معتبر شاعرہ منصورہ احمد کی متنازعہ شخصیت

ظفر معین بلے جعفری

834

محترمہ ادا جعفری، کشور ناہید، زہرہ نگاہ، پروین فنا سید، فہمیدہ ریاض اور اسی درجے کی چند اور شاعرات کے قلم کی جنبش جب سست روی کا شکار ہوگئی یا یوں کہیے کہ ان کی شاعری منظرِ عام پر آنا جب کم ہو گئی تو دلداگانِ شعر و ادب نے شاعرات کے تخلیقی جوہر کی کمی کا شدت سے احساس کیا، ایسے میں اچانک متعدد شاعرات سامنے آئیں۔ ان میں ایک نام پروین شاکر کا بھی تھا جبکہ سارہ شگفتہ کی آزاد اور نیم آزاد یا نثری نظمیں بھی اسی عہد میں مگر کم کم سامنے آئیں کیونکہ وہ اپنی نظمیں شائع کروانے کے بجائے امرتا پریتم کو لکھ کر بھیجنے کو ترجیح دیتی تھیں۔ نورین طلعت عروبہ، نوشی گیلانی، شاہدہ نور و دیگر نے اپنی شاعری شائع کرنے کروانے اور مشاعرے پڑھنے پر زیادہ توجہ دی۔ بےشک محترمہ ماہ طلعت زاہدی کو شاعرات میں ایک بلند اور اعلی مقام حاصل رہا ہے اور ان کی حیثیت مسلمہ ہے، لیکن وہ ہمیشہ مشاعروں سے گریزاں رہیں۔ اور جہاں تک شاعری کی اشاعت کا تعلق ہے تو ہمیں کہہ لینے دیجے کہ محترمہ ماہ طلعت زاہدی اس معاملے میں بھی معیار کو مدنظر رکھتی تھیں۔ چند مخصوص اور معیاری ادبی رسالوں اور جریدوں کو ہی اپنی تخلیقات بھیجتی تھیں۔ انہی کی طرح منصورہ احمد بھی مشاعروں کی واہ واہ سے دور رہیں اور اپنی شاعری کو اپنے یا اپنے مخصوص اور قریبی حلقے تک محدود رکھنے میں کامیاب رہیں۔ پروین شاکر، نوشی گیلانی اور نیلما ناھید درانی ہم عصر تھیں۔ نیلما ناھید درانی کا تعلق محکمہ پولیس سے تھا۔ جو ایس ایس پی کے عہدے سے ریٹائر ھوئیں۔ مگر دوران سروس ہی انھوں نے شاعری، افسانہ نگاری اور سفر نامہ نگاری جاری رکھی۔ وہ بھی اپنی پہلی کتاب ’جب تک آنکھیں زندہ ہیں‘ کی اشاعت( 1986) سے بلے ھاوس کی ادبی محافل میں شرکت کرتی رہیں ہیں۔ ان سب میں پروین شاکر کی شاعری سب سے زیادہ مشہور اور ممتاز قرار پائی، نوشی گیلانی کی شخصیت اور شاعری دونوں ہی کو متنازعہ بناکر پیش کیا جانے لگا اور پھر اچانک پروین شاکر ایک ’مبینہ‘ حادثے میں داغِ مفارقت دے گئیں۔

اسی مرحلے میں ایک شاعرہ منصورہ احمد کی خوبصورت نظمیں بھی ادبی رسالے ’’فنون‘‘ میں  شائع ہو رہی تھیں اور ان کے مداحوں کا حلقہ وسیع تر ہوتا جا رہا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے منصورہ احمد تمام شاعرات میں سب سے منفرد نظر آنے لگیں مگر ابھی تک منصورہ احمد کا کوئی شعری مجموعہ منظرِعام پر نہیں آیا تھا۔
منصورہ احمد کا پہلا شعری مجموعہ ’طلوع‘ 1997ء میں شائع ہوا۔ 1998ء میں طلوع کو وزیراعظم ادبی ایوارڈ ملا۔ احمد ندیم قاسمی کے 81 ویں جشنِ ولادت کے موقع پر منصورہ احمد کا پہلا شعری مجموعہ ادبی افق پر ’طلوع‘ ہوا۔

یہ حقیقت ہے کہ بڑے لوگ بہت کم کم ہی ہوتے ہیں۔ ایک ارب تیس چالیس کروڑ کی آبادی کو صرف ایک ’گلزار‘ میسر آسکا۔ اس ایک گلزار نے لاکھوں تخلیق کاروں میں بھی جداگانہ حیثیت کو تسلیم کروا لیا اور سرحدوں سے پار بھی گلزار کو لاکھوں پرستار میسر آئے اور وہ گلزار کہ جس کے ایک مصرع:

”ہم نے دیکھی ہے ان آنکھوں کی مہکتی خوشبو“

نے منصورہ احمد کی تخلیقی اپج کو منظرِ عام پر لانے اور جوالا سلگانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی منصورہ احمد کو تخلیق کے ایک گھنے شجر کی ٹھنڈی اور مہکتی چھاؤں سے فیض یاب ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے اگر آپ منصورہ احمد کی نجی حلقے پر نظر ڈالیں تو آپ کو اس میں شامل ہر شخص کسی نہ کسی اعتبار سے علم و ادب اور تخلیق کاری میں پیش پیش نظر آئے گا اور پھر اگر آپ ’حلقہ فنون‘ اور حلقہِ اساطیر کی طرف آئیں گے تو شاید اس بات کا اندازہ کر سکیں کہ علمی، ادبی اور تخلیقی سطح پر جو جس قدر بلند مرتبے کا حامل ہوگا منصورہ احمد کے لیے اس قدر قابلِ تکریم ہوگا۔

منصورہ احمد کی خوبصورت شاعری کا مطالعہ کرتے وقت احساس ہوتا ہے گویا ہم خود بھی ان کے ہمراہ ہیں اور ہر منظر اور موضوع کو محسوس کر رہے ہیں مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ قاری تخلیق کار کے ساتھ آدھے سفر تک ہی ہمسفر رہتا ہے کیونکہ وہ تو پاتال میں اس قدر گہرائی تک اترتی ہیں کہ جہاں سے دوبارہ ابھرنا یا باہر نکل آنا ہر ایک کے بس میں نہیں۔

منصورہ احمد ایک شدت پسند شاعرہ ہے جو بہت سی چھوٹی چھوٹی اور معمولی بات کا شدت سے احساس کرکے اسی شدتِ احساس  کو شعری پیکر عطا کر دیتی ہیں، کبھی کبھی تو یہ احساس ہوتا ہے کہ اس قدر حساس ہونا خود تخلیق کار اور اس کے قاری دونوں کے لیے خطرناک ہے اور بے شک منصورہ احمد ان خطرات سے کھیلتی ہیں اور ان خطرات سے کھیل کر ہی کھل کر سامنے آتی ہیں۔ منصورہ احمد کے مشاہدات اور تجربات انتہائی تلخ ہیں انہوں نے جو کچھ دیکھا، سنا، سمجھا، پایا اس کو اسی انداز میں محسوس بھی کیا اور محفوظ بھی۔ ’’طلوع‘‘ کا مطالعہ کر کے یہ بات انتہائی وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ منصورہ احمد کی تخلیقی اپج سے انکار ممکن ہی نہیں البتہ طلوع پڑھ کر ایک اور احساس بھی ہوتا ہے بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوتا کہ ’طلوع‘ کا قاری خوف زدہ ضرور ہوتا ہے کیونکہ وہ تخلیق کاری کی اس شدت بلکہ حدت کو برداشت نہیں کر پاتا۔ اور ایسا اس وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ منصورہ احمد کی شاعری کی کیفیت ایسی ہے ہی نہیں کہ اس سے یکدم باہر آیا جا سکے اور یہ انداز اور اعزاز کم بلکہ بہت کم تخلیق کاروں کو حاصل ہوتا ہے یقینا منصورہ احمد انہی میں سے ایک ہیں۔

میری خواہش تو یہ تھی کہ میں منصورہ احمد کی نظموں میں سے چند نظمیں منتخب کر کے اس  کے اقتباسات بھی شامل تحریر کروں لیکن نہیں یہ کام بہت کٹھن ہے۔ منصورہ احمد کی تمام تر تخلیقات منتخب شدہ ہیں شاید مجھ سے مزید انتخاب نہیں ہو پائے گا۔ مجھے منصورہ احمد کے ’طلوع‘ میں کوئی تخلیق تو کجا ایک مصرع تک ایسا محسوس نہیں ہوا جس کو میں نسبتاً کم اچھا کہہ سکوں۔ بہرطور بحالتِ مجبوری چند نظموں کے اقتباسات شامل تحریر کرنا برائے حوالہ اشد ضروری ہے۔

مگر پہلے منصورہ کی شاعری کے حوالے سے جون ایلیا کی رائے ملاحظہ ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’منصورہ احمد ایک زبردست شاعرہ ہے اور پنجاب میں تو اس سے بہتر یا اس کے پائے کی شاعرہ ہے ہی نہیں‘‘۔ طلوع کی اشاعت پر پروفیسر طاہر تونسوی کے تاثرات بھی توجہ طلب ہیں، ملاحظہ ہوں ’’طلوع کی اشاعت ادبی دھماکہ قرار پایا۔۔۔اور یہ ثابت ہوکر رہا کہ منصورہ احمد منفرد اور چونکا دینے والے لہجے کی ایک خوبصورت شاعرہ ہےاور ان کے پہلے ہی شعری مجموعے ”طلوع“ نے ادبی دنیامیں تہلکہ مچا دیاہے۔‘‘

گلزار لکھتے ہیں کہ ’’منصورہ ایک کولمبس ہے۔ سمندروں پہ سفر کرتی ہے اور زندگی کے نئے نئے جزیروں کو تلاش کرتی ہے، وہ جزیرے کبھی ایک صورت کی صورت میں نظر آتے ہیں کبھی تواریخ کی صورت۔ اس کی نظمیں پرسنل بھی ہیں اور اپنے دور کی روداد بھی۔ اس کے مصرعے سانس لیتے ہیں تو چھو جاتے ہیں کبھی صبا کی صورت کبھی روشنی کے چھینٹے کی طرح۔ اس کی سطروں میں وقت کی تہیں رکھی ہوئی محسوس ہوتی ہیں، اس کی نظم پڑھ لینے کے بعد کئی بار محسوس ہوا کہ نظم کی افشاں میرے ہونٹوں پہ رہ گئی !۔۔۔‘‘

منصورہ احمد کی نظمیں ہی نہیں بلکہ غزلیں بھی حد درجہ خوبصورت ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں، لیکن اس سے قبل ایک چھوٹی سی بات اور وہ یہ لازمی نہیں ہے لیکن عام طور پر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اردو ادب کے ایسے تخلیق کار کہ جن کا تعلیمی یا مطالعاتی پس منظر انگریزی ادب یا پھر دیگر زبانوں  اور اردو ادب سے وابستہ رہا ہوتا ہے تو ان کی تخلیقات کی انفرادیت انہیں جداگانہ پہچان عطا کرتی ہے۔ اس حوالے سے بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں لیکن شاعرات میں ہی دیکھ لیجے تو بالکل سامنے کی مثالوں میں محترمہ پروین شاکر، محترمہ ماہ طلعت زاہدی، محترمہ فہمیدہ ریاض اور خود محترمہ منصورہ احمد اور ان کے علاوہ اور بھی بہت سے نام ہیں. منصورہ احمد کی شاعری سے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

زندگی موت کی امان میں ہے
چھاؤں سورج کے سائبان میں ہے

کل عدالت لگائیں گے بچے
محتسب آج کس گمان میں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کس قدر دشوار ہے ان شہروں میں رہنا
گھر کی چوکھٹ ڈھونڈنے میں ہجرتوں کے درد سہنا

پھر کسی کی آنکھ میں دیکھا گیا ہے موسم گل
کتنے دن کے بعدمیں نے کوئی کھلتا رنگ پہنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھ کو حیرت کی صلیبوں سے اتارے کوئی
بے صدا شہر میں رہ کر ہی پکارے کوئی

کس طرح ناؤ چلے اتنے چڑھے پانی میں
تیری یادوں کا سمندر تو اتارے کوئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تمام شہر میں تیرہ شبی کا چرچا تھا
یہ اور بات کہ سورج افق پہ نکلا تھا

عجیب وجہ ملاقات تھی مری اس سے
کہ وہ بھی میری طرح شہر میں اکیلا تھا

میں سب سمجھتی رہی اور مسکراتی رہی
مرا مزاج ازل سے پیمبروں سا تھا

میں اس کو کھو کے بھی اس کو پکارتی ہی رہی
کہ سارا ربط تو آواز کے سفر کا تھا

میں گل پرست بھی گل سے نباہ کر نہ سکی
شعور ذات کا کانٹا بہت نکیلا تھا

سب احتساب میں گم تھے ہجوم یاراں میں
خدا کی طرح مرا جرم عشق تنہا تھا

وہ تیرے قرب کا لمحہ تھا یا کوئی الہام
کہ اس کے لمس سے دل میں گلاب کھلتا تھا

مجھے بھی میرے خدا کلفتوں کا اجر ملے
تجھے زمیں پہ بڑے کرب سے اتارا تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فراق آثار لمحوں کی دہائی کون دے گا
ترے چہرے کے سورج میں دکھائی کون دے گا

مجھے اک بات کہنا ہے اسے کتنے یگوں سے
مگر صحرا کی وسعت میں سنائی کون دے گا

جو اک بیکل سی خوشبو میرے اندر پھوٹتی ہے
اسے اس کے دریچے تک رسائی کون دے گا

کسی کی قید سے چھٹنا تو خیر اک مسئلہ ہے
مجھے میرے ہی زنداں سے رہائی کون دے گا

میں سلطاں کے در دولت پہ اک دستک تو دے لوں
مگر اس ہاتھ کو ذوق گدائی کون دے گا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کس قدر دشوار ہے ان اجنبی شہروں میں رہنا
گھر کی چوکھٹ ڈھونڈنے میں ہجرتوں کے درد سہنا

اس سے کرنا گفتگو بس آتے جاتے موسموں کی
اور سرگرداں ہوا سے اپنے دل کی بات کہنا

اب تو اس کی جستجو کا ایک ہی انداز ٹھہرا
تتلیوں کے ساتھ پھرنا خوشبوؤں کے ساتھ رہنا

پھر کسی کی آنکھ میں دیکھا گیا ہے موسم گل
کتنے دن کے بعد میں نے کوئی کھلتا رنگ پہنا

کو بہ کو پھرتے ہی کٹ جائے گی ساری عمر اپنی
کیا سرابوں کے نگر میں منزلوں کی قید سہنا

اک بھنور میں گھومتی ہے سانس کی کشتی ازل سے
اپنی فطرت ہی کہاں تھی پانیوں کے ساتھ بہنا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھ کو حیرت کی صلیبوں سے اتارے کوئی
بے صدا شہر میں رو کر ہی پکارے کوئی

کل تجھے دیکھنا چاہا تو عجب بات ہوئی
آنکھ پر ٹانک گیا چاند ستارے کوئی

میں تری ذات سے باہر بھی تری ذات میں ہوں
کیسے دکھلائے مجھے میرے کنارے کوئی

اس نئے دور میں بچوں پہ یہ کیا وقت پڑا
آگ میں جھونک گیا ان کے غبارے کوئی

کس طرح ناؤ چلے اتنے چڑھے پانی میں
تیری یادوں کا سمندر تو اتارے کوئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کی آنکھ میں میرے لئے کچھ خواب بھی تھے
یہ الگ بات کہ ہر خواب میں گرداب بھی تھے

زندگی بانجھ سی عورت تھی کہ جس کے دل میں
بوند کی پیاس بھی تھی آنکھ میں سیلاب بھی تھے

زخم کیوں رسنے لگے اک ترے چھو لینے سے
دکھ سمندر تھے مگر موجۂ پایاب بھی تھے

چاند کی کرنوں میں آہٹ ترے قدموں کی سنی
اور پھر چاند کے ڈھل جانے کو بیتاب بھی تھے

کتنا آباد مرے ساتھ تھا سایوں کا ہجوم
کیسے تنہائی کے صحرا تھے جو شاداب بھی تھے

منصورہ احمد کی یہ بھی ایک انفرادیت ہے کہ بقول  احمد ندیم قاسمی  کے ’منصورہ کی بیشتر نظموں کا انجام ایک سوال ہوتا ہے‘ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کی نظموں کے اختتام پر جو سوال ہوتے ہیں وہ معنی خیز بھی ہوتے ہیں اور قاری کو جھنجھوڑتے بھی ہیں۔ چند سوال کہ جن پر ان کی نظمیں اختتام پذیر ہوئیں ملاحظہ ہوں

سوچ رہی ہوں ایسا کیوں ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم کو لا کے کہاں بٹھاؤں ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج ہاتھوں پر دیئے رکھ کر جلا پائے گا کون؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیسے کہے کوئی ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام آنے سے پہلے سورج کو کیوں دفناؤں ۔۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بولو جگنو تھام سکو گے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کس کا ہاتھ ہے شاہ والا۔۔۔۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان سب کی جوانی کون جیتاہے۔۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کدھر جاؤں۔۔۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی ہے۔۔۔۔۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اس کو ڈھونڈے آخر کہاں جاؤں۔۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو میری زندگی آغاز کب ہوگی۔۔۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے سینے سے لگائے گا۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے لفظ کب تک تکذیب کی سولی اتریں گے۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔؟

ایک سوال کے ایک اقتباس میں بھی آپ کو کئی سوال نظر آئیں گے ملاحظہ ہوں۔

تم نے تو رستے دیکھے ہیں
یہ تو بتاؤ
کیا اس سے مجھ تک آنے والے سب رستوں پر
کرچی کرچی ہجر اگا ہے؟
کیا ہر موڑ پہ
آدھی زندہ تتلی کی
پاگل چیخوں کا شور بپا ہے؟
کیا اس نے بھی بارش کی اک بوند کی خاطر
میری اکلوتی گڑیا کو
جلتی آگ میں جھونک دیا ہے؟
اپنے گھرکو لوٹ آنے والی ننھی چڑیو!
کچھ تو بتاؤ!

جبکہ ’مرے مالک‘ میں سوال بھی انوکھا ہےاور سوال کرنے کا انداز بھی دیکھیے:

مرے مالک
تجھے تو علم ہی ہوگا
جو بچپن سے بڑھاپے میں چلے جاتے ہیں
ان سب کی جوانی کون جیتا ہے۔۔۔؟

’تم اور سورج‘ بھی منصورہ احمد کی مختصر اور خؤبصورت نظموں میں سے ایک ہے۔ اور یہ وہ نظم ہے جس کو پڑھ کر وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ منصورہ احمد  تقابلی جائزے کے ہنر سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ اور تقابلی جائزے میں جب تک تنقید کا عنصر شامل نہ ہو تو یقینا تشنگی رہ جاتی ہے مگر آپ خود فیصلہ کریں کہ منصورہ احمد کی تم اور سورج کیسی مثال ہے:

تم اور سورج اک جیسے ہو
دونوں آنگن میں اترو تو جھلمل ہونے لگتی ہے
دونوں کی حدت سے دل کی برف پگھلنے لگتی ہے
دونوں آنکھ کی وسعت سے بڑھ جاتے ہو
دونوں آنکھیں چندھیاتے ہو
دونوں آگ میں جھلساتے ہو

منصورہ احمد کی خوبصورت نظموں میں قدرت اور فطرت کے حسین مظاہر کا ذکر شدت کے ساتھ ملتا ہے:

پانیوں پر جھلملاتی چاندنی جیسا
مرے دل کا سمندر جب بھنور کی زد میں آ جائے
سبھی تاریک لہریں گھیر کر مجھ کو
کسی پاتال کا رستہ دکھاتی ہوں
تو وہ ایسی صفت لہجہ
مجھے پھر ساحلوں پر کھینچ لاتا ہے
مجھے کہتا ہے دیکھو
اس بھنور کے پار بھی دنیا میں کچھ لمحے دھڑکتے ہیں
انہیں بھی اپنی سانسوں میں پردہ دیکھوں
یہ لہریں جو کہ اندھیاروں میں دیو آثار لگتی ہیں
انہیں تم چاندنی میں دیکھنا یہ کس طرح
کرنوں سے مل کر ماجرے تخلیق کرتی ہیں
یہ لہریں جب روپہلے نور کی ندی میں ڈھلتی ہیں
تو مستی میں مچلتی آسمانوں کو لپکتی ہیں
اماوس جب بھی آئے چاندنی کو یا مگر لینا
مرے چاروں طرف میلوں پہ چلتی دھوپ پھیلی ہے
مگر اس کی یہ باتیں بارشوں کی بوندیوں جیسی
مرے دل کی دراڑوں میں
ہری فصلی اگائی ہیں
میں سر سے پاؤں تک
شبنم سے بھیگی پتیوں میں ڈوب جاتی ہوں

گواہی ………………………. منصورہ احمد

وہ سیڑھی جو مرے دل سے
تمہارے دل کے گنبد پر اترتی ہے
شکستہ ہے
وہ کھڑکی جو تمہارے گھر میں کھلتی ہے
مری پہچان اور مکڑی کے جالوں سے اٹی ہے
زنگ خوردہ ہے
گواہی دے نہیں سکتے نہ دو
لیکن مرا اک کام تو کر دو
مری پہچان میں الجھے ہوئے مکڑی کے سب جالے
مجھے دے دو
کوئی تو ہو جو مجھ کو میرے ہونے کی گواہی دے

کوئی آواز دیتا ہے …………… منصورہ احمد

کوئی آواز دیتا ہے
حریر و‌‌ پرنیاں جیسی صداؤں میں
کوئی مجھ کو بلاتا ہے
کچھ ایسا لمس ہے آواز کا جیسے
اچانک فاختہ کے ڈھیر سے کومل پروں پر ہاتھ پڑ جائے
اور ان میں ڈوبتا جائے
بہت ہی دور سے آتی صدا ہے
میں لفظوں کے معانی کی گواہی دے نہیں سکتی
مگر ہر لفظ میں گھنگرو بندھے ہیں
حریم جان میں ان کے پاؤں دھرتے ہی
کئی بے چین پازیبیں دھڑکتی ہیں
لمحوں میں ایک دیوالی سی سجتی ہے
کوئی آواز دیتا ہے
حریر و پرنیاں جیسی صداؤں میں
کوئی مجھ کو بلاتا ہے

صدیوں پیچھے ………………. منصورہ احمد

سنتے ہیں کہ نسلوں پہلے
چین کی باغی شہزادی نے
اپنی دنیا تک جانے کے پاگل شوق میں
آنگن کی دہلیز الانگی
اور گلیاں شہ راہیں ناپتی
اک پھلواری تک جا پہنچی
رسموں کے ٹھیکے داروں نے
جرم تمنا کی پاداش میں حکم سنایا
اب دنیا میں آنے والی ہر ہوا کو

سیاست ……………… منصورہ احمد

جب ہم چھوٹے چھوٹے سے تھے
ہم سایے میں ایک بڑی بی رہتی تھی
گلی محلے کے سب بچے اس کو ماسی کہتے تھے
ماسی کی اک عجب ادا تھی
گلی محلے کے جس بچے پر بھی اس کا داؤ چلتا
مکوں اور دھمکوں سے
ادھ موا سا کر کے خود چھپ جاتی
فریادی بچے کی آہ و زاری سن کر
رستہ چلنے والے یا بچے کے اپنے آ جاتے تو
مجمع چیر کے سب سے پہلے ماسی آتی
رونے والے بچے کو سینے سے لگاتی
شہد بھرے لمحے میں کہتی
میرے پیارے
آنکھ کے تارے
کس نے مارا
بچہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے
ماسی کو تکتا رہ جاتا
اور قصہ ٹھنڈا ہو جاتا
ہم سب بچے
نا سمجھی میں
ماسی سے نفرت کرتے تھے
مورکھ تھے نا
ماسی کے اصلی قد کو پہچان نہ پائے
اب جا کر یہ سمجھ سکے ہیں
گھر گھر برتن مانجھنے والی اپنی ماسی
کتنی بڑی سیاست داں تھی

سنو …………..….. منصورہ احمد

سنو
جن کی ہنسی سے اس زمیں پر پھول کھلتے ہوں
جنہیں نغمے پہ اتنی دسترس ہو
کہ پنچھی ان کی لے پر چہچہاتے ہوں
انہیں تو اس طرح چپ چاپ ہو جانا نہیں سجتا
سنو
ساری زمیں گمبھیر چپ اوڑھے ہوئے ساکت کھڑی ہے
تم اتنی ہی کرو اک بار ہنس دو
زمیں کی منجمد سانسوں میں
پھر سے زندگی چلنے لگے گی
پہلے دن سے لوہے کے جوتے پہناؤ
یہی ہوا اور ہوتا آیا
سب نے دیکھا
سرخ سجیلے چہروں والی
اور گدرائے جسموں والی دوشیزائیں
آنگن کی دیوار پکڑ کر چل پاتی تھیں
سوچ رہی ہوں
صدیاں کیسے اتنا پیچھے لوٹ آئی ہیں
چین کی سرحد کیسے میرے گھر آنگن تک آ پہنچی ہے
لوہے کے جوتوں میں جکڑے میرے پاؤں
آنگن کی دہلیز الانگ کے
اپنی دنیا تک جانے سے انکاری ہیں

’یہاں سے آسماں دیکھو‘ جو کہ بلا شبہ ایک انوکھے خیال کی عکاسی کرتی ہے اور اس میں منصورہ احمد نے دھول، پلکیں، صحرا، کلیاں، شاخوں، شاخوں پہ ہلکا بور، پت جھڑ، چاند، سمندر، روزوشب، ساحل، جزیرہ، زندگی ، بدن، گھاٹیاں، آنکھ، خوشبو، خلا، گرداب، بیل، آنگن، آسمان اور زمین جیسے مظاہر قدرت و فطرت کے ذکر سے ثابت کیا ہے کہ فطرت اور قدرت کی ٹھوس اور مضبوط بنیادوں پر قائم یہ کائنات اور اس کائنات کا ہر رنگ اور روپ انہیں کس قدر عزیز ہے۔

منصورہ احمد احمد ندیم قاسمی کی لے پالک بیٹی تھیں۔ پیچھے دیکھیں تو اب بہت سی یادیں ہیں جو ان کے ساتھ بیتی ہیں۔

منصورہ احمد نے ادبی دنیا میں قدم رکھا تو 1986ء سے 2006ء تک حضرت احمد ندیم قاسمی  کے جاری کردہ مقبول ترین ادبی جریدوں اور رسالوں سے ایک ادبی رسالے  ’فنون‘ کے ادارتی بورڈ میں شامل  رہیں۔ جبکہ منصورہ احمد کا نام بطور شریک مدیرہ دس برس سے کم عرصہ چھپا لیکن عملی طور پر منصورہ احمد کی بھرپور معاونت شامل حال رہتی۔

منصورہ احمد نے اساطیر کے نام سے ایک اشاعتی ادارے کی بھی بنیاد رکھی۔ ادارہ اساطیر نے بہت اعلی معیار کی کتب کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ جن میں جناب احند ندیم قاسمی کے تقریبا تمام تر شعری اور افسانوی مجموعوں کے نۓ ایڈیشنز کے علاوہ دیگر کتب بھی شامل ہیں اور دنیاۓ ادب کے بے تاج بادشاہ سرکار گلزار کی کتب بھی۔

حضرت احمد ندیم قاسمی صاحب کی رحلت کے بعد منصورہ احمد نے ادبی جریدہ ’مونتاج‘ جاری کیا۔ جس میں جناب احمد ندیم قاسمی کا نام بطور میرِ کارواں سب سے اوپر پبلش کیا جاتا تھا۔ مونتاج کا پہلا شمارہ احمد ندیم قاسمی نمبر تھا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے منصورہ احمد نے مونتاج کے تقریبا گیارہ ہی شمارے منظر عام پر لاسکیں۔ مونتاج کے بارہویں شمارے کا مسودہ کمپوز بھی ہوچکا تھا بلکہ نصف سے زیادہ مواد کی تو پروف ریڈنگ بھی ہوچکی تھی۔

طلوع کے بعد بلکہ اپنی زندگی کے آخری حصے میں منصورہ احمد نےاپنا دوسرا شعری مجموعہ ’آسمان میرا ہے‘ مرتب کرنا شروع کیا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ منصورہ احمد اپنی زندگی ہی میں اپنا دوسرا شعری مجموعہ مرتب کرچکی تھیں لیکن اس سے قبل کہ وہ زیور طباعت سے آراستہ ہوتا منصورہ احمد کا اس جہانِ فانی سے دانہ پانی اٹھ گیا۔ اور آسمان میرا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ایک سوالیہ نشان بن گیا۔ اللہ جانے کہاں چلا گیا ’آسمان میرا ہے‘۔

یہاں ایک بات کی وضاحت اشد ضروری ہے اور وہ یہ کہ منصورہ احمد کی زندگی کے ان پانچ برسوں کے حوالے سے ہماری تمام تر معلومات کا ذریعہ خود منصورہ احمد ہیں۔ ان سے فون پر مسلسل رابطہ تھا۔ بہت سے امور پر باہمی مشورے ہوتے تھے۔ لیکن جب منصورہ احمد شدید علالت کا شکار ہوچکی تھیں اور فالج کے حملے کے بعد تو جیسے وہ ڈھیر ہی ہوچکی تھیں۔ بعض اوقات ان کی زبان کی لکنت کی وجہ سے ان کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ ٹھیک سے سمجھ بھی نہیں آتے تھے، کیونکہ ان کی آواز سے ان کی نقاہت اور زبان کی لکنت کا بخوبی اندازہ ہوتا تھا۔ حضرت احمد ندیم قاسمی صاحب کی رحلت کے بعد منصورہ احمد اندر تک سے ٹوٹ اور بکھر چکی تھی ممکن ہے کہ وہ خود کو بکھرنے سے بچانے میں کامیاب ہوجاتی اور خود کو سمیٹ پاتی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے رویوں اور ہمارے طرز عمل نے منصورہ احمد کو جیتے جی مار ڈالا۔ یہ اسٹروک، یہ فالج، اور پھر نمونیا اور پھر تو جیسے بیماری نے منصورہ احمد کو آن لیا تھا۔ کبھی بلڈ پریشر کا سنتے تو کبھی نقاہت کا اکیلی جان اور اس کے ساتھ مونتاج جیسے معیاری اور ضخیم جریدے کے تمام تر کام کا بوجھ اور بھاگ دوڑ بھی منصورہ احمد کے کاندھوں پر تھی۔

منصورہ احمد بے شک جدید اردو شاعری کا معتبر حوالہ معتبر نام ہے۔ منصورہ احمد نے کم از کم بھی پچیس نہ بھی سہی تو بیس برس تو ضرور دنیاۓ شعر و ادب میں محض اپنی جاندار شاعری کی بنا پر خوب نام اور مقام پایا اور کمایا۔ منصورہ احمد کی نظم ہو یا غزل دونوں ہی کو اعلی اور عمدہ اور یکسر منفرد لہجے کا تسلیم کیا گیا  لیکن خدا جانے ایسا کیا ہوا کہ احمد ندیم قاسمی صاحب کی وفات کے بعد تو جیسے منصورہ احمد کی ادبی خدمات اور عمدہ شاعری کا تذکرہ کرنے سے بھی اجتناب برتنے کا رحجان پروان چڑھنے لگا۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ منصورہ احمد کی شخصیت اور کردار اور فن کے منفی پہلو تلاش کرنےکی ناکام کوشش کی جانے لگی۔ جب ہمیں منصورہ احمد کی علالت کی خبر ملی تو صدیقہ بیگم نے میرے دورہِ لاہور کے دوران معلوم کروایا تو پتہ چلا کہ بسلسلہ علاج منصورہ احمد لاہور میں نہیں ہیں بلکہ لاہور سے باہر اپنے بھای یا بہن کے ہاں قیام پذیر ہیں۔ پھر کچھ عرصہ بعد خود منصورہ احمد سے معلوم ہوا کہ وہ لاہور لوٹ چکی ہیں اور شاید فیصل ٹاٶن میں ہیں۔ میں اور صدیقہ بیگم منصورہ احمد کی مزاج پرسی کو گویا کہ عیادت کےلیے گۓ۔ منصورہ علالت اور نقاہت کے باوجود وہ بہت تپاک سے ملیں۔ اس وقت بھی منصورہ احمد کی طبیعت ہرگز ٹھیک یا بہتر نہیں تھی اور باوجود اس کے کہ ان سے بولا بھی نہیں جارہا تھا گفتگو میں بھی دشواری کا سا احساس ہورہا تھا۔ وہ مسلسل ہم دونوں سے محو گفتگو رہیں۔ دو ایک مرتبہ ہم نے اٹھنے اور رخصت کی اجازت چاہی لیکن منصورہ احمد نے ہمیں اٹھ کر آنے بھی نہ دیا اور کہنے لگیں بہت کم بہت کم لوگ ہیں کہ جن سے میں اپنی بات کرلیتی ہوں۔ ایک مسعود اشعر صاحب، خالد احمد صاحب، نجیب احمد صاحب، ظفر معین بلے اور صدیقہ بیگم، آپ اور بس۔ ہاں دو ایک نام اور بھی ہیں لیکن آپ سب سے بات کرکے میرا جی ہلکا ہوجاتا ہے۔ اور آپ سب کے سب نے مجھے ہمیشہ مخلصانہ مشوروں سے نوازا اور کسی بھی قسم کی محاذ آرای سے اجتناب برتنے کا کہا۔

منصورہ احمد علالت کے باعث حد درجہ حساس سی ہوچکی تھیں۔ دوران گفتگو متعدد بار ان کی آنکھیں اشک بار اور ان کا لہجہ تھرا گیا۔ میں نے اور صدیقہ بیگم نے انہیں حوصلہ دینے کی کوشش کی تو کہنے لگیں مجھے آپ سب کی دعاٶں کی اشد ضرورت ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ اب میرے پاس زیادہ وقت بھی نہیں ہے۔  بابا سے محبت کرنے والے بہت سوں میں سے چند ایک ہی سہی لیکن مجھ سے بھی بابا کی محبت میں محبتیں اور تعلق نبھا رہے ہیں آپ دونوں بھی انہی چند میں سے ہیں۔ اور یہ کہہ کر انہوں نے اشکبار آنکھوں اور دکھ بھرے لہجے میں مذید کہا کہ اگر کبھی آپ کی یا آپ میں سے کسی کی میری کسی بات سے دل شکنی ہوی ہو تو میں دست بستہ معذرت کی خواستگار ہوں۔ اس پر میں نے اور صدیقہ بیگم نے ان سے عرض کیا کیسی مایوسی کی باتیں کر رہی ہو۔ وہ بھی اتنی بہادر ہوکر تو منصورہ احمد نے کہا کہ نہیں مجھے اندازہ ہے کہ میرے پاس وقت نہیں ہے۔ اور میری طبیعت میری بیماری ہرگز بھی قابو میں نہیں آرہی۔ وقت ریت کی طرح مٹھیوں سے نکلتا چلا جارہا ہے بلکہ آج تو میں سوچ رہی تھی کہ ناہید باجی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صدیقہ بیگم نے استفسار کیا کہ ناہید باجی کیا ۔۔۔؟؟؟ کیا ناہید قاسمی سے پھر کچھ نیا معاملہ ہوا ہے کو۔۔۔۔۔۔ی ن۔۔۔۔۔۔ی  بات۔ تو منصورہ احمد نے کہا نہیں فی الحال تو ایسا نیا کچھ نہیں ہوا لیکن میں سوچ ضرور رہی تھی کہ ان سے فون پر بات کروں، اگر اب بھی ان کے دل میں میرے حوالے سے کو۔۔۔۔۔ی بدگمانی ہے تو میں ان سے معافی مانگ لوں۔ اس تمام تر گفتگو کے بعد ہم نے پھر جانے کا ارادہ کیا تو منصورہ احمد نے صدیقہ بیگم کا ہاتھ پکڑ کر انہیں بٹھا لیا اور مجھ سے کہا کہ ظفر معین بلے صاحب آپ نے مجھ ہمیشہ احترام اور اعتماد بخشا اور منصورہ باجی کہہ کر مخاطب کیا۔ آج آپ کی منصورہ باجی آپ سے کہہ رہی ہے کہ بھیا ہم مدتوں بعد ملے ہیں ایک عرصہ ہوا کہ آپ اور صدیقہ بیگم کے ساتھ بیٹھنا اور بات کرنا بھی نصیب نہ ہوسکا اور کب ہوسکے گا یا نہیں کون جانے۔ اتنی دیر میں صدیقہ بیگم کا کہیں سے فون آگیا اس کمرے میں سگنلز کا کچھ مسئلہ تھا تو وہ اٹھ کر کمرے سے باہر جاکر فون سننے لگیں۔ مجھے تشویش کا احساس ہوا تو میں صدیقہ بیگم کے پیچھے پیچھے پہنچ گیا۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگیں ظفر مینوں  شدید پکھ لگی اے ہن کی کرنا اے۔ دس مینوں چھیتی چھیتی۔ میں نے کہا کہ اجازت لیں منصورہ باجی سے تو صدیقہ بیگم تپ کر جھنجھلا کر بولیں، ہالے تیکر تے اوہ شرافت دی شرافت وچ ریکویسٹ کر رہی اے کہ تسی لوکی تھوڑی دیر ہور نہ جاٶ۔ فیر اوہ جدوں مولا جٹ دا ڈانگ چک کے وی ساڈے ول تکے گی تے دس کی بنے گا تیرا تے میرا۔ قصہ مختصر ہم دوبارہ منصورہ باجی کے پاس جا بیٹھے اور ایک دو ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد صدیقہ بیگم نے منصورہ احمد سے پوچھا کہ تمہارا پرہیز کس کس چیز کا۔ تم کیا چیز شوق سے کھاسکتی ہو۔ منصورہ احمد بتاتی رہیں اور میں سنتا رہا۔ اور پھر میں نے پہلے چپکے سے صدیقہ بیگم کے فون سے کہیں کسی مخصوص جگہ پر فون کیا اور میسج بھی۔ اور پندرہ منٹ بعد منصورہ احمد سے کہا کہ صدیقہ باجی کی کچھ میڈیسن لینی ہے آپ لوگ بیٹھیں میں آیا ابھی کچھ ہی دیر میں اور پینتالیس پچاس منٹ میں اپنے ٹھکانے سے کھانا تیار کروا لایا ۔ ہمارا مقصد یہ تھا کہ ہماری خواہش کے احترام میں شاید منصورہ احمد بھی کچھ کھالیں اور ہم اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔

لاہور سے ملتان اور پھر ملتان سقاسمی صاحب کی گرتی ہوئی صحت کے باعث ’فنون‘ کی بہت حد تک ذمہ داری منصورہ احمد کے کاندھوں پر آگئی تھی۔ جب ان کا نام  مدیر منتظم / شریک مدیرہ  کے طورپر ’فنون‘ میں شائع ہونے لگا تو یہ بات بذاتِ خود ایک نیا موضوع بن گیا اور اس کے ساتھ ساتھ یہ تاثر بھی قائم کرنے کی کوشش کی جانے لگی کہ احمد ندیم قاسمی کا تو بس نام ہی استعمال ہو رہا ہے ان کا اتنا عمل دخل نہیں رہا۔ تمام تر مواد matter کا انتخاب منصورہ احمد ہی کرتی ہیں۔ اور جب منصورہ احمد کی شاعری بالخصوص نظمیں تواتر کے ساتھ فنون میں شائع ہونے لگیں تو ایک نئے موضوع نے جنم لیا۔ پھر کیا ہوا۔ امجد اسلام امجد کے مطابق ’اس دوران میں اس نے بطورِ شاعرہ کے بہت ترقی کی۔ اور بلا شبہ اپنے لیے ایک نام اور مقام حاصل کیا لیکن یہاں بھی وہی افراط و تفریط کا ماحول بن گیا کہ فنون کا وہ حصہ جو قارئین کے خطوط اور آرا پر مبنی ہوتا تھا کم و بیش منصورہ نامہ بن کر رہ گیا۔ جس کا ردِ عمل یہ ہوا کہ اس کی سچ مچ کی بہت اچھی شاعری بھی اس کریڈیبلٹی سے محروم ہوگئی جواس کا حصہ تھا۔‘

اس حوالے سے الگ بحث ہوتی رہی۔ بہرحال کسی نہ کسی طور منصورہ احمد کا ہر عمل ایک نئے موضوع کو جنم دیتا رہا۔
انتظار حسین  صاحب  نے اپنے ایک کالم میں احمد ندیم قاسمی صاحب اور منصورہ احمد کے اس باہمی تعلق، ربط اور رشتے کو ان الفاظ میں بیان کیا۔۔۔ ’بے شک اس بی بی نے قاسمی صاحب کے لواحقین کو شکایت کے مواقع فراہم کئے تھے مگر خدا لگتی کہیں گے اور سنی سنائی نہیں بلکہ آنکھوں دیکھی کہ اس منہ بولی بیٹی نے باپ کی خدمت گذاری بہت جی لگا کر کی تھی۔ قاسمی صاحب نے اسے بلاوجہ تو بیٹی نہیں بنایا تھا‘

ہم انتظار حسین صاحب کی راۓ سے سو فیصد اتفاق کرتے ہوۓ اور ان کے موقف کی تصدیق کرتے ہوۓ بس اتنا کہنا چاہیں گے۔ منصورہ احمد نے بے شک احمد ندیم قاسمی صاحب کی حد درجہ خدمت کی اور ان کی تمام تر تخلیقات اور تصانیف کے تحفظ کا سامان بہم پہنچایا اور ان کی کسی بھی تصنیف یا تخلیق تو کجا ایک سطر کو بھی غیر محفوظ نہیں رہنے دیا۔ بلکہ بہت سی گمشدہ تخلیقات کو تلاش کرکے محفوظ کیا۔ فنون کے بھی جملہ امور میں جس حد تک ممکن ہوسکتا تھا اس سے بڑھ کر معاونت کی۔

لیکن ان تمام تر اوصاف اور خدمات کے چشم دید گواہ ہونے کے ساتھ ساتھ ببانگ دہل اعتراف کرتے ہوۓ ہم یہ بات کہیں گے بلکہ جناب انتظار حسین صاحب کے ہی الفاظ کو دہراتے ہوۓ ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوۓ کہیں گے کہ بے شک منصورہ احمد نے احمد ندیم قاسمی صاحب کے لواحقین اور پسماندگان کو شکایت کے مواقع فراہم کیے تھے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ منصورہ بھی ہماری طرح بندہ بشر تھی۔

یہاں جب اتنی بہت سی تکلیف دہ باتیں ہوچکی ہیں تو ہم اس بات کا بھی اعتراف کر لیں کہ منصورہ احمد کے انتقال کے فوراً بعد ہم نے ناہید قاسمی صاحبہ کو فون کیا تھا اور ہم نے ان سے عاجزانہ گزارش کی تھی کہ ناہید باجی آپ بڑی ہیں ہمارے لیے قابل صد تعظیم ہیں آپ کو منصورہ احمد کے انتقال کی خبر دینے کے ساتھ آپ سے ایک دست بستہ گزارش ہے اور وہ یہ کہ آپ اعلی ظرف ہیں اپنے بابا احمد ندیم قاسمی صاحب کے نام پر ان کے صدقے میں منصورہ احمد کی کوتاہیوں کمزوریوں اور خطاٶں اور زیادتیوں کو درگزر اور معاف فرمادیں۔ میں آپ سے منصورہ کی طرف سے معافی کا طلبگار ہوں۔ ایک عظیم، زیرک اور بڑے انسان کی عظیم بیٹی سے ہمیں بالکل ایسے سے ہی جواب کی توقع تھی۔

حضرت احمد ندیم قاسمی صاحب کی رحلت کے بعد منصورہ احمد نے ادبی جریدہ ’مونتاج‘ جاری کیا تھا۔ جس میں جناب احمد ندیم قاسمی کا نام بطور میرِ کارواں سب سے اوپر پبلش کیا جاتا تھا۔ مونتاج کا پہلا شمارہ احمد ندیم قاسمی نمبر تھا۔ مونتاج کی مجلسِ مشاورت میں مسعود اشعر بھی شامل تھے۔ ’آئینہ‘ میں مسعود اشعر نے بہت خوبصورتی سے منصورہ احمد کی شخصیت اور خدمات کا ذکر ”منہ بولی بیٹی“ کے عنوان کے تحت کیا۔ اور بہت خوب کیا۔
مسعود اشعر صاحب وہ فرماتے ہیں کہ ’احمد ندیم قاسمی نے اسے منہ بولی بیٹی بنایا تھا اور اس نے بیٹی بن کر دکھادیا۔ احمد ندیم قاسمی صاحب کے آخری تیس پینتیس سال اس نے ان کی ایسی خدمت کی کہ کیا کوئی سگی بیٹی کرسکے گی۔‘ خود احمد ندیم قاسمی صاحب نے پروفیسر فتح محمد ملک کے نام ایک خط میں جو فتح محمد ملک کی کتاب ’ندیم شناسی‘ میں شامل ہے، منصورہ احمد کے بارے میں ان خیالات کا اظہار کیا ۔۔۔ ’’اگر میری منصورہ بیٹی میری بھرپور خدمت نہ کر رہی ہوتی تو میری سالگرہ کے بجائے آپ میری برسی منا رہے ہوتے‘‘۔

ادب کے ایک ادنی طالب علم کی حیثیت سے میرا اکابرین و ناقدینِ ادب اور اکادمی ادبیات جیسے اداروں سے سوال یہ ہے کہ منصورہ احمد کا ایک مجموعہ کلام منظر عام پر آچکا اور اس منصورہ احمد کا اب تک جتنا بھی کلام منظر عام پر آچکا ہے اس پر اہل نظر اور نقادان فن اپنی آراء دے چکے ہیں اور اگر ان تمام تر آراء کو یکجا کیا جاۓ تو دو یا تین ضخیم کتابیں مرتب کرنا تو ہرگز بھی دشوار نہیں، تو پھر منصورہ احمد کا شعری سفر 8 جون 2011 کو اس کی سانسوں کے ساتھ ختم کیسے ہوسکتا ہے۔ جبکہ منصورہ احمد اپنی زندگی میں ہی اپنا دوسرا شعری مجموعہ پبلش نہ بھی کرواسکی تو کم از کم مرتب ضرور کرچکی تھی جسے شائع کزایا جاسکتا تھا۔

منصورہ احمد کی 53 سالہ زندگی پر ایک نظر:
نام: منصورہ احمد
والد کا نام: مرزا حبیب احمد
تاریخ ِ ولادت: یکم جون 1958ء
مقام ولادت: حافظ آباد
تعلیم: ایم اے انگلش 1982
وجہ ِ شہرت: احمد ندیم قاسمی کی منہ بولی بیٹی
شاعرہ، مدیرہ، پبلشر اور مصنفہ
بانی مینجنگ ڈائریکٹر:
اساطیر پبشلرز / پبلیکیشنز، لاہور
مدیر منتظم/ شریک مدیرہ: سہ ماہی  فنون، لاہور 1986_  2006
 
مدیرہ: سہہ ماہی مونتاج، لاہور  2006_2011
پہلا مجموعہ کلام: طلوع، 1997، (وزیراعظم انعام یافتہ 1998 مجموعہ)
دوسرا مجموعہ کلام: آسمان میرا ہے، (مرتبہ2010، تاحال غیر مطبوعہ)

اور پھر 8 جُون 2011ءکو وفات۔ پہنچی وہیں پہ خاک، جہاں کا خمیر تھا. لاہور میں منصورہ احمد کے سانسوں کی گنتی پوری ہونے کے بعد انہیں ان کے آباؤ اجداد کے شہر حافظ آباد میں ہی سپرد خاک کردیا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...