وہ چھ وجوہات جو جنگ میں رکاوٹ ہیں

884

انڈیا حملے کی تیاریوں میں ہے ، پاکستان نے بھی دفاعی اقدامات اٹھانے شروع کر دیئے ہیں، ا س جنگ کے امکانات کتنے ہیں ؟

ایڈیٹر نوٹ :اڑی حملے کے بعد دونوں ممالک میں درجہ حرارت بڑھ چکا ہے ، کہا جا رہا ہے کہ انڈیا حملے کی تیاریوں میں ہے ، پاکستان نے بھی دفاعی اقدامات اٹھانے شروع کر دیئے ہیں ، درحقیقت ا س جنگ کے امکانات  کتنے ہیں ؟ ا س سوال کا جواب  ممتاز بھارتی صحافی شیوام وجے نے دیا ہے جو کہ ایک آن لائن اخبار ہفنگٹن پوسٹ کے انڈین ایڈیشن کے شریک مدیر ہیں ۔ ہم ان کی رائے کو لفظ بہ لفظ قارئین ِ تجزیات کی نذر کر رہے ہیں تاکہ یہ اندازہ کیا جائے کہ دوسری جانب کا مؤقف کیا ہے )

شیوام وجے

مودی حکومت  پر آہستہ ہی سہی یہ تلخ حقیقت آشکار ہو چکی ہے کہ اس کے پاس  پاکستان کے مسئلہ پر کرنے کو کچھ نہیں ہے ۔عوام نے اڑی حملے پر فوجی رد عمل دینے کا مطالبہ کیا ہے ۔بھارتی فوج پر سرحدی علاقوں میں حملے 1990 سے جاری ہیں ۔حال ہی میں اس سال پٹھان کوٹ اور  گزشتہ سال گرداس پور پر حملے بھی ہو چکے ہیں ۔سمجھا جاتا ہے کہ پاکستان کے خلاف” سرجیکل سٹرائیکس ” یا ” ہاٹ پرسیوٹ “ممکن نہیں ہیں ۔کیونکہ اگر آپ کا خیال ہے کہ اس سے دہشت گردی رک جائے گی تو شاید وقتی طور پر ایسا ہو بھی لیکن یہ بات نہ بھولیں کہ اس کے خطرناک نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں ۔

1۔ جنگ کا خطرہ :

انڈیا محدود جنگ کرنا چاہتا ہے مگر اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ پاکستان اسے وسعت نہیں دے گا ۔دو ایٹمی ہمسائیوں  میں سے اگر ایک یہ کہہ بھی دے کہ ایٹمی ہتھیار استعمال نہیں ہو ں گے تو بھی جنگ کا  خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا ۔

2۔زیادہ دہشت گردی :

ایک کامیاب فوجی حملے سے دہشت گردی کا امکان بڑھ جائے گا ۔انڈیا نے 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام میں مدد کی تھی جس کے جواب میں پاکستان نے پنجاب اور کشمیر میں  دہشت گردی کی حکمت عملی اختیار کر لی ۔یہ کہنا  کہ پاکستان کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر کے یا اس کو نقصان پہنچا کے پاکستان کو دہشت گردی ترک کرنے پر مجبور کر دیا جائے گا درست نہیں ہے ۔

3۔کامیابی کی بجائے نقصان کا اندیشہ :

کسی بھی فوجی تنازعہ کی کامیابی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی ۔ اگر یہ حملہ ناکام ہو گیا تو یہ شاید انڈیا کو مزید کمزور کر دے اور اس کے حالات خراب ہو جائیں۔ممبئی حملوں کے بعد بھی منموہن سنگھ پاکستان کے خلاف فضائی حملے کرنا چاہتے تھے مگر اس وقت کے ائیر چیف نے یہ کہا تھا کہ انڈیا کے پاس پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا صحیح ڈیجیٹل ڈیٹا نہیں ہے اور آرمی چیف نے بھی کہا تھا کہ فوج سرجیکل سٹرائیکس کے لئے تیار نہیں ہے ۔فوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا کو سرحد پار آپریشنز  کی صلاحیت حاصل کرنے میں مزید کئی سال لگیں گے ۔سیاسی طور پر بھی اگر یہ حملے ناکام ثابت ہوئے تو اس کا نقصان مودی حکومت کو بہت زیادہ ہو گا اس لئے  وہ نقصان برداشت کرنے میں ہی عافیت ہے جو حملے نہ کر کے ہونا ہے ۔

4۔پاکستانی اشرافیہ یہی چاہتی ہے :

کارگل جنگ بھی مشرف کا “مس ایڈونچر” نہیں تھی بلکہ وہ ا س کے ذریعے کشمیر پر عالمی توجہ مبذول کرانے میں  کامیاب ہوگئے تھے ۔جن لوگوں نے اڑی میں حملہ آور بھیجے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں انڈیا جنگ  چھیڑ سکتا ہے ۔وہ خوش ہو ں گے اگر ایسا ہوا ۔کیونکہ اس سے کشمیر ایک بار پھر توجہ حاصل کر لے گا ۔23 اگست کو جماعت الدعوۃ  کے ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ سے  کہا گیا تھا کہ “پاکستانی  فوج یہ چاہتی ہے کہ ” مودی  اگلے دنوں میں کشمیر میں پھنس جائے  بجائے اس کے کہ وہ بلوچستان ، سندھ ، گلگت بلتستان ، آزاد کشمیر یا کراچی کی طرف دھیان دے “۔

5۔ عالمی دباؤ:

اڑی حملوں پر امریکہ اور برطانیہ نے پاکستان اور انڈیا کو کہا ہے کہ وہ مزاکرات کا راستہ اختیار کریں ۔لیکن اگر انڈیا فوجی ایکشن  چاہتا ہے تو دنیا ایٹمی جنگ کے خطرے کو بھانپتے ہوئے  انڈیا پر دباؤ بڑھائے گی کہ وہ ایسا ہر گز نہ کرے ۔سرحدوں کے پار کوئی بھی کارروائی چاہے آپ اسے جنگ کہیں یا نہ کہیں ا س کو عالمی برادری کی حمایت درکار ہوتی ہے اور اس کے بغیر انڈیا کو ایک بڑے عالمی  بحران کے لئے تیار رہنا ہو گا ۔پاکستان کو موقع مل جائے گا کہ وہ کہے انڈیا جارح ہے ۔انڈیا خود کو کسی صورت غیر ذمہ دار ریاست کہلوانا پسند نہیں کرے گا اور نہ ہی یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم مودی اور بھارت  جانتے بوجھتے ہوئے ایسی کوئی کوشش بھی کریں گے ۔

6۔یہ معیشت کے  لئے تباہ کن ہو گا :

جنگ ہمیشہ دونوں ملکوں کی  معیشت کے لئے بری چیز ہے مگر انڈیا کے لئے زیادہ  نقصان دہ ہے ۔ انڈیا کی معیشت پاکستان سے بہت بہتر ہے اس لئے ا س کا نقصان بھی انڈیا کے لئے زیادہ ہو گا ۔جنگ کے خطرے کے پیشہ نظر سرمایہ کاری رک جائے گی جس سے اشیاء کی قلت سے مہنگائی بڑھے گی ۔درحقیقت کئی سٹریٹجک حکمت عملیوں کی بنا ء پر  یہ کہا جا سکتا ہے کہ کامیابی ہی Anchor بہتر انتقام ہے ، انڈیا کی معاشی ترقی پاکستان کے لئے بہترین جواب ہے  جو اپنے آپ کو ایک دہشت گرد ریاست کے طور پر پیش کر رہا ہے ۔

(بشکریہ : ہفنگٹن پوسٹ ، ترجمہ ، سجاد اظہر )

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...