان ہوتے ہیں، کچھ ناگوار۔ پھر کرداروںکی ساخت و پرداخت ہوتی ہے،ان کے نام منتخب ہوتے ہیں، ان کے مطالبے ہوتے ہیں، اور لکھنے والا انھیں لکھنے کے بعد خود کو ان کا پابند بناتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ آپ کے حوالے سے اس معاملے کی کیا صورت رہی؟
ج۔ اس معاملے میں نام بر وقت ذہن میں آتے ہیں، بعض دفعہ تو ایک نام سے ہی پورا افسانہ یا ناول کا ایک حصّہ تشکیل پاتا ہے۔ مجھے اپنے تحریر کیے تمام کردار سے برابر قربت محسوس ہوتی ہے، مگر اپنے ناول، ” سیاہ آئینے” کے ایک کردار ” عزیز”کو لکھتے وقت بعض اوقات میری آنکھوں میں آنسو تھے۔
س- کن کتابوں اور لکھاریوں سے آپ نے سیکھا ؟
ج- جواب کی ایک لمبی فہرست ہے۔ تخًیلات کے ضمن میں جس کتاب نے مجھے نسبتا زیادہ متاثرکیا وہ بائبل کا پرانااورنیاعہد نامہ ہے۔ ویسے تمام مشاہدہ و تجربہ ہی ان پڑھے کو غور و فکر سے پڑھنا ہے۔
فیس بک پر تبصرے