’اخلاقیات کی ثقافت‘ اور اس کے بوجھ

ندیم فاروق پراچہ

828

حال ہی میں، سوشل میڈیا پر میری نظر سے دو ویڈیو کلپس گزرے۔ ایک پاکستان سے تھا جس میں کوئی شخص ایک عورت کو سرعام مار رہا تھا۔ آس پاس لگ بھگ درجن یا اس سے زیادہ لوگ جمع تھے۔ ان میں سے کوئی بھی مداخلت کرنے پر آمادہ نہیں ہوا۔

دوسری ویڈیو ایران کی تھی۔ کوئی شخص پرہجوم گلی میں ایک خاتون کو تھپڑ مارتا نظر آتا ہے۔ لیکن اس کے بعد جونہی وہ اپنی موٹر سائیکل پر جائے وقوعہ سے فرار ہونے کی کوشش کرتا ہے تو اسے ایک راہگیر پکڑ لیتا ہے اور زمین پر گرا دیتا ہے۔ چند ہی لمحوں میں کچھ اور آدمی آتے ہیں اور تھپڑ مارنے والے کو گھیر لیتے ہیں۔ یہ دیکھ کر خواتین کا ایک گروہ بھی دوڑتا ہوا اندر آیا اور سب اس کی پٹائی کرنے لگے۔

پہلی صورتحال میں جن مردوں نے مداخلت نہیں کی ان کے جذبات اپنے ملک کی مروجہ اخلاقیات کی ثقافت میں گندھے ہوئے تھے۔ جبکہ دوسری معاملے میں، وہ سب مرد اور عورتیں جنہوں نے خاتون کو تھپڑ مارنے والے شخص کو پکڑ کر مارا، ان کا یہ ردعمل ایک غالب اخلاقیات کی ثقافت کو چیلنج کرنے جیسا تھا۔

اخلاقیات کی ثقافت کی تشکیل میں اس ماحول کی سماجی، سیاسی اور معاشی قوتیں کارفرما ہوتی ہیں۔ یہ قوتیں مخصوص خیالات و جذبات کا ایک تانا بانا تیار کرتی ہیں، جو وقت کے ساتھ  اخلاقی ثقافت کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ لہذا اخلاقیات کی ثقافتیں دراصل ایک ایسا تانابانا تیار کرتی ہیں جس کا مقصد معاشرے کے لوگوں کو ایک خاص نہج میں سوچنے چلنے پر مجبور کرنا ہوتا ہے۔

تاہم کئی ماہرینِ سماجیات کا خیال ہے کہ اخلاقیات کی ثقافت کا جہان ایسے تصورات و بیانیوں سے بھرا ہوا ہوتا ہے جو کسی آئیڈیالوجی کی خدمت پر مامور ہوتے ہیں اور کسی مخصوص گروہ کے مفادات کو پورا کرتے ہیں۔

پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی ذلت آمیز شکست کے بعد شدید معاشی اور سیاسی بحران پیدا ہوا جس نے ایک ہیجان آمیز قوت کی شکل اختیار کرلی۔ اس قوت کے اثرات سے بعض خرافات اور سازشی نظریات سے بھرے مخصوص سماجی اور سیاسی تانے بانے تشکیل پانے لگے۔ نازیوں نے اس قوت کا استعمال ایک ایسی اخلاقی ثقافت کی تشکیل کے لیے کیا جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ انہیں اس کے ذریعے اقتدار میں آنے کے لیے مدد ملے گی۔ نازیوں نے لوگوں میں پہلے سے گردش کرنے والے سازشی نظریات کو مزید مضبوط کیا۔ ان سازشی نظریات میں میں یہ تصور بھی شامل تھا کہ جرمنی کو درپیش ساری مصیبتیں کمیونسٹوں، لبرل اور یہودیوں کی وجہ سے ہیں، جو جرمن نسل کو غلام بنانے کی سازش کر رہے تھے۔

نازیوں نے جس اخلاقی ثقافت کی تشکیل کی اس نے پرتشدد موج کی اٹھان اور اس میں جسمانی تکلیفات کو نارمل بنا دیا، ان تحریکوں سے لاکھوں جرمن شہریوں کے ذہن اور جذبات متاثر ہوئے۔ 1945ء میں نازی اقتدار کے خاتمے کے بعد، بہت سے جرمن فوجیوں نے اعتراف کیا کہ، ابتدا میں جب انہیں یہودی مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا، تو وہ ہچکچاتے تھے کیونکہ، اگرچہ یہ ان کا اعتقاد تھا کہ یہودی عناصر جرمنی کے خلاف سازش میں ملوث ہیں، اس کے باوجود انہیں عام یہودیوں کو مارنے میں تردد ہوتا۔

اخلاقی ثقافتیں معاشروں کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، تاہم انہیں وقت کے ساتھ مسلسل ارتقاپذیر رکھنا چاہیے

ضمیر کی اس وقتی ملامت پر بالآخر اس وقت قابو پا لیا گیا جب فوجیوں کے اندر پیدا کی گئی اخلاقی ثقافت نے انہیں اس بات پر قائل کیا کہ یہودیوں کی نسل کشی کا اس لیے ارتکاب کیا جا رہا ہے تاکہ جرمن نسلوں کو یہودی افواج کی سازشوں سے بچنے میں مدد ملے، اور یہ کہ فطری طور پہ ہر یہودی اس کا حصہ ہی ہے۔

اخلاقیات کی ثقافت کو پروپیگنڈے، ادب اور نصاب کے ذریعے تقویت پہنچائی جاتی ہے۔ اس کے بعد ‘نارمل’ اور ‘اخلاقی’ عمل وہی کہلاتے ہیں جو اس مخصوص اخلاقیات کی ثقافت کے مطابق ہوتے ہیں چاہے اس کا پیغام کسی  طبقے کی نسل کشی میں حصہ لینا ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ یہودیوں کو محکوم بنانا اور انہیں قتل کرنا نازی جرمنی میں ایک نارمل فعل اور اخلاقی کام بن گیا۔

مرد اگر عورت کو پیٹتا ہے تو اسے روکنے کے لیے مداخلت نہ کرنا پاکستان میں پروان چڑھائی گئی اخلاقی ثقافت کی وجہ سے ہے۔ اس خطے کی مروجہ اخلاقی ثقافت خواتین کو کمزور صنف کے طور پر پیش کرتی ہے جس کی پرورش ایک بیوی بننے کے طور پہ کی جاتی ہے۔ بڑے ہونے کے بعد ان کا بنیادی کام بچوں کو جنم دینا ہے۔ بیٹی یا ماں کے سیاق و سباق سے ہٹ کر کام کے انتخاب کو یا تو مجبوری کی حالت میں ایک معاشی ضرورت سمجھا جاتا ہے یا پھر یہ کہ وہ عورت اپنی روایت سے انحراف کی مرتکب ہو رہی ہے۔

اگر کوئی مرد کسی عورت کو مارتے ہوئے دیکھا جائے تو ملک کا اخلاقی کلچر یہ ذہن میں ڈالتا ہے کہ اس نے ضرور کچھ غلط کیا ہوگا۔ اور اگر وہ حجاب نہیں پہنتی پھر تو اسے مارنا کوئی برا ہی نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہاں پر جمع لوگوں میں سے کچھ مداخلت کرنے کے لیے آمادہ ہوئے، لیکن اخلاقی کلچر کے جذبات سے معمور ضمیر نے انہیں فورا قابو کرلیا۔ مداخلت کا حقیقی مطلب اخلاقی ثقافت کو چیلنج کرنا ہے۔

آج ایران میں بہت سی خواتین جبری پردے کے قوانین کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔ یہ احتجاج 1979 میں برسراقتدار آنے والی ایرانی مذہبی حکومت کی وضع کردہ اخلاقی ثقافت کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے۔ اگرچہ کچھ اخلاقی ثقافتیں نئے زمینی حقائق کے تقاضوں کے مطابق خود کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتی ہیں، لیکن اکثر حالات میں وہ ارتقاپذیر ہونے کی بجائے مزید پیچیدہ اور گہری ہوتی چلی جاتی ہیں۔

سعودی عرب کا معاملہ سب سے دلچسپ ہے۔ 1979 کی ایران جیسی کسی بغاوت سے بچنے کے لیے، سعودی بادشاہت نے تب پہلے سے موجود قدامت پسند اخلاقی کلچر کو مزید نظریات اور تعلیمات کے ساتھ مضبوط کردیا تھا۔ لیکن کئی دہائیوں بعد جب عرب بہار شروع ہوئی تو سعودی بادشاہت کو احساس ہوا کہ مملکت کی اخلاقی ثقافت زوال پذیر ہے اور وہ اسے مزید زندہ نہیں رکھ سکیں گے۔

عمران خان ایک ایسی پاپولسٹ قوت ہے جو اس ثقافت کو دوبارہ پالش کرکے نئے ہیجان کے ساتھ زندہ رکھنا چاہتا ہے

جیسا تیسے بھی، سعوودی بادشاہت کو اس بات کا پورا ادراک تھا کہ ایران میں کیا ہو رہا ہے۔ چنانچہ بادشاہت نے اپنے اخلاقی کلچر پر نظرثانی شروع کردی ہے اور اس کے رجعت پسند پہلوؤں کو ترک کر رہی ہے۔ لیکن ایران نے ایسے اقدامات نہیں کیے، اس کی اخلاقی ثقافت نے اسے  اور بھی نیچے دھنسا دیا، حالانکہ یہ حقیقت سامنے ہے کہ ایرانیوں کی نئی نسل اسے مسترد کرکر رہی ہے۔

اخلاقی ثقافتیں معاشروں کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، تاہم انہیں وقت کے ساتھ مسلسل ارتقاپذیر رکھنا چاہیے۔ انہیں ترقی پسند اور لچکدار ہونا چاہیے۔ جب کسی اخلاقی ثقافت کے خلاف بے چینی پیدا ہولگے مگر پھر بھی اسے جامد رکھا جا رہا ہو تو اس کا مطلب یا تو یہ ہوتا ہے کہ اس کی سرپرست قوتیں ان سماجی، سیاسی اور معاشی فوائد کو برقرار رکھنا چاہتی ہیں جو انہیں اس جامد ثقافت سے حاصل ہوتے ہیں، یا یہ کہ اس ثقافت کو طاقت کے ایک نئے انصرام نے ہائی جیک کر لیا ہے اور وہ اسے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے، چاہے وہ ثقافت کتنی ہی فرسودہ اور تباہ کن کیوں نہ ہو۔

پاکستا کی مروجہ اخلاقی ثقافت بڑی حد تک 1970 کی دہائی کے آخر میں وجود میں آئی اور 1980 کی دہائی میں خود کو پوری طرح مستحکم کر لیا۔ یہ دائیں بازو کی آمریت، اسلام پسند جماعتوں اور معاشی طبقات کی مشترکہ تخلیق تھی جنہوں نے اسے اس لیے آگے بڑھایا کیونکہ یہ ان کے مفادات کے لیے ضروری تھی۔

ملک میں یہ ثقافت 1990 کی دہائی کے بعد زوال پذیر ہونا شروع ہوئی لیکن عملا جمود برقرار ہے اور اسے ارتقاپذیر نہیں ہونے دیا جارہا۔ اس سے بہت سارے سماجی مسائل پیدا ہو رہے ہیں، خاص طور پر خواتین کے خلاف تشدد، بلاوجہ بدتمیزی اور تعصب جیسے معاملات نمایاں ہیں۔

معاصر منظرنامے میں عمران خان ایک ایسی پاپولسٹ قوت ہے جو اسے دوبارہ پالش کرکے نئے ہیجان کے ساتھ زندہ رکھنا چاہتا ہے کیونکہ اس کے تباہ کن اثرات کے باوجود، وہ کچھ عوامی طبقات پر اس کے ذریعے اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔

وہ اس ثقافت کو اقتدار میں واپسی کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بہت سے نوجوان اور ان کے جدیدیت پسند حامی اب بھی یقین رکھتے ہیں کہ وہ اس ثقافت میں ارتقا لائیں گے اور اسے عصری تقاضوں کے مطابق بنائیں گے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ایک سیاستدان کے طور پر، ایسا کرنے میں ان کا کوئی مفاد نہیں ہے، تو وہ ایسا کیونکر کریں گے۔

بشکریہ: روزنامہ ڈان، مترجم: شفیق منصور

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...