کیا سیرل المیڈا کی خبر نواز حکومت کا میمو گیٹ ہے ؟

870

یہ اونٹ جس کروٹ بھی بیٹھے اس کے نیچے سرل المیڈا نہیں کوئی ہیوی ویٹ ہی آئے گا ۔ مگر ان ہیوی ویٹس کو اپنے اپنے قدو قامت کا بخوبی اندازہ ہے ۔

مئی 2011 میں زرداری حکومت کو یہ شک ہو چلا تھا کہ ایبٹ آباد آپریشن کی وجہ سے فوجی قیادت سول حکومت کو چلتا کرنے والی ہے ۔ا س دوران  د س مئی کو ایڈمرل مائیک مولن کو خفیہ چینل سے  ایک میمو بھجوایا گیا ۔ اس کا انکشاف کئی امریکی حکومتوں میں بیک چینل ڈپلومیسی کے ماہر منصور اعجاز نے کیا تھا ۔منصور اعجاز کا مئوقف تھا کہ اس میمو کے  مندرجات انہیں اس وقت کے واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی نے لکھوائے تھے ۔جن میں یہ کہا گیا تھا کہ اگر فوجی قیادت سول حکومت کے خلاف بغاوت کرتی ہے تو امریکہ ا س کی مدد کرے کیونکہ سول حکومت آئی ایس آئی اور طالبان کے روابط ختم کروانے کے  لئے کچھ حکام کا تبادلہ کرکے آئی ایس آئی کے سیکشن ایس کو ختم کرنا چاہتی ہے کیونکہ یہی یونٹ طالبان کو ڈیل کرتا ہے ۔

منصور اعجاز نے دس اکتوبر کو  یہ خبر فناشل ٹائمز میں طشت ازبام کر دی ۔ جس پر بالکل ویسا ہی بھونچال برپا ہو ا جیساکہ آج کل سیرل کی خبر پر ہے ۔اس وقت بھی سول ملٹری تعلقات غیر ریاستی عناصر کے مسئلے پر کشیدہ تھے ۔فوجی قیادت کو یقین تھا کہ امریکہ کو  ایبٹ آبادآپریشن کی اجازت زرداری حکومت نے دی تھی۔واقفان حال کا کہنا تھا کہ اس وقت کی سیاسی اور فوجی قیادت میں تناؤ اپنی آخری حدوں کو چھو رہا تھا ۔اس وقت لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا ڈی جی آئی ایس آئی تھے وہ 22اکتوبر کو لندن جا کر منصور اعجاز سے ملے ۔حکومت بضد تھی کہ ا س طرح  کاکو ئی میمو انہوں نے امریکہ کو نہیں بھجوایا ۔19نومبر کو اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے حسین حقانی کو کہا کہ وہ مستعفی ہو جائیں ۔دو دن بعد حسین حقانی مستعفی ہو گئے اور شیری رحمٰن کو امریکہ میں نیا سفیر لگا دیا گیا ۔ا س طرح حسین حقانی کی قربانی دے کر حکومت کو بچا لیا گیا ۔

لگتا ہے کہ معاملہ اب بھی ویسا ہی ہے ۔

تب طالبان کا مسئلہ تھا اور اب کالعدم تنظیموں کا معاملہ ہے ۔تب اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں مارا گیا تھا اور اب انڈیا الزام لگا رہا ہے کہ پاکستانی  کالعدم تنظیم جیش محمد نے اڑی سیکٹر میں اس کی افواج پر حملہ کیا ہے ۔بھارت میں جب بھی کوئی دہشت گردی ہوتی ہے اس کا الزام پاکستانی  تنظیموں پر ہی لگتا ہے ۔ پٹھان کوٹ ہو یا ممبئی  حملے ، بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہو یا پھر حالیہ اڑی کا واقعہ ، ایسا کیوں ہے کہ ہر بار پاکستان میں موجود تنظیموں پر ہی الزام عائد ہوتا ہے ۔دوسری سرحد جو افغانستان کے ساتھ ملتی ہے وہاں بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے ۔ طالبان کے سربراہ ملا منصور بلوچستان میں مارے گئے وہ پاکستانی پاسپورٹ پر ایران سے واپس آرہے تھے ۔ امریکہ جب بھی بات کرتا ہے وہ پاکستان پر حقانی نیٹ ورک کی پشت پناہی کا الزام لگاتا ہے جو افغانستان میں کارروائیاں کر رہا ہے ۔ان حالات میں نواز شریف خود وزارت خارجہ کا قلمدان چلا رہے ہیں ۔ شاید وہ ان مسائل کی نزاکتوں سے آگاہ ہیں اس لئے وہ سرتاج عزیز جیسے منجھے ہوئے اور برگزیدہ سیاستدان کو بھی خارجہ امور کی مکمل  ذمہ داریاں نہیں سونپنا چاہتے ۔

اڑی واقعہ پر نواز شریف کی پوزیشن کافی کمزور تھی مگر اس کے باوجود وہ اقوام متحدہ گئے اور اپنا مئوقف بیان کیا ۔لیکن جب پاکستان کے اندر قومی اتفاقِ رائے کی بات آئی تو عمران خان نے عین اس موقع پر نہ صرف یہ کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کیا بلکہ 30اکتوبر کو اسلام آباد جام کرنے کی دھمکی بھی دے دی ۔ د ومرتبہ  حکومت سے بے دخل کئے جانے والے نوازشریف یہ بات بخوبی سمجھتے ہیں کہ اگر ایک طرف کشمیر جیسے مسئلے پر بھارت کے ساتھ جنگ کی سی کیفیت ہے اور دوسری جانب ایک بڑی جماعت انہیں اسلام آباد سے بے دخل کرنا چاہتی ہے تو ا س کے پیچھے کون ہو سکتا ہے ۔نوازشریف کو بھی اسی طرح اس ایمپائر پر شک ہے جیسا کہ زرداری حکومت کو تھا ۔

اس صورتحال میں جب فوج سرحدوں پر دباؤ کا شکار تھی نواز شریف نے موقع کو غنیمت جان کر ایک پیغام پاکستان سے باہر ان قوتوں کو بھجوانے کی کوشش کی جو علاقائی سلامتی میں اہم کردار رکھتی ہیں ۔ زرداری نے اس موقع پر اپنے سفیر کو استعمال کیا تھا مگر نواز شریف نے ایک صحافی کو ، زرداری حکومت اپنے سفیر کی قربانی دے کر اپنا اقتدار بچانے میں کامیاب ہو گئی تھی مگر یہاں مسئلہ مختلف ہے ۔سیرل ایک پرائیویٹ ادارے  ڈان اخبار کا کارکن ہے اور اس کا ادارہ خبر کے مندرجات کی حقانیت پر قائم ہے ۔چنانچہ اب  یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ڈان اخبار  کے مالکان کی رشتہ داریاں  ملک کے ایک بڑے سرمایہ کار میاں منشا کے ساتھ ہیں جو کہ نواز شریف کے پروردہ گردانے جاتے ہیں ۔ اس لئے نشانہ براہ ِ راست نواز شریف ہی  ہیں ۔ یہ سارا کھیل یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ سول ملٹری تعلقات اس وقت کس نہج پر ہیں ۔ ان اوقات کی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ وزیر اعظم نے انہی دنوں میں نئے آرمی چیف کا تعین کرنا ہے ۔وزراعظم ہاؤس کے قریبی حلقے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ نواز شریف کسی صورت موجودہ چیف کو توسیع دینے کے قائل نہیں ہیں ۔جبکہ فوجی حلقے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ حکومت توسیع کے لئے منت سماجت کر رہی ہے مگر چیف توسیع لینا نہیں چاہتے ۔

یہ اونٹ جس کروٹ بھی بیٹھے اس کے نیچے سرل المیڈا نہیں  کوئی ہیوی ویٹ ہی آئے گا ۔ مگر ان ہیوی ویٹس کو اپنے اپنے قدو قامت کا بخوبی اندازہ ہے ۔خبر اپنا اثر دکھا چکی ہے ۔سرحدوں سے باہراس اثر کو زائل نہیں کیا جا سکتا ۔اس لئے بہتری اسی میں ہے کہ فریقین اپنی توانائیاں ایک دوسرے کو زائل کرنے میں نہیں بلکہ قائل کرنے میں لگائیں ۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...