آج کیا پکائیں؟

1,079

’’آج کیا پکائیں‘‘ کا سوال انتظامی اور آئینی مسئلہ ہے۔ اس پر پاکستانی دانشوروں نے بہت غور و خوض کیا ہے۔ لیکن نظریاتی پہلووں سے۔

آج کیا پکائیں ہر گھر میں روز مرہ کا سوال ہے لیکن پاکستان کی روز افزوں معاشی اور سیاسی ترقی کی وجہ سے اسے ایسا مسئلہ سمجھا جانے لگا ہے جو دن بدن پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔ اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ آج کیا پکائیں کی بجائے آپ کیا کھائیں پر زیادہ بحث ہونے لگی ہے۔ ٹیلی ویڑن پر ماہرین نے کیا کھائیں، کب کھائیں، کیسے کھائیں اور کیوں کھائیں کے سوال اٹھا کر ’’آج کیا پکائیں‘‘ کو نظریہ ضرورت کا مسئلہ بنا ڈالا ہے۔ ماہرین کے تن و توش سے جہاں ان کی خوش خوراکی کا پتا چلتا ہے وہاں یہ یقین بھی پختہ ہوتا ہے کہ کیوں اور کیسے ان کا ذاتی مسئلہ ہے۔ان کی ذات سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔ ہمیں اعتراض ہے تو صرف اس بات پر کہ انہوں نے اسے عالمگیر ضرورت بتا کر سیدھی سادی دعوتوں کو عداوتوں میں بدل دیا ہے۔

اکثر دعوتیں شمشیر و سناں اوّل اور طا ؤس و رباب آخر کا سماں بن گئی ہیں۔ باقاعدہ طبل جنگ بجایا جاتا ہے اور پھرکھانے کی میز میدان کارزار میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ لوگ خود کش بمبار کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ہم نے خود کش اس لئے کہا کہ ماہرین کے نزدیک ان کھانوں کے نزدیک جانا موت کو دعوت دینا ہے۔ ماہرین پر ایمان کے باوجو اگر یہ لوگ بقائمی ہوش و حواس ہر اس پسندیدہ ڈِش کے در پے ہوں جسے ماہرین خوراک ہماری صحت کا دشمن بتاتے ہیں تو اسے خود کشی نہ کہیں تو اور کیا کہیں۔ لوگ عداوت کے تمام آداب بجا لاتے ہوے کبابوں ، تکوں اور باربی کیو کی تکا بوٹی کر تے ہیں۔ چھریوں اور کانٹوں کی جھنکار میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ چند ہی لمحوں میں میزوں کے اوپر اور نیچے ہڈیوں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔ چادروں پر شوربہ بہ رہا ہوتا ہے جس میں معصوم چاولوں کے لاشے تیر رہے ہوتے ہیں۔ کہیں زخمی روٹیوں کے ٹکڑے کراہتے دکھائی دیتے ہیں تو کہیں اس زلزلے کے بعد پراگندہ سلاد سکتے میں نظر آتی ہے۔

ہمارے خیال میں اس دعوتی دہشت گردی کی ذمہ داری ان ماہرین خوراک پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے ان روایتی کھانوں سے نفرت سکھائی ہے۔ ابصار عالم صاحب میڈیا میں اس جارحانہ منافرت کے فروغ کی طرف توجہ دیں تو یہ مسئلہ بخیر و خوبی حل ہو سکتا ہے۔

تاہم اصل مسئلہ یہ نہیں ہے۔

اصل میں ’’آج کیا پکائیں‘‘ کا سوال انتظامی اور آئینی مسئلہ ہے۔ اس پر پاکستانی دانشوروں نے بہت غور و خوض کیا ہے۔ لیکن نظریاتی پہلووں سے۔ انور مسعود صاحب نے اپنے مخصوص سبق آموز انداز میں بتایا ہے کہ یہ سوال طبقاتی معاشرتی سوچ کا آئینہ دار ہے۔ چودھری صاحب کا سوال ’’اج کی پکائیے ؟‘‘ کا مقصود بظاہر تفریح طبع لیکن بہ باطن زیر دستوں کی وفاداری کا امتحان ہے۔ بینگن ہو یا کریلا، بھنڈی ہو یا ٹنڈا زیر دست کا کام سوال کی سمت دیکھ کر سبزیوں کے حسن و قبح کے بیان کو فوری تبدیل کرنا ہے۔ ووٹ دینا نہیں۔ فیصلہ چوہدری کا ہی حق ہے اور منزل مراد چنے کی دال ہی ہے جو زیر دست کی دسترس سے بتدریج باہر ہوتی جارہی ہے۔

ظفر اقبال صاحب دال دلیا سے شوق فرماتے ہیں لیکن ان کی تحقیق بے کراں کے مطابق ’’آج کیا پکائیں” کے سوال میں انتہا پسندی کی نشاندہی جھلکتی ہے۔ انتہا پسند ہمیشہ کام سے بھاگتے ہیں۔ اس لئے ناممکن ہدف چنتے ہیں۔ ایسی ڈِش کی خواہش کرتے ہیں جس کا وجود نہ ہو۔ مثلاً کھیر جیسی سیدھی سادی ڈِش کی بجائے ٹیڑھی کھیر کی خواہش کرتے ہیں۔ اسی لاڈلے کی طرح جو کھیلنے کو چاند مانگے۔ نہ ٹیڑھی کھیر پکے گی نہ آج کیا پکائیں کے سوالوں کا سلسلہ ختم ہوگا۔

ان دانشوروں کی راہ پر چلتے ہوے اس سوال کو سرمایہ دارانہ پالیسی کی پیداوار بھی کہا جا سکتا ہے۔ فوڈ سے تعلق رکھنے والے کاروباری ادارے بھی اپنے مصالحے، چکن کی مصنوعات اور چاقو چھریاں بیچنے کے لئے جو میلہ لگاتے ہیں اس میں یہی سوال اٹھاتے ہیں۔ بہانہ علاقائی اور عالمی ثقافتوں سے تعارف کا ہوتا ہے۔ اینکر خواتین ڈِش کی مشہوری کے لئے چٹخاروں کا ایسا نقشہ کھینچتی ہیں کہ ناظرین کے منہ سے پانی رسنے لگتا ہے۔ قسم قسم کے کھانوں کے ذکر میں پورا خیال رکھا جاتا ہے کہ دسترخوان میں کمپنی کی ’شان‘، ’ذائقے”، اور اس “کے نور” کا ذکر بار بار ہو۔ یہ احتیاط بھی کی جاتی ہے کہ اوّل تو ہر جملے کو انگریزی الفاظ سے گارنش کیا جائے ورنہ کھانوں کے نام کسی غیر ملکی زبان میں لئے جائیں۔ کم از کم یہ اہتمام ضرور کیا جائے کہ مرغی کو چکن، بکرے کو مٹن، اور مچھلی کو فش کہا جائے۔ اس سے مرغی، بکرے اور مچھلی بھی خوش رہتے ہیں اور ناظرین کو بھی تسلی رہتی ہے کہ دیسی کھانے کا ذکر نہیں ہو رہا۔

ہمارے خیال میں آج کیا پکائیں نہ طبقاتی مسئلہ ہے نہ ثقافتی، یہ سراسر آئینی مسئلہ ہے۔ بنیادی سوال اس آئینی طریق کار کا ہے کہ آج کیا پکایا جائے کا فیصلہ کیسے کیا جائے۔ ہمارے ہاں چونکہ خواتین کی قیادت متنازعہ مسئلہ ہے اس لئے روایتاً یہ سوال خاتون خانہ ہی کرتی ہے لیکن جواب مردوں کے ذمے ہے۔ کبھی کبھار اس سوال کے جواب میں خاتون خانہ ایسی اشیا کے کھانے کا مشورہ دیتی ہیں کہ سائل کی بھوک ہی اڑ جاتی ہے۔۔ اس صورت حال کو بعض لوگ جھگڑا سمجھتے ہیں اور اکثر یہ غلط نتیجہ نکالتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت نہیں۔ یہ ایسی ہی بے تکی بات ہے جیسی جمہوریت کی برائی میں کہی جاتی ہے کہ دو سو گدھوں کے سر سے ایک انسان کا مغز برآمد نہیں ہو سکتا۔ یا جمہوریت میں بندوں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا۔ ہم اس بے کار گفتگو میں وقت ضائع نہیں کریں گے کیونکہ گدھے کے سر سے مغز برآمد ہو یا انسان کے سر سے یہ کھانے کے کام نہیں آتا۔ گننے اور تولنے والی دلیل بھی اتنی ہی واہیات ہے۔ مولانا فضل الرحمان کو دو ووٹ ڈالنے کا حق نہ جمہوریت میں ہے نہ آمریت میں۔ بلور صاحب کا اکیلا ووٹ جمہوریت کو آمریت میں اور آمریت کو جمہوریت میں بدل سکتا ہے۔ بندوں کو گنے جانے والی بات ویسے بھی بے معنی ہے۔ انسان خدا کی بندگی انسان بننیکے لئے اختیار کرتا ہے ووٹ ڈالنے کے لئے نہیں۔ بندگی کا نظام خدا کا ہے۔ خدا کی بندگی انسان کو انسان کی خدائی سے نجات دلاتی ہے۔ لیکن اگر انسان کی بندگی کے لئے ووٹ ڈالنا جمہوریت کہلاتا ہے تو گنا جائے یا تولا جائے بندہ تو بندہ ہی رہتا ہے۔

آج کیا پکائیں کا سوال پاکستانیون کی جمہوریت پسندی کی علامت ہے۔ یہ سوال اس بات کا گواہ ہے کہ پاکستانی کسی بھی کام کو معمولی نہیں سمجھتے حتی کہ کھانا پکانے کا روزمرہ کا مسئلہ بھی جمہوری طریقے سے با قاعدہ مذاکرات سے طے ہوتا ہے۔ بحث ہوتی ہے ، زور شور سے ہوتی ہے۔ اختلاف ہوتا ہے، ڈٹ کر ہوتا ہے۔ کبھی ایسا لگتا ہے کہ کچھ نہیں پکے گا۔ لیکن آخر میں کبھی بچوں کی ضد کام آتی ہے اور پیزا، برگر وغیرہ پر اتفاق ہو جاتا ہے۔ کسی کی رائے ویٹو نہیں ہوتی۔ کبھی بڑوں کی بات سنی جاتی ہے اور کبھی خاتون خانہ کو مکمل اختیار دے دیا جاتا ہے۔ کبھی سب کی پسندیدہ ڈِش بنتی ہے۔ کبھی بچوں کی۔ آج کیا پکائیں جمہوریت کی روز مرہ مشق ہے اور ہر گھر میں ہوتی ہے۔ کیونکہ گھرگھر ہوتا ہے ہاسٹلوں نہیں. گھراور ہاسٹل میں وہی فرق ہے جو جمہوریت اور آمریت میں ہے۔ آمریت ہفتے بھر کی لسٹ جاری کرتی ہے تاکہ اختلاف اور جھگڑے کی نوبت نہ آئے۔ جمہوریت مشورہ اوربحث کرتی ہے کہ لسٹ کی نوبت نہ آئے۔ لسٹ انسان کو بندہ بنا کے رکھتی ہے اورآج کیا پکائیں کی بحث بندے کو انسان بننے کا موقع دیتی ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...