گوادر سالانہ فیسٹیول

843

گوادر جسے بلوچی زبان میں گوات در یعنی ہوا کا دروازہ کہتے ہیں اس وقت نہ صرف پاکستان میں پاک چائنہ اقتصادی راہداری کے سبب بہت اہمیت کا حامل ہے وہیں گوادر اپنے گہرے سمندر ( ڈیپ سی) کی بنا پر دنیا کے ایک بڑے حصے کےلیے معاشی استحکام و اقتصادی ترقی کی وجہ ہے، سیاسی ماہرین کے مطابق جہاں پہ گوادر جیواسٹرٹیجیکل اہمیت ہونے کی وجہ سے پوری دنیا کی نگاہوں میں کھٹک رہا ہے وہاں تیسری عالمی جنگ کا ممکنہ مقام یہی خطہ بن سکتا ہے۔
گوات در یعنی گوادر جسے بگاڈ کر گاوادر بھی پکارا جاتا ہے بک فیسٹیول کے نام پر منعقدہ تقریبات کے سبب مکران میں حالیہ کچھ سالوں سے علمی و ادبی مرکز کی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔ آر سی ڈی سی گوادر میں گزشتہ نو سالوں سے فروری کے آخر یا مارچ کے شروع میں ہر سال تین روزہ میلہ سجتا ہے جہاں کتابوں کے اسٹالز لگتے ہیں، علمی و ادبی اور سیاسی مجالس جمتے ہیں، شعر و ادب پر بات ہوتی ہے نئی کتابوں کی رونمائی کے تقاریب ہوتے ہیں ان تین دنوں میں پورا مکران بلکہ سندھ اور بلوچستان کے دیگر مقامات پر سے لوگ آتے ہیں اور اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔
اس سال 24 فروری کو گوادر میں بک فیسٹیول کا آغاز ہوا جو کرونا وائرس کی وجہ سے دو سال تعطل کا شکار رہا تھا۔ دو سالہ وقفہ کی وجہ سے اس سال کا بک فیئر کئی حوالوں سے یادگار ایونٹ تھا، اس میں معروف صحافی جناب وسعت اللہ خان کے علاوہ فاطمہ حسن، ضرار کھوڑو، مبشر زیدی، کراچی سے ضیاء الرحمن،اسلام آباد سے محمد عامر رانا اور بلوچستان کے سیاسی معاملات پر نوجوان تجزیہ نگار رفیع اللہ کاکڑ خصوصی طور پر شریک رہے۔ انہوں نے مختلف سیشنز کیے، شرکاء کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دیے، ایک سیشن اس سال بھی کتابوں کی تقریب رونمائی کا تھا جس میں معروف صحافی اور پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے سربراہ محمد عامر رانا کے ناول “میرجان” کے ساتھ ساتھ بلوچی زبان کے ممتاز شاعر مبارک قاضی کے دو شعری مجموعے، منیر مومن کا ایک شعری مجموعہ اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ادیب منیر احمد بادینی کی ناول نگاری پر بلوچی زبان میں لکھی گئی شرف شاد کی کتاب شامل تھیں۔

دوسری طرف بلوچستان اور کراچی سے مختلف پبلشرز کی طرف سے درجن سے زیادہ کتابوں کے اسٹالز لگائے گئے جس میں منتظمین کے مطابق تقریباً 15 لاکھ سے زائد کتب فروخت ہوئیں۔
کئی سال پہلے معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی نے کہا تھا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ کتابیں بلوچستان میں بکتی ہیں اور اور بلوچستان میں مکران ڈویژن کے نوجوان کتابوں میں سب سے زیادہ دلچسپی لیتے ہیں گوادر فیسٹیول ڈاکٹر مبارک علی کے اس بات کی تصدیق کرتا ہے۔
اب ایسا ہے کہ گوادر صرف اپنے خوش ذائقہ گوادری حلوہ اور محض لذیز مچھلیوں کے لیے مشہور نہیں بلکہ گوادر کےتین روزہ سالانہ بک فیئر کی شہرت پورے پاکستان میں پھیل چکی ہے۔
مکران ڈویژن کے اس خوبصورت ساحلی پٹی کو اگر سی پیک عالمی استعمار کی جنگ میں نہ بدل پایا تو صدیوں سے آباد بلوچ اپنی زمین کے اس حسین ٹکڑے پر آزادی سے رہنے کے مالک بنے رہے تو گوات در یونہی آباد رہے گا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...