شارٹ کٹ بمقابلہ شارٹ سرکٹ اسلام

1,059

آج کل شارٹ کٹ اسلام اور شارٹ سر کٹ اسلام میں سخت مقابلہ چل رہا ہے۔ شارٹ سرکٹ اسلام دراصل شارٹ کٹ اسلام کا شارٹ کٹ ہے۔ جو آئینی جدو جہد کو لا یعنی قرار دیتا ہے۔

ہم  روزانہ دعا تو  سیدھی  راہ یا صراط مستقیم پر چلنے کی مانگتے ہیں لیکن  تلاش شارٹ کٹ کی رہتی ہے۔  فارسی میں کہتے ہیں   کہ راہ راست برو گرچہ دور است ۔ سیدھے رستے پر چلتے رہو چاہے وہ دور ہی ہو۔ اس کشمکش کی وجہ سے ایک بے اطمینانی سی رہتی ہے کہ  شارٹ کٹ صراط مستقیم کی مخالف سمت کا نام تو نہیں۔ سائنس کہتی ہے کہ خط مستقیم سب سے چھوٹا ہوتا ہے۔ اور باقی خط ٹیڑھے  اور راستے لمبے ہوتے ہیں۔   اس لحاظ سے شارٹ کٹ ہی صراط مستقیم بنتا ہے۔  عربی زبان میں جو خط مستقیم نہ ہو منحنی کہلاتا ہے۔ منحنی ٹیڑھے پن اور گم راہی کی علامت ہے۔ اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ شارٹ کٹ اور صراط مستقیم  مترادف ہیں۔  ویسے بھی عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب کا معاملہ ہے۔  ہم جلد از جلد اسلام کی گاڑی پکڑنا چاہتے ہیں۔   مگر پریشانی یہ ہے کہ  اس بھاگ دوڑ میں کبھی گاڑی چھوٹ جاتی ہے کبھی اسلام۔  اس کی وضاحت کے لئے ہم ایک حکایت بیان کرتے ہیں۔

ایک مرتبہ ایک مولانا اپنے خدام  کے ساتھ  ریل گاڑی میں سفر کر رہے تھے۔  ایک خادم کا نام  اسلام تھا۔  مولانا  اسلام سے بہت محبت کرتے تھے۔ اسلام بھی بھی جی جان سے مولانا کی خدمت کرتا تھا۔ ہوا یوں  کہ سفر کے دوران  اسلام مولانا کے لئے پان لینے ایک اسٹیشن پر اترا۔ اتنے میں گاڑی چل پڑی۔ مولانا نے کھڑکی سے سر نکال کر اسلام کو آواز دی۔  اسلام کی آواز پر سب مسافروں نے  زندہ باد کہا۔ گاڑی کی رفتار تیز ہورہی تھی۔ اسلام گاڑی پکڑنے کے لئے بھاگ رہا تھا ۔ مولانا پریشان تھے کہ اسلام کی گاڑی نہ چھوٹ جائے۔ جوں جوں گاڑی کی رفتار تیز ہوتی مولانا زور سے اسلام کو آواز دیتے۔ اورگاڑی کے ہر ڈبے سے اتنی ہی  بلند آواز سے زندہ باد  میں جواب آتا۔  اس شور شرابے میں اسلام وہیں رہ گیا اور گاڑی آگے نکل گئی۔ اہل عرفان کہتے ہیں کہ  عشق و عقیدت کی دنیا میں نعرہ  ایسا شارٹ کٹ  ہے  جس کی فریب پرور سرشاری میں محبوب نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔

ہمارے خیال میں قصور عوام کا نہیں۔ نعرے عوام الناس میں  مذہبی بے تابی  اوراسلام سے بے انتہا عقیدت کا  بین ثبوت ہیں۔ نعرہ سن کر عوام بے تاب ہو جاتے ہیں۔  ہمارے سیاسی، مذہبی اور کاروباری لوگ  ہمارے جان و مال کی خیر چاہتے ہوے ہم سے بھی  زیادہ بے تابی سے اسلام کے نفاذ کے مختصر ترین پروگرام لے کر میدان میں اتر آتے ہیں۔   وہ جو نسخے تجویز کرتے ہیں انہیں عام زبان میں شارٹ کٹ اسلام کہا جاتا ہے۔

تجزیہ کار بتاتے ہیں کہ شارٹ کٹ اسلام  نہ صرف ایک فرقے کی شکل اختیار کر چکا ہےکیونکہ اس میں  ہینگ لگے نہ پھٹکڑی پر رنگ چوکھا آتا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق اب تک شارٹ کٹ اسلام میں ستر  سے زیادہ فرقے پیدا ہو چکے ہیں ۔ ان ستر فرقوں کی تفصیل معلوم نہیں۔ جو معلومات دستیاب ہیں ان کا شارٹ کٹ خلاصہ درج ذیل ہے۔ اس خلاصہ کو شیر کرتے وقت تجزیہ کاروں کا حوالہ درکار نہیں۔

ان میں  سب سے سر کردہ فرقہ  الاسلام کہلاتا ہے۔  پیروکاروں کا عقیدہ ہے کہ ال کے بغیر اسلام عربی نہیں رہا۔ الاسلام  ہی صحیح اسلام ہے ۔ اس فرقے کا ایمان ہےکہ اللہ سے بات چیت کے لئے عربی ضروری  ہے کیونکہ وہ  صرف عربی زبان جانتا ہے۔  تاہم مسلمانوں کی اکثریت اب غیر عرب ہے اس لئے اس فرقے کے علما نے بہت سی کتا بیں  تیار کی ہیں جن میں ہر موقع اور  ہرحاجت کے لئے عربی میں دعائیں درج ہیں۔  ان کتابوں کی مدد سے آپ ہر قسم کی بیماریوں، آفات اور بلیات سے بچنے کے لئے  جلد قبول ہونے والی عربی دعائیں مانگ سکتے ہیں۔ رزق میں برکت، اچھی نوکری،  مالدار رشتے، خاوند کو قابو میں رکھنے، بیوی کو فرمانبردار بنانے ، الغرض ہر ضرورت کے لئے آپ اللہ سے  براہ راست عربی میں  درخواست کر سکتے ہیں۔ جو لوگ عربی  بالکل نہیں جانتے ان کے لئے ان دعاؤں کی آڈیو کیسیٹ اور ڈیوائس دستیاب ہے۔ جس میں مطلوبہ دعا پر کلک کرنے سے  اللہ میاں کو مستند عربی لہجے میں دعا کی تلاوت سنائی جا سکتی ہے۔ حسب ضرورت آواز کو بلند یا کم کرنے کی سہولت بھی موجود ہے۔ موبائل استعمال کرنے والے اس کو ڈاؤن لوڈ بھی کرسکتے ہیں۔ جو حضرات اس تردد میں نہیں پڑنا چاہتے وہ ٹیلیفون کر کے دعا کی درخواست کر سکتے ہیں۔  اس خدمت کے چارجز نہیں ہیں۔البتہ آپ حسب توفیق چندہ دے سکتے ہیں۔ واجب الادا جی ایس ٹیکس اس کے علاوہ ہوگا۔

پاکستان میں ایک بہت بڑا چیلنج  یہ ہے کہ عربی دینی اصطلاحات   کا رواج نہیں رہا۔  صلوٰة کو نماز اورصوم کو روزہ  کہا جاتا ہے۔  ان  غیر عربی ناموں کی وجہ سے ان عبادات سے اسلام کی عربی روح نکل چکی ہے۔  یہی صورت حال اسلامی عقائد کی  بھی ہے۔ غیر عربی اصطلاحات کے رواج سے عقیدے کمزور ہو گئے ہیں۔ یہ فرقہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ  روزہ، نماز کو صوم اور صلوٰة کہ کر ادا کرنے سے ہی پورا ثواب ملتا ہے ۔  صوم اور صلاة کی نیت اور افطار کی دعا  بھی عربی زبان میں ضروری ہے۔ اس کے لئے بھی موبائل پر ایک خصوصی سروس موجود ہے۔  اللہ اوراس کےرسولوں اورملائکہ  پر ایمان  کے لئے پیغمبر اور فرشتہ کے لفظ  صحیح اسلام  کی عکاسی  نہیں  کرتے، ان کی بجائے  عربی رسول اور  عربی َملک کو رواج دینا چاہئے۔ البتہ فرشتہ کی بجائے ٓملک کہنے پر فی الحال  زور نہیں دیا جاسکتا کیونکہ پاکستان کے بہت سارے ٓملک بیٹھے بٹھائے فرشتے بن جائیں گے۔ اسی طرح عربی میں سادات کے لئے شریف کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ پاکستان میں بہت سے شہروں اور گاؤں بلکہ بہت سی کتابوں کو شریف کہا جاتا ہے۔ حتی کہ بہت سے لوگوں کے نام بھی شریف ہیں۔ ان سب کو سادات میں شمار کرنے سے نہ صرف نادرا پر بوجھ بڑھ جائے گا بلکہ ایسی نام کی تبدیلیاں  بہت سی غلط فہمیوں اور جھگڑوں کو جنم دیں گی۔ اس لئے  فی الحال صرف ایک شارٹ کٹ پلان پر زور دیا جارہا ہے   کہ خدا حافظ کی بجائے اللہ حافظ  کو رواج دیا جائے  ۔ مستقبل قریب میں ایک میگا پرا جیکٹ  زیر غور ہے کہ   ملک میں تما م کتابوں پر نظر ثانی کرکے خدا کی جگہ اللہ درج کیا جائے۔  اس منصوبہ کا آغازقرآن مجید کے اردو  ترجموں اورتفاسیرسے کیا جائے گا۔ مخیر حضرات سے اس کار خیر میں دل کھول کر حصہ لینے کی اپیل کی جارہی ہے۔ ابھی اس منصوبے کو پبلک نہیں کیا جارہا کہ معاندین یہ پروپیگنڈہ نہ شروع کردیں کہ خدا کو اسلام سے نکالا جارہا ہے۔

ان میں ایک  اہم گروہ ال۔ فرقہ   ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اردو  اور فارسی کے کسی بھی لفظ کے ساتھ ال لگا دینے سے وہ لفظ عربی اور اسلامی بن  جاتا ہے۔ مثلاً جوتوں کی دکان الپاپوش کا اور  مچھلی کے کباب  کی دکان دار الماھی کا  سائن بورڈ لگانے سے عربی اوراسلامی ہو جاتی ہے۔  یاد رہے کہ جوتے کو فارسی  میں پاپوش اور مچھلی کو ماہی کہتے ہیں۔ اسی طرح ایک عام  رستوراں ال تکہ و الکباب  کا بورڈ لگنے سے اسلامی رنگ میں ڈھل جاتا ہے۔ اس فرقے کا کہنا ہے کہ ال  کے شارٹ کٹ سے عربی زبان کو رواج دینا بہت آسان ہوتا جارہا ہے۔ حبیب اگرچہ عربی ہے لیکن الحبیب کہنے  سے  اس میں اسلامی روح بیدار ہو جاتی ہے۔ جہاں معاملہ زیادہ کٹھن ہو اور ال سے کام نہ نکلے وہاں اس کے ساتھ عربی الفاظ مثلاً  البرکہ یا براہ راست اسلامی کے لفظ کا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً  اسلامی ہسپتال، اسلامی بنک یا اسلامی دواخانہ ، محمدی ریسٹورانٹ، مدینہ کیش۔  اس سے کاروبار میں بھی برکت ہوتی ہے اور ایمان بھی مضبوط رہتا ہے۔ عربی زبان کے لئے شارٹ کٹ  کی ضرورت اس لئے پیش آتی ہے کہ عربی زبان سیکھنے کے لئے مدرسے میں سات آٹھ سال  تو اس کی گرامر سیکھنے  اور گردانیں رٹنے میں لگ جاتے ہیں۔ حال میں ایک اور دقّت یہ پیدا ہوگئی ہے کہ ان  گردانوں میں ضرب یضرب یعنی مارنے پیٹنے کا ذکر بہت زیادہ ہے۔ اپنی عربی دانی کے  ثبوت کے لئے اگر کسی انٹرویو میں یہ گردانیں سنائیں تو دہشت گردی میں دھر لئے جانے کا خطرہ ہے۔  لگتا ہے کہ مار پیٹ عربی زبان کا پسندید موضوع ہے ۔ کبھی زید عمر کو مارتا ہے کبھی بکر عمر سے مار کھاتا ہے۔ آپ اس  مارپیٹ کو  صرف یاد کر سکتے ہیں ، روک نہیں سکتے ۔ نظریاتی کونسل نے بھی ہلکی پھلکی مار پیٹ کی اجازت دے رکھی ہے۔

شارٹ کٹ اسلام میں ایک فرقہ عملیات کے ماہرین کا ہےجو محبوب کو زیر کرنے، خاوند کو قابو میں لانے ، طلاق کو آسان،  اور اولاد نرینہ  کو یقینی بنانے کے  لئے عربی اور اسلامی شارٹ کٹ نسخے لے کر اترے ہیں۔ کچھ شہد، کھجور، کلونجی وغیرہ کو کینسر ، ہیپاٹائٹس اور اسی قسم کے ہر موذی امراض کا اپریشن کے بغیر  کامیاب اسلامی علاج بتاتے ہیں جو ہسپتالوں کے طویل علاج معالجے کا مجرب اور  شارٹ کٹ متبادل ہے۔

شارٹ کٹ اسلام  میں دانشور فرقے  بھی ہیں جو ہماری سیاسی، معاشی اور تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے فوری نافذالعمل اسلامی  نظام پیش کرتے ہیں۔ جن میں تیس منٹ سے کم عرصے میں  مکمل اسلام  سامنے آجاتا ہے۔اس کے لئے  نہ عربی زبان میں لکھی ضخیم کتابیں کھنگالنے کی ضرورت ہے اور نہ کسی درسگاہ میں عمر بسر کرنے کی۔  شارٹ کٹ اسلامی نظام کی بنیاد اس اصول پر ہے کہ  تمام قسم کے مغربی نظام  طاغوتی اور غیر اسلامی ہیں۔ اس لئے آپ  مغربی طاغوتی نظام کی محض مخالفت سے بھی اسلامی نظام قائم کرسکتے ہیں۔

آج کل  شارٹ کٹ اسلام  اور شارٹ سر کٹ اسلام میں سخت مقابلہ چل رہا ہے۔ شارٹ سرکٹ اسلام دراصل شارٹ کٹ اسلام  کا شارٹ کٹ ہے۔ جو آئینی جدو جہد کو لا یعنی قرار دیتا ہے۔ یہ فرقہ اسلام  اور نفاذ شریعت پر یقین رکھتا ہے لیکن اس کے لئےکسی جمہوریت وغیرہ کا انتظار نہیں کرتا۔  نہ دشمن کا انتظار کرتا ہے، نہ اس کے حملے کا۔ جہاد کے لئے دشمن کو حملے کا موقع دینا بے عقلی ہے۔ جہاد دفاع کے لئے نہیں دشمن پر غلبہ پانے کے لئے ہے تو دشمن پرغلبے کے لئے  اسے گھر سے نکلنے سے پہلے مغلوب کرنا ضروری ہے۔ اب دشمن کی تلاش کے لئے اس کا گھر نہیں ڈھونڈنا پڑتا۔ اپنے ہی گھر میں لوگوں کو دشمن قرار دے کر ان کا صفایا کیا جاتا ہے۔ اپنے گھر کو کمزور کرنے سے ایک طرف تو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ اب دشمن  کو ہمارے گھر پر حملے میں دلچسپی نہیں رہے گی۔ دوسری جانب ہمارے بارے میں دشمن کا ذہن ماؤف ہو جائے گا۔ وہ یہ فیصلہ نہیں کر پائے گا کہ ہم اس کے دشمن ہیں یا دوست۔

آج کل  شارٹ کٹ اسلام  اور شارٹ سر کٹ اسلام میں سخت مقابلہ چل رہا ہے۔  تفتیش جاری ہے ۔ حکومت احتیاطاً وقت بے وقت اعلان کرتی رہتی ہے کہ جب تک مجرم پکڑے نہ جائیں کسی کو چین سے  بیٹھنے نہیں دیا جائےگا۔ اب دیکھیں بات کہاں  تک پہنچتی ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...