پی ٹی آئی کی خیبرپختونخواہ میں حکومت : وعدے ، دعوے اور حقیقت

856

خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کے بعد عمران خان نے اس صوبے کو ماڈل صوبہ بنانے کا اعلان کیا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ خیبر پختونخوا میں ان کی حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی کی بنیاد پر 2018 کے انتخابات میں ان کی جماعت پورے ملک میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی

خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کے بعد عمران خان نے اس صوبے کو ماڈل صوبہ بنانے کا اعلان کیا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ خیبر پختونخوا میں ان کی حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی کی بنیاد پر 2018 کے انتخابات میں ان کی جماعت پورے ملک میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔

خیبر پختونخوا حکومت نے اپنے پہلے ہی بجٹ میں تعلیم ، صحت اور صنعت کے میدان میں انقلابی اقدامات کیلئے خطیر رقوم مختص کی گئیں اور اداروں میں اصلاحات کا عمل شروع کیا گیا اور ان میں سب سے زیادہ اصلاحات محکمہ پولیس میں لائی گئیں جس میں انسداد دہشتگردی فورس اور تفتیشی و تحقیقاتی سکولوں کا قیام عمل میں لایا گیا اور اس محکمے کو انتظامی امور کے حوالے سے خود مختار ادارہ بنایا گیااور بعد میں ان اصلاحات کو قانونی تحفظ بھی فراہم کیا گیا، اسی طرح صحت، تعلیم و سیاحت میں بھی اصلاحات کی گئیں۔لیکن بدقسمتی سے یہ عمل صرف چار ، پانچ محکموں کی اصلاحات کی حد تک ہی محدود رہا اور تبدیلی کے بڑے بڑے دعوے حقیقت میں تبدیل نہیں ہوسکے، صوبے کو ماڈل صوبہ بنانے کیلئے جن میگا پروجیکٹس کا اعلان کیا گیا تھا ان پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔

محکمہ تعلیم کی بات کی جائے تو یہ محکمہ عمران خان کی توجہ کا مزکز تھا اور وہ مسلسل یہ دعوی کرتے رہے کہ قومیں تعلیم سے بنتی ہیں اس لیے ہم خیبر پختونخوا میں تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کرتے ہوئے پورے صوبے میں ایک یکساں نظام تعلیم اور موٹروے صوابی کے مقام پر ایجوکیشن سٹی بنائیں گے، جس کے لئے پی ٹی آئی نے اپنے پہلے بجٹ میں رقم مختص کی اور کرنل شیر انٹرچینج کے مقام پرتیس ہزار کنال زمین کی نشاندہی بھی کی گئی لیکن اس کے بعد نہ تو یکساں نظام تعلیم پر کچھ پیش رفت ہوسکی نہ ایجوکیشن سٹی پر۔ یہاں تک کہ آخری بجٹ میں ان منصوبوں کے لئے ایک روپیہ بھی مختص نہیں کیا گیاتاہم انگلش میڈیم اور مانیٹرنگ سسٹم کو متعارف کرایا گیا، جس کو عوام کی جانب سے سراہا بھی گیا، صوبے میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کیلئے یہ فیصلہ بھی کیا گیا تھا کہ صوبے کے تمام تعلیمی بورڈز کو ایک بورڈ میں ضم کیا جائے گالیکن یہ منصوبہ بھی صرف کاغذی کاروائی اور اخباری بیانات کی حد تک محدود رہا۔

اسی طرح سکولوں کی اپ گریڈیشن کا عمل بھی سکولوں کی چاردیواری ، بیت الخلاء اور کمروں کی تعمیرتک محدود رہا اور صرف پانچ سو سکولوں کو آج تک سولر سسٹم پر شفٹ کیا جاسکا ہے۔ تعلیم کے بعد سب سے زیادہ توجہ صحت پر دی گئی لیکن یہاں پر بھی تبدیلی صرف اصلاحات تک محدود رہی اور سہولیات و مشینوں کی کمی تھی اس پر کوئی خاطرخواہ پیش رفت نہیں ہوسکی ۔بعد میں قانون سازی بھی کی گئی جس کے تحت ٹیچنگ ہسپتالوں میں بورڈ آف گورنرز مقرر کئے گئے تاکہ عوام کو بہتر طبعی سہولیات فراہم کی جاسکیں نیز نرسز، پیرامیڈکس، ڈاکٹروں کو بھی بھرتی کیا گیا، لیکن صوبے کے ہسپتالوں کے مسائل کی نسبت یہ اقدامات آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں۔

 آج بھی دہشتگردی کا سب سے ذیادہ نشانہ بننے والے صوبے میں کوئی برن سنٹر نہ ہونے کے باعث ایسے کیسز اٹک یا آسلام آباد منتقل کئے جاتے ہیں، اسی طرح صوابی، بنوں، سوات، کوہاٹ اور نوشہرہ کے ٹیچنگ ہسپتالوں میں کوئی نرسنگ یونٹ موجود نہیں ہے اور مردان میڈیکل کمپلیکس، ڈیرہ اسماعیل خان ڈسٹرک ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں مطلوبہ سہولیات اور خصوصی سروسز میسرنہیں ہیں۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال جو صوبے کا سب سے بڑاہسپتال ہیں اس میں وینٹی لیٹرز اور ایم آرآئی مشینوں کا فقدان ہے جس کے باعث مریضوں کو ٹیسٹ کرانے کیلئے مہینے بعد کا وقت دیا جاتا ہے، ضلعی ، تحصیل اور بنیادی مراکز صحت کی حالت اس سے بھی ابتر ہے ۔

 تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ہر تین ماہ اور چھ ماہ بعد یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بس کچھ عرصے بعد ہسپتالوں کی حالت مکمل تبدیل ہوجائے گی لیکن یہ دعویٰ تین سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود صرف سیاسی تقریر کی حد تک ہی محدود ہے اور عملی طور پر ہسپتالوں کی حالت زار کی تبدیلی کا خواب تاحال شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا ۔

بات یہاں ختم نہیں ہوتی، خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے میں چار میگا ہاؤسنگ سوسائٹیزبنانے کا بھی اعلان کیا تھا جس کے تحت پشاور کے نواحی علاقے میں اسی ہزارکنال پر مشتمل پشاور ماڈل سٹی کے نام پر ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کا بھی منصوبہ بنایاگیا جس میں صوبائی اسمبلی، ہائیکورٹ، سیکرٹریٹ سمیت تمام سرکاری دفاتر منتقل کئے جانے تھے تا کہ پشاورکی  تاریخی حیثیت  کو برقرار رکھا جاسکے نیز صوابی میں کرنل شیرانٹرچینج کے قریب،ایبٹ آباد، اور کوہاٹ میں بھی ہاؤ سنگ سوسائٹیز کے قیام کا اعلان کیا گیاتھا تاکہ عوام کو بہتر طرز رہائش کی سہولیات میسر ہوں لیکن ان منصوبوں پر کسی قسم کی پیشرفت نہیں ہوسکی۔ صوبے میں دہشت گردی کے باعث صنعت کا شعبہ سب سے ذیادہ متاثر ہوا تھا ، تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے صوبے کی صنعت کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کا بیڑا اُٹھایا اور صوبے میں چار انڈسٹریل اسٹیٹ بنانے کا منصوبہ بنایا جس میں حطار انڈسٹریل اسٹیٹ فیز سات، غازی انڈسٹریل اسٹیٹ، جلوزئی انڈسٹریل اسٹیٹ، اور راشکئ انڈسٹریل اسٹیٹ زونز شامل تھے۔ حکومت نے صنعت پالیسی بھی بنائی جس میں کاروباری طبقے کو خصوصی مراعات و رعایت دی گئیں تاکہ صنعت کوبحال کیا جاسکے لیکن صوبائی حکومت کا یہ منصوبہ بھی دیگر منصوبوں کی ماند سست روی کا شکار ہے، صوبے میں 887انڈسڑیل یونٹ جو دہشت گردی کے باعث بندہوگئے تھے وہ تاحال بند پڑے ہیں اور سرمایہ کار جنھویں نے ماضی میں دہشتگردی کے باعث اپنا سرمایہ صوبے سے باہر منتقل کرلیا تھا وہ اب خیبرپختونخوا میں بجلی کی غیر اعلانیہ طویل لوڈشیڈنگ کے باعث اپنا سرمایہ خیبرپختونخوا میں واپس لانے پر رضامند نہیں ہورہے۔

اسی طرح پشاور میں ٹریفک مسائل کو کم کرنے کے لئے پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ پروجیکٹ کا پروگرام بنایا گیا جیسے عمران خا ن نے میڈیا میں بہت اُچھالا اور کہا کہ دیکھو پاکستان مسلم لیگ نے اسلام آباد میٹرو بس منصوبے پر پچاس ارب روپے خرچ کردیئے اور ہم اس نوعیت کی میٹرو سروس جو اس منصوبے سے بڑا منصوبہ ہے چودہ ارب پر بنارہے ہیں ، یہ منصوبہ چمکنی سے خیبر بازار، ڈبگری، کنٹونمنٹ، تکال، یونیورسٹی ٹاون، بوڑداور حیات آباد سے ہوتا ہوا کارخانوں مارکیٹ تک جانا تھا اسی طرح اسی منصوبے کا دوسرا روٹ چمکنی سے جنوبی رنگ روڈ سے ہوتا ہواحیات آباد جانا تھا۔اس منصوبے کے لئے آخری بجٹ میں انیس ارب روپے بھی مختص کئے گئے تھے، لیکن منصوبے پر ابھی تک فیزبیلیٹی رپورٹ تک ہی کا م ہوا تھا اور اس پھر بھی بہت سے اعتراضات اٹھائے گئے ، اسی طرح پشاور میں ایک جدید بس ٹرمینل بنا نابھی منصوبوں میں شامل تھا اور شہر کے تمام ٹرانسپورٹ اڈوں کو وہاں منتقل کرنا تھا ، لیکن اس منصوبے پر کاغذی کاروئی بھی نہ ہوسکی۔ پی ٹی آئی حکومت نے اپنی پہلے بجٹ میں بونیر میں ماربل انڈسٹری کے قیام کا بھی اعلان تھا اور اس کے لئے رقم مختص کی گئی تھی لیکن بعد میں اس منصوبے کو ترک کرنا پڑا۔ اور یوں وہ علاقہ جو پاکستان میں سب سے ذیادہ ماربل پیدا کرتا ہے ماربل انڈسٹری سے محروم رہا۔ دی آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کمپنی کے مطابق پچپن فی صد آئل کے پی سے نکلتا ہیں اس کو سامنے رکھتے ہوئے صوبائی حکومت نے صوبے میں آئل ریفانری بنانے کا منصوبہ بنایا جس کے لئے کرک میں تین ہزار کنال پر مشتمل زمین کی نشاندہی بھی کی گئی ، یہ پروجیکٹ صوبے کے سب سے بڑے منصوبوں میں سے ایک منصوبہ تھا جس سے حکومت کے مطابق بیس ہزار تک نوکریاں ملنا تھیں۔ حال ہی میں اس منصوبے کیلئے اراضی کو ختمی شکل دی گئی اور ممکن ہے کہ آنے والے دنوں  میں ایف ڈبلیو او سے معاہدہ ہو جائے اور اس کی تکمیل آئندہ تین چار سال میں ممکن ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف چار محکموں میں اصلاحات کرنے سے صوبہ ایک ماڈل صوبہ بن سکتا ہیں اور وہ سارے میگا پروجیکٹس جس سے تعلیم، صحت کے میدان میں انقلاب لایا جاسکتا تھا اور صنعت ، ٹرانسپورٹ میں ان منصوبوں سے ہزاروں کی تعداد میں نوکریاں پیدا کرناتھیں مکمل نہ کرنے سے کیا وہ کے پی میں اپنی ووٹ بینک برقرار رکھ پائیں گے ؟ کیا وہ 2018 کے الیکشن میں کے پی میں بھی اپنی حکومت بنا سکیں گے ؟ یہ کہنا تو قبل ازوقت ہوگا لیکن خیبر پختونخوا کے لوگ آہستہ آہستہ پی ٹی آئی سے بیزار ہوتے جارہے ہیں اور لوگ یہی کہتے ہیں کہ عمران خان اپنے وعدوں کے مطابق کام نہیں کررہے اور نہ ہی صوبے پر توجہ دے رہے ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...