اقلیتوں کے مسائل، حقائق وتجاویز
انسانی حقوق اور اقلیتوں کے مسائل کے حوالے سے پاکستان ایک طویل عرصے سے تسلسل کے ساتھ اعترضات و خدشات کی زد میں ہے۔ اس کی حالیہ مثال چند دن قبل یورپی یونین کی ایک قرارداد کہ پاکستان جب تک توہین مذہب کے قوانین پر نظرثانی نہیں کرتا اس وقت تک اسے یورپی ممالک میں اپنی برآمدات کے لیے حاصل ’جی ایس پی پلس‘ کا ترجیحی درجہ ختم کردیا جائے۔یورپی یونین کے پارلیمان میں پاکستان کے زیربحث آنے کا پس منظرگزشتہ دنوں تحریک لبیک کی جانب سے ہونے والے ملک گیر مظاہرے تھے جن میں فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔قرارداد میں فرانس کے خلاف ہونے والے مظاہروں کی مذمت بھی کی گئی۔
بدقسمتی سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کاتصورایک ایسے ملک کا بن رہاہے کہ جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی ہوں، اقلیتوں کے لیے زمین تنگ کردی گئی ہو اور جہاں ریاست ان تمام معاملات میں ظالم کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہو۔یہ تصور اس طور پختہ بنادیا گیا ہے کہ ملک کااپنا عام شہری بھی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا واقعی ہم ایک ایسا ملک ہیں جہاں انصاف کی بات نہیں ہوتی اور جہاں مذہب کے نام پر صرف جبر کو روا رکھا جاتا ہے؟ اگر کچھ غور کیا جائے تو واضح طورپہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ تنقید کے ہر پیرائے میں کہیں نہ کہیں مذہب کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ پاکستان میں سماجی سطح پر جس قسم کی ناہمواری پائی جاتی ہے اس کا سبب بھی یہ گردانا جاتا ہے کہ جیسے مذہب اس کی وجہ ہے۔ حال ہی میں ڈاکٹر شعیب سڈل کی سربراہی میں قائم یک رکنی اقلیتی کمیشن نے اپنی رپورٹ عدلت عظمی میں جمع کرائی ہے جس میں تجویز دی گئی ہے کہ مذہب سے متعلقہ تعلیمات کو نصاب کے اندر صرف اسلامیات کے مضامین تک ہی محدود رکھا جائے۔پاکستان میں مذہبی تعلیمات کے حوالے سے نصاب بھی وقتاَ فوقتاَ زیربحث رہتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ ملک میں شدت پسندی اور بنیادپرست ذہنیت کے فروغ کا ایک بڑا سبب نصاب ہے،لہذا اس سے مذہبی تعلیمات کو کم کیا جائے۔
گویا مجموعی طورپہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہو،اقلیتوں کے مسائل کی بات ہو یا شدت پسندی کا ذکر آئے، ہر سطح پر مذہب اور مذہبی تعلیمات کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے،اور یہ بحث ملک کی مذہبی شناخت کی جانب موڑ دی جاتی ہے۔اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان میں ایک خاص حلقے نے مذہب کے نام پر تشدد کو مجاز کہا، ملک ایک عرصے تک دہشت گردی کی آگ میں جھلستا رہا ہے اور یہاں عام لوگ اس سے شدید متأثر ہوئے۔تاہم یہ کہنا درست نہیں کہ اس سب کا ذمہ دار مجموعی طور پہ مذہب ہے یا ملک کا مذہبی تشخص ہے۔ملک کے معتدل مذہبی حلقے نے ہمیشہ ریاست کا ساتھ دیا،متشدد تحریکوں اور جماعتوں سے دستبرداری کا اظہار کیا۔اگر مذہبی طبقے کے اندر سے بڑی طاقت ریاست کے شانہ بشانہ نہ کھڑی ہوتی تو متشدد تحریکوں وجماعتوں کو بے اثر نہ کیا جاسکتا۔تحریک لبیک کے معاملے میں مظاہرے ہوئے اور صورتحال مزید ابتری کی جانب جاتی نظر آئی لیکن مذہبی حلقے کے اندر کی ثالثی سے معاملات پر قابو پالیا گیا۔ مذہبی جماعتوں سے جڑے کئی مخدوش معاملات اسی نوعیت کے ہیں جن میں انتظامی نوعیت کی کوتاہیاں شامل ہوتی ہیں۔ انتظامی امور جب بے قابو ہوتے ہیں تو ان کے حقیقی اسباب کو تلاش کرنے اور انہیں درست کرنے کی ضرورت ہوتی ہے،جس کی طرف عموماَ قدم نہیں اٹھایا جاتا،اور ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ملک کی بعض مذہبی جماعتیں احتجاج اور مظاہروں کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں جس کی حمایت نہیں کی جاسکتی،تاہم سوال یہ بھی ہے کہ انتظامی سطح پر امور کتنے شفاف اور بے غبار ہیں؟
یہ پاکستان میں مذہب اور مذہبی جماعتوں کے مسائل کے حوالے سے نقطہ نظر کا ایک رخ ہے کہ ہم داخلی سطح پر بعض معاملات کو بے غبار اور شفاف نہیں بناسکے۔ہماری حھوٹی چھوٹی انتظامی ناکامیاں اور نااہلیاں اس حد تک خرابی کا باعث بن جاتی ہیں کہ ان کی وجہ سے مذہب اور ملک کی مذہبی شناخت پر سوال کھڑے کردیے جاتے ہیں۔
اب تصویر کے ایک دوسرے رخ پر نظر ڈالی جانی چاہیے۔ پاکستان انسانی حقوق اور اقلیتوں کے مسائل کے حل کے لیے تسلسل کے ساتھ کوششیں بروئے کار لا رہا ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ان اقدامات کو بین الاقوامی سطح پر سراہا نہیں جاتا۔ حتی کہ پروپیگنڈہ اس حد تک کیا جاتا ہے کہ حقیقی اعدادوشمار کا جائزہ بھی نہیں لیا جاتا ۔صرف پاکستان میں ہونے والے بعض ناخوشگوارواقعات کواتنا اچھالا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے یوں لگتا ہے جیسے پاکستان میں محض ظلم اور ناانصافیاں روا رکھی جاتی ہیں اور اقلیتوں کو زندہ رہنے کی کوئی آزادی میسر نہیں ہے۔ اگر پاکستان کا بھارت کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان انسانی حقوق اور اقلیتوں کے حوالے سے بدرجہا بہتر ہے۔ کشمیر میں لاکھوں کی آبادی کئی مہینوں سے سخت فوجی محاصرے میں قید ہے۔ حتی کہ شہریت بل کی اساس پر ہزاروں لوگوں سے ان کی شہریت چھیننے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے باوجود دنیا کی مارکیٹ میں اس پر دروازے بند نہیں ہوتے۔ امریکاکا سرکاری ادارہ’یونائیٹڈسٹیٹ کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجلس فریڈم‘(USIRF)مسلسل دو سال سے بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کر رہا ہے کہ بھارت اس معاملے میں پیچھے کی طرف جا رہا ہے،اور اس بنیاد پر وہ اپنی رپورٹس میں اسے بلیک لسٹ کرنے کا عندیہ بھی دے چکا ہے۔مگر بدقسمتی سے پاکستان کی صورتحال یہ ہے کہ وہ انسانی حقوق اور اقلیتی برادریوں کی سہولت کے لیے کئی اچھے اور معیاری اقدامات کرچکا ہے مگر انہیں سرکاری سطح پر دنیا کے سامنے بہتر انداز میں سامنے نہیں لاسکا۔
پچھلے چند سالوں کے دوران پاکستان نے متعدد ایسے اقدامات کیے ہیں جو قابل تعریف ہیں اور جن کا دنیا نے اعتراف بھی کیا ۔ان میں سے ایک سکھ مذہب کے یاتریوں کے لیے کرتارپور راہداری کو کھولنا نمایاں قدم ہے۔بھارت سے سے سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو یہاں آنے کی سہولت فراہم کی گئی۔
آسیہ مسیح کی رہائی پر پاکستان میں سخت احتجاج ہوئے۔ یہ ہائی پروفائل کیس بن چکا تھا ،کسی کو یقین نہیں تھا کہ پاکستان آسیہ مسیح کو چھوڑنے کا دباؤ برداشت کر پائے گا۔ مگر اسےرہائی ملی اور پاکستان سے باہر محفوظ طریقے سے پہنچایاگیا۔ پاکستان میں دنیا بھر کی کی اقلیتی برادریوں کے لیے مذہبی سیاحت کا منصوبہ متعارف کرایا گیا۔ غیرمسلموں کے عبادت خانوں اور ان کی یادگاروں کی تعمیرنو کی گئی اور ان جگہوں کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کیے گئے۔
یکساں نصاب تعلیم تحت وفاقی وزارت تعلیم نے پانچ مذاہب کیلئے الگ مذہبی ترتیب دئےاور اس نصاب سازی میں متعلقہ تمام اقلیتوں کو مسلسل مشاورت میں شامل کیا گیا ،ملک کی تمام انتہاپسند اور شدت پسند تنظیموں پر پابندی عائد کی گئی ہے،ان کے رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ تنظیموں کے اثاثے منجمد کیے گئے،ان کے ادارے بھی تحویل میں لیے گئے ہیں۔
یہ چند ایسے اقدامات ہیں جو پاکستان نے حالیہ سالوں میں اٹھائے ہیں اور نہایت تیزی کے ساتھ ان پر عملدرآمد بھی کرایاگیا ہے۔یہ سب اقدامات انتہائی مؤثر اور اہم ہیں۔مگر اس کے باوجود بھی صورتحال یہ ہے کہ ملک میں انسانی حقوق اور اقلیتوں کا مسئلہ بین الاقوامی حیثیت اختیار کرگیا ہے جس کے اثرات بھی بہت بڑے اور گہرے ہیں۔سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ ہم جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کی بنسبت عملاَ بہتر اقدامات کر رہے ہیں مگر ہماری شبیہ مخدوش ہے اور مسائل کا سامنا ہے؟ اس کی کئی وجوہات ہیں جن کا خلاصہ تجاویز کی شکل میں یہاں پیش کیا جاتا ہے۔
ایک تو یہ کہ پاکستان میں ریاستی سطح پر انسانی حقوق اور اقلیتوں کے مسائل سے جڑے امور کو دیکھنے کا عمل تقسیم کا شکار ہے۔جب بھی پاکستان کو اس سے متعلقہ کوئی چیلنچ درپیش ہوتاہے تو یہ واضح نہیں ہوپاتا کہ اس پر کام کرنے اور اس ضمن میں اقدامات کرنے کی ذمہ داری کس کی ہے۔ اقلیتوں کے حوالے سے دو کمیشن فعال ہیں ایک سپریم کورٹ کے فیصلے کی بنیاد پر شعیب سڈل کمیشن جبکہ موجودہ حکومت نے تمام مذاہب پر مشتمل نیشنل مینارٹی کمیشن بنایا ہے،
جس کے چئیرمین کیولا رام چیلانی ہیں، دونوں کمیشن کے بیانات اور موقف آپس میں متضاد ہیں۔
وزات مذہبی امور کیساتھ بین المذاھب ہم آہنگی کا شعبہ بھی ہے جبکہ وزارت انسانی حقوق کا مطالبہ ہے کہ یہ ہمارے پاس ہونا چاہئے، لیکن حال ہی میں حکومت نے بین المذاھب ہم آہنگی اور مشرق وسطی کیلئے علامہ طاہر اشرفی کو مشیر قرار دیا ہے۔
اس کیساتھ ساتھ مندر سمیت کئی مسائل اسلامی نظریاتی کونسل میں اگئے، جب کئی واقعات پر وزات خارجہ بھی موقف دیتا ہے، اتنے اداروں ،مشیروں اور وزیروں کی آپس میں رابطہ کاری کا بھرپور فقدان ہے ، اور کئی واقعات پر متضاد بیانات معمول کا حصہ ہیں،
پاکستان انسانی حقوق اور اقلیتوں کی صورتحال کے حوالے سے دیگر ممالک کی رپورٹس پر اعتماد کرتا ہے۔ جبکہ اس بات کی ضرورت ہے کہ پاکستان سالانہ اپنی رپورٹ جاری کرے۔تاکہ ایک شفاف طریقے سے یہ چیز واضح کہ پاکستان کس حد تک ان امور میں بہتری کی جانب گامزن ہے۔پاکستان میں اقلیتوں کی حالت کیسی ہے یہ بیان کرنے کے لیے یہاں کے اقلیتی وفود کی رائے لی جانی چاہیے۔انہیں آگے لایا جائے اور ان کی بات کو آگے بڑھایا جائے۔ اس سے پاکستان کا امیج بہتر ہوگا۔
اس کے علاوہ یہ پہلو بھی اہم ہے کہ پاکستان کے اندر صوبائی سطح پر انسانی حقوق اور اقلیتوں کے مسائل کے حوالے سے اس نوعیت کا کام نہیں ہو رہا جس کی ضرورت ہے۔ وزارتِ انسانی حقوق، وزارت مذہبی امور اور اقلیتی کمیشن کی باڈیز کو مشترکہ طور پہ ایک ڈھانچہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ان تمام اداروں کے مابین اشتراک نہیں ہوگا تو نتائج خوش آئند نہیں نکلیں گے۔
پاکستان میں ان تمام معاملات میں قانون موجود ہیں ۔ا گر ان کا درست استعمال ہو اور ایک منظم طریقے سے ان پر عمل کیا جائے کہ اس میں جانبداری کا کوئی شبہ نہ ہوتو اس طرح کے مسائل پیچیدہ صورتحال اختیار نہیں کریں گے۔اگر بالفرض قانونی سقم موجود بھی ہیں تو انہیں دور کیا جاسکتا ہے۔ قانونی نظام میں بے شمار پیچیدگیاں ہیں جس کیوجہ سے توہین مذہب کے واقعات بھی مسلسل تعطل کے شکار رہتے ہیں جس کیوجہ سے ماورائے عدالت قتل عام میں مسلسل اضافی ہوتا رہا ، بلکہ ایک بار تو ملزم کو کمرہ عدالت میں ماردیا گیا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے واقعات کیلئے خصوصی کورٹس تشکیل دیے جائیں ، جس میں بروقت فیصلے ہوں،اور مظلوموں کی داد رسی ہوسکے۔
میری رائے میں وزارت خارجہ یا پرائم منسٹر آفس میں ان امور کے لیے ایک خصوصی شعبہ تشکیل دیا جائے جس کے تحت اقلیتی کمیشن،اسلامی نظریاتی کونسل،وزارت مذہبی امور اور وزارت انسانی حقوق مل کر ایک کمیٹی تشکیل دیں جو ایک مربوط پالیسی رپورٹ مرتب کرے اور یورپی یونین سمیت دنیا بھر میں اسے پیش کرے۔اس مقصد کے لیے’ کنگ عبداللہ انٹرنیشنل سنٹر برائے بین المذاہب وبین الثقافتی مکالمہ‘ آسٹریا، اسلامی ممالک کی تنظیم OIC ملائیشیا اور ترکی میں ہونے والے کام کا جائزہ لیا جائے اور اس کی روشنی میں آگے بڑھا جائے۔
فارن آفس اور برسلز سمیت ہر جگہ پاکستان کے سفارتی عملے پر بھی سوال اٹھتا ہے کہ اتنی بڑی کارروائی کا سلسلہ جاری تھا اور ہمارے متعلقہ ادارے بے خبر تھے ؟
نیز دنیا بھر میں تمام سفارتکار بین المذاھب تقریبات میں شرکت کرتے ہیں جبکہ پاکستانی ایمبیسیز کی حاضری سب سے کم ہوتی ہے۔
پاکستان نے اپنی سطح پر بہت مؤثر اور نمایاں اقدامات کیے ہیں مگر اس کے باوجود اس کے خلاف ہونے والا پروپیگنڈہ زیادہ کامیاب ہے،ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کریں اور دنیا کو بتائیں کے اعدادوشمار اور حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو پاکستان خطے کے بہت سارے ممالک سے آگے ہے۔مگر اصل بات یہ ہے اس پرمقتدر احباب توجہ فرمائیں اور اسے مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر اٹھایا جائے۔
مذکورہ سطور میں اس مسئلے کے انتظامی پہلو پربات کی گئی ہے اس مسئلے کے داخلی ، مذہبی ، اور عالمی پہلو بھی ہیں جس پر مزید تفصیل کی ضرورت ہے،
فیس بک پر تبصرے