شکست خوردہ تحریکِ لبیک پاکستان (TLP)
مذہبی سیاسی جماعتوں کی سیاست مذہبی نعروں اور بیانیوں کے گرد گھومتی ہے، جبکہ ان کی انتخابی فعالیت و کارکردگی کا محور بھی زیادہ تر مخصوص نظریاتی تناظرات ہوتے ہیں۔ ایسے حالات میں کہ جہاں مقتدر اشرافیہ مذہبی جماعتوں کو سیاسی داؤپیچ کے لیے استعمال کرتی ہے، تو اول الذکر جماعتیں مذہبی طور پر بپھرے ہوئے ماحول کی تشکیل کے لیے غذا فراہم کرتی ہیں۔ حال ہی میں ہونے والے پنجاب کے ضمنی انتخابات کے اندر تحریک لبیک پاکستان (TLP) کی خراب کارکردگی کا جائزہ بھی اسی مقدمے کی روشنی میں لیا جاسکتا ہے۔
ٹی ایل پی نے 2018ء کے عام انتخابات میں 2.2 ملین ووٹ حاصل کیے تھے اور ملک بھر میں پانچویں بڑی جماعت بن کر ابھری تھی۔ اس کے بعد سے یہ جماعت بلدیاتی اور ضمنی انتخابات میں وہی روایت برقرار رکھنے میں ناکام رہی ہے، سوائے گزشتہ ماہ کراچی میں حلقہ این اے 240 کے ضمنی انتخاب میں کہ جہاں ٹی ایل پی بھی امیدوار کے طور پہ موجود تھی۔ ممکنہ طور پہ حلقے میں ووٹ کے لیے لوگوں کی کم شراکت کا جماعت کو فائدہ ہوا ہو گا، اس کے علاوہ کراچی کا سیاسی منظرنامہ بھی کافی غیر یقینی کا شکار ہوچکا ہے، کیونکہ ایم کیو ایم اپنی دھاک اور پہلے والا رسوخ کھو چکی ہے جس سے نئے سیاسی عناصر کو جگہ بنانے کا موقع مل رہا ہے۔ پنجاب کے حالیہ ضمنی انتخابات میں ٹی ایل پی نے صرف پانچ فیصد ووٹ حاصل کیے، بلاشبہ 2018ء کے انتخابات کے نتائج کے مقابلے میں اس کی یہ کارکردگی بہت خراب رہی ہے۔
اگرچہ ٹی ایل پی کی قیادت نے زور دے کر کہا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی کی گئی، لیکن اس سے ان کی بری کارکردگی پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا۔ مقتدر اشرافیہ کی جانب سے ’غیرجانبداری‘ کا مظاہرہ بھی ایک عنصر ہو سکتا ہے، لیکن بعض دیگر وجوہات بھی ہیں نے جنہوں نے اس گروہ کی شکست میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
سب سے پہلے تو یہ کہ، ٹی ایل پی بنیادی طور پر ایسے واقعات و مسائل کی بنیاد پر فروغ پذیر ہوتی اور طاقت حاصل کرتی ہے جو مذہبی جذبات کو بھڑکاتے ہیں، خاص طور پر توہینِ رسالت کا مسئلہ۔ فی الوقت ان میں سے کوئی بھی مدعا منظرعام پر نہیں ہے۔ ملک کے اندر یا کسی اور جگہ جب بھی ایسا کوئی متعلقہ مسئلہ یا واقعہ رونما ہوتا ہے، جماعت اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتی ہے اور اسے نمایاں عوامی حمایت بھی حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح کے واقعات کا اثر عام طور پر کچھ مہینوں تک رہتا ہے، جب تک کہ کوئی اور مدعا سامنے نہ آجائے۔
دوسرا سبب موجودہ سیاسی اور معاشی بحرانوں کے ساتھ جڑا ہے جس نے شاید عوام کی توجہ کچھ وقت کے لیے مذہبی نظریاتی جذباتیت سے ہٹا دی ہے۔ اِس وقت سیاسی نقارخانہ بلند آواز سے گونج رہا ہے، عمران خان ’سازشی خط‘، ’امپورٹڈ حکومت نامنظور‘، اور ’نیوٹرلز‘ جیسی دھنوں پر ٹھیک ٹھاک ڈھول پیٹ رہے ہیں جو عوام کو یا تو دم بخود کیے ہوئے ہے یا ہم آواز بنائے ہوئے ہے۔ ان کے سیاسی حریفوں کے لیے شاید ایک ہی آپشن رہ گیا ہے کہ وہ بھی اپنی بیان بازی اور نعروں کی گونج کو بڑھا دیں۔ جہاں مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں ایک آزمودہ کار اتحاد عمران خان کو شکست نہیں دے سکا، تو وہاں ٹی ایل پی ایک نوجوان رہنما کی سربراہی میں ایسا کیسے کر سکتی ہے؟
تیسرا عنصر، مہنگائی اور قیمتوں میں اضافے کا ہے جس نے لوگوں کی زندگی مشکل بنادی ہے اور وہ اس وقت ریلیف چاہتے ہیں جس کی فراہمی میں موجودہ حکومت ناکام رہی ہے۔ چونکہ مذہبی سیاسی جماعتوں کے پاس لوگوں کو ریلیف دینے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، اس لیے معاشی بحران کے وقت ان کا نظریاتی نعرہ اپنی کشش کافی حد تک کھو دیتا ہے۔
تاہم، ایک اور عنصر جس نے مذہبی جماعتوں کی طرف لوگوں کے جھکاؤ کو مزید کمزور کر دیا ہے، وہ تحریک انصاف کے سربراہ کی طرف سے مذہبی بیانیے کا برمحل اور اپنے مفاد میں عملی استحصال ہے، جنہوں نے ان انتخابات کو ’جہاد‘ قرار دیا تھا۔ عمران خان کافی مؤثر طریقے سے اپنے سیاسی بیانیے کے ساتھ مذہب کا تڑکا لگا رہے ہیں، حتی کہ جے یو آئی (ف) جیسی مذہبی جماعتیں بھی ان کے بیانیے کا توڑ کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ وہ انتہائی دائیں بازو اور معتدل دائیں بازو کے خطوط پر کھیل رہے ہیں، جس کی وجہ سے اس کے سیاسی مخالفین بشمول تحریک لبیک کے لیے، سیاسی کھیل بہت زیادہ کٹھن بنا ہوا ہے۔
ایک اور عنصر جس نے مذہبی جماعتوں کی طرف لوگوں کے جھکاؤ کو مزید کمزور کر دیا ہے، وہ تحریک انصاف کے سربراہ کی طرف سے مذہبی بیانیے کا اپنے مفاد میں عملی استحصال ہے
ٹی ایل نے 2018ء کے انتخابات میں جس کامیابی اور اٹھان کا مظاہرہ کیا، اس سطح پر دوبارہ پہنچنے کے لیے اسے اپنی انتخابی حکمت عملی پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہوگی۔ لیکن اس میں سب سے اہم عنصر، توہین مذہب سے متعلقہ واقعات اور مسائل کا ابھرنا، اس کے کنٹرول میں نہیں ہوگا۔ اگرچہ پارٹی نے عوام کے اندر اپنی حمایت کا ایک میدان تو تیار کیا ہے، لیکن عام انتخابات کی حرکیات مختلف ہوتی ہیں۔ اگر ٹی ایل پی کسی بھی بڑی سیاسی جماعت، جیسے مسلم لیگ (ن) یا تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کرتی ہے تو اسے پارلیمنٹ میں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ابھی تک نہ تو ٹی ایل پی اور نہ ہی کوئی بڑی سیاسی جماعت انتخابی اتحاد پر آمادہ ہیں، لیکن اس کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ 2018ء کے الیکشن میں پنجاب میں قومی اسمبلی کے 17 حلقے ایسے تھے جہاں ٹی ایل پی کے پاس جیتنے اور ہارنے والے امیدواروں کے ووٹوں میں فرق کے مارجن سے زیادہ ووٹ تھے۔ تحریک انصاف نے دعویٰ کیا تھا کہ ٹی ایل پی نے ان کے ووٹ کو نقصان پہنچایا ہے، کیونکہ دونوں جماعتیں مسلم لیگ (ن) مخالفت کی اساس پر الیکشن لڑ رہی تھیں۔
البتہ بڑی سیاسی جماعتوں کے لیے ٹی ایل پی کے ووٹوں کو نقصان پہنچانا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ بہر حال، اگر کوئی سیاسی جماعت ٹی ایل پی کے ساتھ اتحاد کرتی ہے تو ایک پرتشدد انتہا پسند گروہ جسے پہلے کالعدم بھی قرار دیا گیا تھا، اس کے ساتھ اتحاد کرنے پر اس جماعت کو تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اکتوبر 2021ء میں فرانس کے سفیر کو ملک سے نکالنے کے لیے ٹی ایل پی کے پرتشدد مظاہروں کے ساتھ حکومت کو مجبور کیا گیا تھا کہ وہ دہشت گرد تنظیم کے طور پر اسے کالعدم قرار دینے کے حکمنامے کو واپس لے اور جماعت کے کارکنوں اور اس کی قیادت کے خلاف فوجداری مقدمات کو واپس لیا جائے۔
’قومی انسدادِ دہشت گردی اتھارٹی‘ کی طرف سے پاکستان میں انسدادِ پرتشدد انتہا پسندی کے لائحہ عمل پر مبنی ایک حالیہ جائزہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ ملک میں انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحانات کا مقابلہ کرنے کے لیے نئے قومی بیانیوں کو پروان چڑھایا جائے۔ لیکن نئے بیانیوں کی تشکیل اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتی جب تک کہ سیاسی جماعتیں اور دیگر طاقتور حلقے ان انتہاپسند عناصر کو سیاسی عمل میں الگ تھلگ کرنے کا فیصلہ نہ کریں۔ بدقسمتی سے، مقتدر اشرافیہ قلیل مدتی فوائد کو ترجیح دیتی اور انتہا پسند گروہوں کو پنپنے کی اجازت دیتی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ نیکٹا کی رپورٹ نے وضاحتی نوٹ کے ساتھ پرتشدد انتہا پسند گروہوں کی فہرست میں ٹی ایل پی کے نام کا تذکرہ بھی کیا ہے: ’’یہ ایک نئی تنظیم ہے اور اسے اس فہرست میں صرف اس تحقیقی خاکے کے مصنفین نے شامل کیا ہے۔‘‘
یہ تصریحی نوٹ پالیسی سازی کی سطح پر کنفیوژن کی عکاسی کرتا ہے۔ اکتوبر 2021ء کے پرتشدد مظاہرے میں ٹی ایل پی نے 9 پولیس افسران کو شہید کردیا تھا، لیکن ایک سرکردہ پالیسی ادارہ اس کا نام لینے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس تردد کا ایک ہی جواز ہے: نیکٹا کے اہلکار بھی جانتے ہیں کہ اگر کوئی سیاسی ضرورت پیش آتی ہے تو مقتدر اشرافیہ انتہا پسند گروہوں کے بارے میں اپنا نقطہ نظر تبدیل کر سکتی ہے۔
سیاسی جوڑتوڑ کی خواہش اور اس میں مطلوبہ توازن باقی رکھنے یا بنیادی اقتصادی و سیاسی مسائل سے توجہ ہٹانے کے اقدامات، ٹی ایل پی جیسے گروہوں کے لیے جگہ اور مواقع فراہم کرتے رہیں گے۔
بشکریہ: روزنامہ ڈان، مترجم: شفیق منصور
فیس بک پر تبصرے