ایمن الظواہری کی موت سے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

428

گزشتہ شب کابل کے اندر ایک امریکی ڈرون حملے میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کو قتل کردیا گیا ہے، جس کا اعلان باقاعدہ امریکی صدر جوبایڈن نے کیا۔ ظواہری کو نائن الیون حملے کی منصوبہ بندی کا حصہ شمار کیا جاتا تھا۔ انہوں نے 2011ء کے بعد اسامہ بن لادن کی موت کے بعد جماعت کی قیادت سنبھالی تھی۔

ایمن الظواہری 1951ء میں مصر میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے ہی سید قطب کی تحریروں سے متأثر تھے اور مختلف مذہبی تنظیمی سرگرمیوں کا حصہ رہے۔ وہ پہلی مرتبہ اخوان المسلمین سے ربط کی وجہ سے 15 سال کی عمر میں جیل گئے۔ مصر کی جماعت الجہاد اور الجہادالاسلامی سے وابستہ رہے۔ آخر میں انہوں نے القاعدہ کو اپنا آخری ٹھکانہ بنایا اور اسامہ بن لادن کے دائیں ہاتھ کے طور پہ جانے جاتے رہے۔

نائن الیون کے علاوہ کئی ممالک کے اندر حملوں کی منصوبہ بندی میں ان کا نام سرفہرست رہا۔ افغانستان میں امریکی حملے کے بعد مبینہ طور پہ ظواہری کچھ وقت کے لیے پاکستان کے قبائل علاقوں میں رہے اور مہمند قبیلے میں ایک شادی بھی کی۔ اس عرصے میں انہیں مقامی عسکریت پسند مذہبی تنظیموں کے ساتھ قریبی تعلقات بنانے کا موقع ملا۔ 2007ء میں لال مسجد آپریشن کے بعد اندر سے ایمن الظواہری کے کئی خطوط ملے جن سے پتہ چلا کہ وہ عسکریت پسندوں کو ہدایات دیتے رہے۔ یہ شاید پہلا موقع تھا جب اس بات کی تصدیق ہوئی کہ ظواہری پاکستانی ریاست کے خلاف عسکری اقدامات کی پشت پناہی کر رہے ہیں، اور ریاستِ پاکستان کے خلاف شدت پسندوں کی رہنمائی کر رہے ہیں۔

ایمن الظواہری کے قتل کے بعد طالبان نے سخت ردعمل دیا ہے اور اس سے امریکا طالبان تعلقات کے مابین تناؤ بڑھے گا جس کے دوحہ معاہدے پر بھی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ معاہدے کے مطابق امریکا نے کہا تھا کہ جب تک کوئی واشگاف خطرہ نہ ہو وہ افغانستان میں کوئی کاروائی نہیں کرے گا۔

اگرچہ اسامہ بن لادن کے بعد القاعدہ کی مرکزی حیثیت کمزور ہوچکی تھی اور یمن، صومالیہ، شام اور شمالی افریقا میں اس کی کئی ذیلی شاخیں وجود میں آچکی تھی جو اپنے طور پہ کام کرتی ہیں، اور ظواہری کی شخصیت اسامہ بن لادن کی طرح پرکشش و کرشماتی بھی نہیں تھی، لیکن ان کے پاس تنظیمی سرگرمیوں کا ایک عریق و طویل تجربہ تھا، اس لحاظ سے ان کی موت جماعت کے لیے ایک خسارہ ضرور ہے، اور بالخصوص اس لیے بھی کہ ان کے بعد القاعدہ میں بظاہر فی الوقت ایسی شخصیت نہیں ہے جس پر سب کا اتفاق ہو۔

ظواہری کے بعد القاعدہ کے مستقبل کا انحصار کئی عوامل پر ہے جن میں ایک اہم عامل ان کے بعد ایسی کسی قیادت کا اانتخاب ہے جس پر اتفاق ہو، اور بظاہر فی الوقت ایسی شخصیت موجود نہیں ہے۔ سیف العدل کا نام متوقع نئے امیر کے طور پہ لیا جاتا ہے تاہم ان کے حوالے سے جماعت کے اندر مکمل اتفاق و اعتماد نہیں پایا جاتا جس کا اندازہ خود ان کے خطوط پر مشتمل کتاب ’عابرسبیل‘ سے بھی ہوتا ہے۔ ان سے متعلق جماعت کے بعض ارکان کا خیال ہے وہ القاعدہ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئے ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...