نوجوانوں کو تخلیقی اور کارآمد بنانے کے لیے ایسی پالیساں وضع کی جائیں جن کا محور طلبہ اور ان کی بہبود ہو

912

اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک ’پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز‘ (PIPS ) کے زیراہتما م 13 جُون بروز سوموار کو ’’نوجوانوں کے مابین تنوع، شمولیت اور امن کے بیانیوں کا فروغ‘‘ کے عنوان کے تحت ایک مشاورتی نشست منعقد کی گئی، جس میں سیاستدان، ماہرین تعلیم، مذہبی اسکالرز، طلبہ، صحافی، انسانی حقوق کے کارکن اور سول سوسائٹی کے نمائندے شریک ہوئے۔

اس میں اظہار خیال کرتے ہوئے تمام مقررین نے زور دیا کہ تنقیدی شعور اور صحت مند روشن خیال مکالماتی فضا کو فروغ دینے کے لیے حکومت کو ایسی پالیسیاں وضع کرنی چاہئیں جن کا محور طلبہ اور ان کی بہبود ہو، تاکہ تعلیمی اداروں میں ایسی نسل تیار کی جاسکے جو تخلیقی صلاحیتوں سے بھرپور ہو۔ ماہرین کی اکثریت نے قواعد ضوابط کے تحت طلبہ یونینز کی بحالی کا بھی مطالبہ کیا، کیونکہ اس سے ملک کے تعلیمی اداروں میں بڑھتی مذہبی اور نسلی بنیاد پرستی کی حوصلہ کی جاسکتی ہے۔

مشاورتی نشست کا مقصد اس بات کا جائزہ لینا تھا کہ تعلیمی نصاب نوجوانوں میں جمہوریت، شہریت اور آئین بارے آگہی پیدا کرنے میں ناکام کیوں ہوا، تعلیمی اداروں میں مذہبی بنیادپرستی کے محرکات کیا ہیں، اور یہ کہ نوجوانوں کی بہبود و ترقی کے لیے کی جانے والی قانون سازی کی کوششوں کا تنقیدی تجزیہ کیا جائے۔

وزیر اعظم کی معاون خصوصی رومینہ خورشید عالم نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’شہریت‘ کی قدر بارے سکول کی سطح پر تربیت دی جانی چاہیے۔ تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اساتذہ کی تعلیمی و فکری صلاحیتوں پر توجہ دی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس امر سے آنکھیں نہیں پھیری جاسکتیں کہ تعلیمی احاطوں میں عدم برداشت بڑھ گئی ہے، اگر اس اس کے ازالے کے لیے ابھی بھی اقدامات نہ کیے گئے تو حالات زیادہ تشویشناک ہوتے جائیں گے۔ تعلیمی اداروں میں منافرت پر مبنی تشدد کے پے درپے واقعات صورتحال کی بخوبی نشاندہی کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آئین تمام شہریوں کو مساوی حقوق دیتا ہے۔ لیکن نوجوان اس سے آگاہ نہیں ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ علماء اور مذہبی طبقے کو مانیٹر کرنا ضروری ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئرمین سینیٹر ولید اقبال نے اس امر پہ افسوس کا اظہار کیا کہ ملک کا موجودہ انتخابی نظام ایسا ہے کہ جو موروثی سیاست اور اشرافیائی بالادستی کی وجہ سے نئے چہروں کا راستہ روکتا ہے اور حقیقی عوامی نمائندوں کے آگے آنے کے مواقع محدود بناتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ سیاسی جماعتوں کو چاہیے، وہ نوجوانوں اور نئے لوگوں کو آگے آنے کا موقع فراہم کریں۔

تعلیمی اداروں میں مذہبی اور نسلی بنیاد پرستی سے نمٹنے کے لیے طلبہ یونینز کو بحال کیا جائے

رکن قومی اسمبلی سائرہ بانو نے کہا کہ پاکستانی نوجوان مخمصے اور کنفیوژن کا شکار ہیں اور ان میں اعتماد کا احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ طلبہ کو اس طرح تعلیم و تربیت دی جانی چاہیے کہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں خود فیصلہ کر سکیں۔

طبیعیات دان اور ماہر تعلیم ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے نوجوانوں کے مابین صحت مند روشن خیال مکالماتی فضا کو فروغ دینے اور انہیں مذہب و نسل کی بنیاد پر پرتشدد سیاست سے بچانے کے لیے طلبہ یونینز کو بحال کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے موجودہ نصاب پر نظرثانی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ “یہ طلبہ کو تشدد کی طرف لے جاتا ہے۔” انہوں نے طلبہ کو شہریت کی قدر بارے تعلیم دینے اور ان میں تنقیدی سوچ کو فروغ دینے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تعلیمی اداروں کے ماحول کو بہتر بنانے کا یہی واحد طریقہ ہے۔ ان کا کہنا تھا “یونیورسٹیز کو کھلے بحث ومباحثے کے لیے آزاد رہنے دیں۔”

قائد اعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی نے موجودہ چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے نصاب پر نظر ثانی کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا نصاب طلبہ اور ان کے مفادات کو محور تصور کرتے ہوئے وضع نہیں کیا گیا، بلکہ آئیڈیالوجیکل ریاستی تقاضوں کو سامنے رکھ کے بنایا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا نظام وضع کرنا چاہیے کہ جس کے تحت یونیورسٹیز کو اجازت ملے کہ وہ اپنا نصاب اور انتظامی پالیسیاں خود بناسکیں۔

اقرء یونیورسٹی کے وائس چانسلر محمد اسلام نے طلبہ یونینز بارے جامعات کا نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے کہا کہ یونینز پر پابندی حکومتی فیصلہ ہے، جامعات کو ان کی بحالی پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے تمام سماجی مسائل کا حل ہماری مقامی ثقافتی روایات میں موجود ہے اگر ہم نصاب میں انہیں شامل کرلیں تو متشدد رویوں کو شکست دی جاسکتی ہے۔

اسلامی فقہ کے ممتاز سکالر اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود نے بنیادپرستی کے مبادیات پر گفتگو کی۔ ان کے مطابق ایک تو ہمارے ہاں پالیسی میکرز اور ریسرچرز کے مابین ربط قائم نہیں ہے اور یہ خلا ہر سعی کو غیرثمرآور بنادیتا ہے اور مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے۔ دوسرا نکتہ یہ کہ ریسرچ میں غیرجانبدار ہونے کی ضرورت ہے۔

ماہر تعلیم اور کالم نگار ڈاکٹر ناظر محمود نے افسوس کا اظہار کیا کہ ریاست کے پرتشدد رویے معاشرے میں منتقل ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاست ایک ایسے مخصوص بیانیے کو سراہتی رہی جس میں جنگجوؤں کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا، جبکہ اس کے متبادل بیانیے کی حوصلہ شکنی کی گئی۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ نوجوانوں سے متعلق تمام مسائل پر قابو پانے کے لیے ریاستی سطح پر خاص پالیسی تشکیل دینی ہوگی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ماضی میں طلبہ یونینز کی کچھ خاص “خوشگوار یادیں” نہیں رہیں، اس لیے یونینز کی بحالی کا طریق کار اور ڈھانچہ ایسا تجویز کیا جائے کہ اس میں جمہوری تأثر غالب ہو۔

سرگودھا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق احمد نے طلبہ یونینوں کی بحالی کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ان پر پابندی کے سبب اعلی تعلیمی اداروں میں نسل پرستی کو فروغ ملا ہے۔

اس حوالے سے دانشور اور کالم نگار خورشید احمد ندیم کا نقطہ نظر مختلف تھا، ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو یہ حق نہیں دیا جانا چاہیے کہ وہ طلبہ میں اپنے وِنگ اور شعبے بنائیں اور انہیں سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کریں۔ انہوں نے اس پہلو پر بھی بات کی کہ ہمارے ہاں مسائل اور حالات تبدیل کیوں نہیں ہوتے۔ ان کے مطابق اس وجہ ترجیحات کا فرق ہے۔ باقی دینا اگر ترقی کر رہی ہے تو ان کی ترجیحات مختلف ہیں۔ ہماری ذہنی ساخت کا مرکزی تصور یہ بن گیا ہے کہ انسان ایک مذہبی وجود ہے۔ اور ہم اپنی زندگی کے تمام اطوار اسی تصور پر تعمیر کرتے ہیں۔ حالانکہ درست یہ ہے کہ انسانی ایک سماجی وجود ہے اور مذہب اس وجود کے لیے ایک معاون کی حیثیت رکھتا ہے۔

قائداعظم یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر سلمی ملک نصاب اور تعلیمی اداروں کے انتظامی امور پہ روشنی ڈالی۔ اہوں نےکہا کہ جامعات کے اندر سوشل سائنسز میں بہس زیادہ سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ طلبہ کے مسائل کو ٹھیک سے سمجھا نہیں جا رہا جس کے باعث طلبہ میں ہیجان بڑھ رہا ہے۔ ریاست صرف طاقت کا استعمال کرکے جان چھڑانے کی کوشش کرتی ہے حالانکہ اس سے مسائل مزید بے قابو ہوتے ہیں۔

معروف ادیب اور نمل یونیورسٹی اسلام آباد میں استاد عابد سیال نے واضح کیا کہ اصل مسئلہ تشخیص کا ہے۔ نوجوانوں کی جو ذہنیت اور صلاحیت اسکولوں میں پروان چڑھتی ہے وہی آگے چلتی رہتی ہے۔ اس لیے تعلیم کے ابتدائی درجات میں توجہ دینی چاہیے۔

ماہرسماجیات طاہر نعیم ملک طلبہ کے انتظامی امور میں کردار کو بڑھانے کی بات کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم اداروں کے اندر جو بھی فیصلے کیے جائیں ان میں طلبہ سے مشاورت کی جانی چاہیے۔ طلبہ سے متعلق امور میں خود طلبہ کی رائے کا نہ لیا جانا ناانصافی ہے۔

’پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز‘ کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے اپنے ابتدائی کلمات میں اعلی تعلیمی اداروں کے اندر اساتذہ اور انتظامیہ کے مابین بڑھتی ہوئی داخلی سیاست کی نشاندہی کی، اور بتایا کہ اس کے برخلاف طلبہ کے لیے اپنے اظہارِخیال کی بہت محدود جگہ رہ گئی ہے۔

مقررین شرکاء نے زور دیا کہ نوجوانوں کو شہریت، جمہوریت اور آئین کی تعلیم دے کر اور ان کے مابین آزادانہ بحث ومباحثہ کی فضا کو فروغ دے کر تعلیمی احاطوں سے تشدد اور سخت گیر رویوں کا خاتمہ کیا جائے۔

’پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز گزشتہ کچھ عرصے سے ایسی ورکشاپس اور مکالماتی و مشاورتی نشستوں کا انعقاد کر رہا ہے جن کا محور پاکستان کے نوجوان ہیں۔ حال ہی میں ’ریاست، سماج مذہب اور سیاست نوجوانوں کی نظر میں‘ کے عنوان کے تحت ہر صوبے کے تناظر میں الگ الگ ورکشاپس کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس مطالعاتی سلسلے پاکستانی کے نوجوانوں کی فکری ساخت اور ان کی سوچ کی اساسات کا جائزہ لیا گیا تھا۔ یہ رپورٹ باقاعدہ ترتیب وار شائع کی جا چکی ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...