مغربی میڈیا کا شامی عوام سے اظہار یکجہتی کا انوکھا انداز

755

شامی عوام پر اسدی حکومت کے بڑھتے ہوئے مظالم کے خلاف اور روسی مداخلت کے ایک سال مکمل ہونے پر مغربی میڈیا نے بڑے واضح انداز سے شامی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے

شامی  عوام   پر  اسدی حکومت  کے بڑھتے ہوئے مظالم  کے خلاف اور روسی مداخلت کے ایک سال مکمل ہونے  پر  مغربی میڈیا  نے  بڑے واضح انداز سے شامی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے اور  اخبارات و رسائل نے  شام کی موجودہ صورتحال  کی کوریج  کے لیےمتعدد صفحات  پر مشتمل خصوصی ایڈیشن  شائع کیے اور  ماضی  کے برعکس  بغیر کسی لگی لپٹی کے  کھل کر شامی عوام کی تائید   کرتے  ہوئے اظہار یکجہتی کی مثال قائم کر دی ہے۔

حالیہ دنوں میں  جبکہ شام میں اسدی اور روسی بمباری کے نتیجے میں  پہلے سے کئی گنا زیادہ جانوں کے ضائع ہونے پر  مغربی میڈیا نے مختلف انداز سے شامی عوام کے حق میں آواز اٹھائی اور مسئلے کے فوری حل پر زور دیا ۔امریکی جریدے “ٹائمز” نے   شامی شہریوں کے تحفظ    کے لیے خصوصی  تحریر شائع کی اور اسے ٹائٹل پر جگہ دی،دیگر اخبارات  میں بھی  شامی حکومت اور شدت پسند تنظیموں کے خلاف  کالم اور مضامین شائع ہوئے ،اور سب سے آخر میں ڈینش اخبار “انفارمیشن” نے   پورے اخبار کو ہی شامی عوام کے نام کر کےاپنے قارئین کو  اپنے قارئین کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔

ڈنمارک کے اخبار” انفارمیشن” جوکہ ملک کا سب سے مقبول اخبار ہے  نے جمعہ کے دن 39 صفحات پر مشتمل  ویک اینڈ ایڈیشن  کو مکمل طور پر قضیہ شام کے لے وقف کر دیا اور قارئین کو پورے منظرنامے سے آگاہ کرنے کے لیے 2011   سے شروع ہونے والی جنگ کا پس منظر اور پیش منظر پوری  تفصیل سے بیان کیا۔

ویک اینڈ ایڈیشن کی چیف ایڈیٹر     لیزافولک کرسلم  نے شامیوں  کی  یورپ سے مایوسی  کا ذکر کرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا کہ” : ہم شامی معصوم بچوں کی موت پر آنسو بہا سکتے ہیں،بشار الاسد کی بمباری کو نفرت کی نگاہ سے دیکھ سکتے ہیں، بحر متوسط میں ڈوب کر مرنے والوں پر  افسوس اور ندامت کا اظہار کر سکتے ہیں،لیکن میں آج پوچھتی ہوں کہ  مجھے بتائیں  کہ  اس سب کے بعد کیا  عالمی انصاف اور انسانی حقوق   جیسے الفاظ کا  کوئی مطلب  بھی باقی رہ جاتا ہے یا  شامی بچوں کے ساتھ  ساتھ عالمی انصاف  بھی مر چکا ہے اور اب انسانی حقوق کے نام کی کوئی چیز اس دنیا میں باقی نہیں رہی؟

 بے رحم اسد اور پوٹن   کو  جنگی جرائم  کا ارتکاب اور بین الاقوامی قانون کی  دھجیاں   بکھیرتے ہوئے دیکھنے کے  بعد بھی  کیا ہم  حلب میں بموں کو پھٹتے اور  بے گناہوں  کی زندگیوں سے کھیلتے دیکھتے رہیں گےَ؟”۔

ڈینش اخبار نے لکھا کہ اس وقت لوگ ہٹلر  اور  بشار الاسد کے درمیان موازنہ کر رہے ہیں کہ  دونوں میں سے کس نے زیادہ قتل عام کیا؟ اخبار نے  شمارے کو شام اور حلب  کے لیے خاص کرنے کی وجہ  یہ بیان  کی کہ اس وقت سرزمینِ شام  پر  جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس کا تعلق پوری انسانیت اور پوری دنیا سے ہے،اور ہم یہ یقین  رکھتے ہیں کہ  ظلم،تباہی اور بربادی  کا کھیل جہاں بھی کھیلا جا رہا ہو وہاں کی عوام  کے حق میں آواز اٹھانا ہماری ذمہ داری ہے۔

“شام بدل رہا ہے” کے عنوان سے   لکھے گئے  کالم میں کالم نگار نے دعوی کیا ہے کہ  اسدی  حاکم فیملی  کے مشیر ایران اور روس سے ہیں جوکہ اس وقت مکمل طور  پر حکومت پر قابض ہو چکے ہیں،اس لیے اب  بات یہ نہیں ہے کہ بشار الاسد حکمران ہیں یا نہیں؟ بلکہ  اس وقت صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ  شام کی حکومت کسی شامی کے ہاتھ  میں نہیں  بلکہ ایران  اور روس کے ہاتھ میں ہے۔

“انفارمیشن” نے    جمعہ کے شمارے میں مشرق وسطی کے امور کے متعدد ماہرین ،قانون دانوں  اور سیاست دانوں کے انٹرویو  بھی شائع کیے ، 39 صفحات  پر مشتمل  پورا شمارہ حلب اور  شام  کی صورتحال،وہاں کے نقشوں اور تصویروں  کے ساتھ  شائع کرنا  اور مظلوم عوام  کے ساتھ  اظہار یکجہتی   کا ایک منفرد انداز ہے جو کے ہمارے میڈیا  کے لیے بھی لائق تقلید ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...