قائد اعظم محمد علی جناح: انسانی حقوق کے علمبردار

779

پاکستان میں حقوق سے متعلق قائد کا بنیادی تصور

آزادی، بھائی چارے اور مساوات کی جو پکار آپ کے عظیم ( فرانسیسی ) انقلاب میں بلند کی گئی تھی اور جو سرکاری طور پر آپ کی عظیم (فرانسیسی ) جمہوریہ کا بنیادی نعرہ بن چکی ہے اس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور تاریخ کا ہر طالب علم اس سے بخوبی آگاہ ہے۔ یہی نظریات اور اصول آج دنیا کی تمام پسی ہوئی قوموں کے لیے سہارا بنے ہوئے ہیں۔

( قائداعظم کی 2 جنوری 1948 کو کی گئی گفتگو )

اپنی تمام تر سیاسی اور پارلیمانی زندگی کے دوران بانی پاکستان قائد اعظم محمدعلی جناح بنیادی انسانی حقوق کے ایک فاضل، سچے اور اٹل ترجمان رہے۔ وہ نو آبادیاتی آئین کو انسانی حقوق سے ہم آہنگ کرنے اور اس میں انصاف کی یقین دہانی اور انسانی حقوق کے حصول کا مناسب طریقہ کار شامل کرنے کے لیے ہمیشہ بھر پور انداز میں آواز بلند کرتے رہے۔

جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں کے حق خود ارادی کی تحریک کے سرخیل کی حیثیت سے قائد اعظم نے 1929 میں 14نکات پیش کیے۔ اس تاریخی دستاویز میں ساتواں نکتہ مکمل مذہبی آزادی کے متعلق تھا جس کے مطابق تمام قومیتوں کو مذہبی عقائد، رسومات، اجتماعات تبلیغ اور تعلیم کی آزادی کی ضمانت دی گئی تھی۔ قائد اعظم سب سے پہلے 1909 میں شاہی مجلس قانون ساز کے رکن بنے، تاہم 28 مارچ 1919کو انہوں نے ایمرجنسی پاور ایکٹ کے فوجداری قانون کی منظوری کے خلاف احتجا جاً اپنی نشست سے استعفی دے دیا۔ 6 فروری 1919 کو قائد اعظم نے اس قانون کے خلاف پر جوش تقریر کرتے ہوئے اسے قانون اور انصاف کے بنیادی اصولوں سے متصادم قرار دیا۔ قائد اعظم نے کہا کسی بھی شخص کو عدالت میں مقدمہ چلائے بغیر یا قانون شہادت اور متفقہ طریقہ کار نظرانداز کرتے ہوئے اس کی آزادی سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔

1923 میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کا رکن اور بعد ازاں 1926 میں انڈین قانون ساز اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کے بعد قائداعظم نے اپنے پارلیمانی سفر کا دوبارہ آغاز کیا۔ ان اداروں میں کی گئی ان کی تقاریر اور مختلف موضوعات پر ان کے موقف کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے ہمیشہ آزادی، خودمختاری اور آزادی اظہار کی بات کی۔ کئی ایسے مواقع آئے جب انہوں نے سخت نوآبادیاتی قوانین کو قانون کی کتاب پر سیاہ دھبے کا نام دیا۔ مثال کے طور پر انہوں نے پریس ایکٹ 1910 کی صوابدیدی شقوں کو جن کی رو سے اخبارات کو غلطی پر بغیر کسی عدالتی حدود و قیود کے سزادی جاسکتی تھی، کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔

1912 میں جب گو پال کرشنا گو کھلے نے پرائمری تعلیم کا مسودہ قانون پیش کیا تو قائداعظم نے یہ کہتے ہوئے اس کی مکمل حمایت کی ” اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ لازمی تعلیم کے بغیر عوام کی نجات کا کوئی راستہ نہیں۔سکول جانے والی عمر کے تمام بچوں کو 175 ( یعنی یہ مقصد 2087 تک حاصل ہوسکتا ہے (سال لگ سکتے ہیں۔ یہ بات قائد اعظم کی پیغمبرانہ بصیرت کی دلیل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ “لڑکیوں کو سکول بھجوانے میں 6 سو برس ( یعنی 2512 تک ) لگ سکتے ہیں۔” قائداعظم محمدعلی جناح تعلیم کے میدان میں زیادہ مؤثر اقدامات کے پر جوش متقاضی تھے۔ جب ان کی توجہ ناقدین کے اس بیان کی طرف مبذول کرائی گئی کہ اگر عام لوگوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جائے تو وہ اپنی حد سے تجاوز کر جاتے ہیں اور زیادہ حقوق کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں۔ قائد اعظم نے اس مؤقف کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ناقدین کو جواب دیتے ہوئے دریافت کیا” کیا آپ کروڑوں افراد کو اپنے جوتوں تلے صرف اس خوف سے کچل دیں گے کہ کہیں و ہ مزیدحقوق کا مطالبہ نہ کر دیں۔ کیا آپ انہیں ہمیشہ اس بنا پر اندھیرے اور جہالت میں رکھنا چاہتے ہیں کہ کہیں وہ آپ کے سامنے اٹھ کھڑے نہ ہوں اور یہ نہ کہ دیں کہ ہمارے بھی کچھ حقوق ہیں جو آپ کو ہمیں دینا ہوں گے۔”

قائداعظم نے1911 میں کامیابی سے ایک نجی بل “وقف تو ثیق بل” بھی پیش کیا۔ اس مسودہ قانون کی توجیہ اور مقاصد میں بتایا گیا تھا کہ اس کا مقصد پرائیوی کونسل کے بعض فیصلوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات کو کم کرنا تھا۔ اس بل میں مسلم قانون ” وقف الاولاد ” کو دوبارہ تحریری شکل میں پیش کیا گیا اور اس میں قرض خواہوں کے ساتھ کسی قسم کے فراڈ کے حوالے سے اقداماات کی بات کی گئی تھی تا کہ وقف نامے کے حقوق کا تحفظ ہو سکے۔ یہ بل 1913 میں بعنوان وقف توثیق بل پاس ہوا اور اسے 7 مارچ1913 کو گورنر جنرل کی منظوری بھی حاصل ہوگئی۔ اپریل 1913ء میں شاہی مجلس قانون ساز سے خطاب کر تے ہوئے قائد اعظم نے کہا تھا: جناب والا ! میں حکومت پر آزاد اور بے لاگ تنقید پر یقین رکھتا ہوں۔ ساتھ ہی میں یہ بھی مانتا ہوں کہ ہر تعلیم یافتہ شخص کا فرض ہے کہ وہ حکومت کے درست اقدامات کی حمایت کرے۔ 16 ستمبر 1924 کو قائد اعظم نے انڈین فوجداری قانون ( ترمیمی (بل کی اس بنا پر مخالفت کی کہ یہ ایسوسی ایشن کے قیام کی آزادی پر قدغن عائد کرتا ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ قائد اعظم نے سیاسی جماعتوں کے وکیل کی حیثیت سے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔۔۔” نئے آئین کی تشکیل کے ساتھ ساتھ پارلیمانی نظام حکومت کو ملک میں متعارف کروایا جا رہا ہے اور ایک ایسے سیاسی ماحول کا آغاز ہونے جا رہا ہے جو ایک واضح حکمت عملی اور پروگرام کی روشنی میں آئینی طور پر سیاسی جماعتوں پر مبنی نظام کی بات کرتا ہے تا کہ تعلیم،رائے دہندگان کی تربیت میں سہولت اور انتخابی عمل کو فروغ دیا جائے اور مفاد عامہ کے حصول کے لیے مختلف گروہوں میں زیادہ سے زیادہ تعاون کو یقینی بنایا جائے۔” بعدازاں 8 نومبر 1945ء کوایسوسی ایٹڈ پریس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے یہ واضح کیا کہ انہیں ہرگز یہ توقع نہیں کہ پاکستان میں ایک جماعتی نظام حکومت ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ۔۔۔ وہ یک جماعتی حکومت کی مخالفت میں گئے۔ ایک یا ایک سے زیادہ سیاسی جماعتوں پر مبنی حزب اختلاف برسر اقتدار جماعت کو بہتر اور درست کرنے کے لیے ضروری ہے۔

قائد اعظم محمدعلی جناح کی بہت سی تقاریر ایسی ہیں جن میں انہوں نے نو آبادیاتی انڈیا میں حبس بے جا کے معاملے کو اٹھایا ہے۔ انہوں نے 23 مارچ 1925ء کی تقریر میں عام حالات اور ایمر جنسی میں فرق واضح کرتے ہوئے بنگال کرمنل لا ترمیمی سپلیمنٹری بل کی سخت مخالفت کی۔

22 جنوری1935ء کی تقریر میں انہوں نے سرت چندرا بوس کی تین برس قید کی یہ کہتے ہوئے مخالفت کی کہ یہ ایک ایسا رکن ہے جو فروری1932ء میں گرفتار ہوا مگر اسے مسلسل قید میں رکھا جارہا ہے اور جب بھی اس پر مقدمہ چلانے یا رہا کرنے کی بات ہوتی ہے تو حکومت دونوں میں سے کچھ بھی نہیں کرتی۔ آخر حکومت کس طرح مسٹر سرت چندرابوسں کی ایک روز کی حراست کا بھی کوئی جواز پیش کرسکتی ہے؟ چاہے استحقاق مسئلہ نہ ہو، کیا اس اسمبلی کو یہ استحقاق بھی حاصل نہیں کہ کسی شخص کو بغیر مقدمہ چلائے حراست میں لیے جانے کے حکومتی اقدام کی مذمت کر سکے اور یہاں تو ایوان کے رکن کی بات ہورہی ہے۔

3 مئی 1944ء کوقائد اعظم نے ان جابرانہ حکومتی اقدامات پر تنقید کی جنہوں نے نازک حالات میں لوگوں کی آئینی آزادی سلب کر رکھی تھی۔ انہوں نے بروقت اور سر عام یہ کہ کران قوانین کی مذمت کی :” کیا اس آئین اور آئینی آزادی میں جس کے تحت ہم بھر پور انداز میں اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں مداخلت کرنی چاہیے یا اس پر کسی قسم کی کوئی پابندی لگادینی چاہیے؟ موجودہ مقننہ اب سات برس کی ہو چکی ہے۔ ہم بار ہا اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ نئے انتخابات کروانے کا وقت آ گیا ہے لیکن ابھی تک حکومت نے ہمارے مطالبے پر کوئی توجہ نہیں دی۔ کیا ہمیں آئین کی رو سے جائز کوشش کا حق بھی حاصل نہیں؟ یا تو ہمیں کام کرنے کی مکمل آزادی د یں یا صاف لفظوں میں بتا دیا جائے کہ ہم اپنے استحقاق سے دستبردار ہو جائیں۔ لیکن آئینی آزادیوں پر یہ کہہ کر قدغن لگانا کہ ان سے جنگی مہم پر برا اثر پڑے گا بہت بڑی غلطی ہوگی۔”

نومبر 1931 میں ہونے والی دوسری گول میز کانفرنس میں وفاقی ڈھانچے پر بننے والی ذیلی کمیٹی میں قائداعظم نے پارلیمانی اداروں کے ارتقا کے علاوہ عدلیہ کی آزادی کی بات کی۔مجوزہ وفاقی عدالتی دائرہ اختیار کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آئین کی کسی دفعہ بشمول بنیادی حقوق پر قدغن کی صورت میں عوام کے پاس عدالت میں جانے کا راستہ موجود ہونا چاہیے۔

لندن میں زمانہ طالب علمی کے دوران ویسٹ منسٹری گیلری سے پارلیمان کی کارروائی دیکھتے ہوئے قائد اعظم محمدعلی جناح نے بہت سے قانونی مباحث کا مشاہدہ کیا تھا اور قانون سازی کی پیچیدگیوں کے بارے میں جانا تھا۔ برطانیہ کے لبرل لیڈرز کے ساتھ ملاقاتوں سے ان کی آئینی اور پارلیمانی مہارت مزید بہتر ہوئی۔ حتی کہ پاکستان کے قیام کی کاوشوں کے دوران انہوں نے نو جوانوں کو جان مارے کا طویل مضمون on Compromise پڑھنے کی نصیحت کی جس میں تہذیبی علم و دانش، دوسروں کے مؤقف کو برداشت کرنے اور اپنے موقف میں لچک پیدا کرنے کی بات کی گئی تھی۔ اپنی بہت سی تقاریر اور بے شمار بیانات میں قائد اعظم نے بڑے واضح انداز میں آزادی، مساوات، انصاف، بھائی چارے، اقلیتوں کی جائیداد و دیگر حقوق کے تحفظ پراپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔

11 اگست 1947 ء کی شہرہ آفاق تقریر میں قائد اعظم نے اپنے خیالات کا نہایت واضح انداز میں اظہار کیا۔ مجلس قانون ساز کا لیڈرمنتخب ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے 12 اگست کو جس پہلی پارلیمانی کمیٹی کی صدارت کی، وہ پاکستان کے شہریوں اور اقلیتوں کے بنیادی حقوق کے لیے بنائی گئی تھی۔ قائداعظم کے بنیادی حقوق پر نظریات ہمارے لیے مشعل راہ ہیں اور اسی لیے ہمیں اپنے اندر موجوداس بنیادی جین کوفراموش نہیں کرنا چاہیے جو پاکستان میں انسانی حقوق پر استوار معاشرے کے لیے راہ عمل متعین کرتا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...