احمد ندیم قاسمی سے پہلی ملاقات
ماں کی گود ندیم کی وہ پہلی درسگاہ تھی جہاں اُن کے غیر ت و حمیّت ، نیکی اور پاکیزگی ، مادی غربت کے عالم میں روحانی ثروت مندی کے سے انسانی جوہروں نے جِلا پائی۔
احمد ندیم قاسمی سے پہلی ملاقات میری زندگی کی خوشگوار ترین حیرت کا سبب بنی۔ یہ آج سے لگ بھگ پچاس برس پیشتر کی بات ہے جب راولپنڈی کے ایک مزدور لیڈر بشیر جاوید صاحب میرے ہاں اپنی شادی کی مختلف تقریبات میں شمولیت کے دعوت ناموں کے ساتھ تشریف لائے۔ انہوں نے اپنے تعارف میں احمد ندیم قاسمی کے ساتھ راولپنڈی جیل میں اپنی رفاقت کا حوالہ دیا اور بتایا کہ ندیم صاحب نے فرمائش کی ہے کہ اُن کی شادی سے متعلق تمام تقریبات میں میَں بھی ندیم صاحب کی خدمت میں حاضر رہا کروں۔ یہ جان کرمیری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی کہ میں اپنے دِل میں جس شخصیت سے ملاقات کی تمنّارکھتا ہوں وہ فقط چند روز بعد اپنے ایک سابق ہم قفس کی دعوت پر بس راولپنڈی آیا ہی چاہتی ہے اور یوں میری ان سے ملاقات کی دیرینہ تمنّا پوری ہونے کو ہے۔
احمد ندیم قاسمی سے میرا غائبانہ تعارف بھی ایک عجب حُسنِ اتفاق کا مرہونِ منّت ہے۔ سن انیس سو باون میں جب میں سالِ اوّل کے طالب علم کی حیثیت میں گورنمنٹ کالج کیمبل پور (حال اٹک) میں داخل ہوا تو ایک تنہا اور اُچاٹ دل کے ساتھ گھومتے پھرتے کالج ہاسٹل کی لائبریری میں جا نکلا۔کتابوں کو اُلٹے پلٹتے احمد ندیم قاسمی کے افسانوں پر مشتمل ایک کتاب بعنوان ”آنچل“ دلچسپ لگی۔ اپنے کمرے میں پہنچ کر کتاب کو پڑھنا شروع کیا تو رات دیر تک پڑھتا رہا۔ کتاب ختم ہوئی تو یوں محسوس ہوا کہ ایک خواب ختم ہوا اور دوسرا خواب شروع ہو گیا۔ مطالعے کے دوران مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں اپنے مادی اور علمی لحاظ سے انتہائی پسماندہ گاﺅں کے گلی کوچوں اور کھیت کھلیان میں بکھری ہوئی زندگی کی سفّاک حقیقتوں سے آنکھیں چار کرتا رہا۔ کتاب ختم ہوئی تو ذہن میں یہ سوال جاگ اُٹھا کہ آخر اِس شخص کو ہمارے گاﺅں کی زندگی کی خارجی اور باطنی صداقتوں کاایسا حقیقت افروز علم کہاں سے ملا؟ اِس سوال کا جواب ڈھونڈتے ڈھونڈتے میں نے ہاسٹل اور کالج کی ہر دو لائبریریوں میں وہ سب کچھ پڑھ ڈالا جو احمد ندیم قاسمی نے اب تک لکھ رکھا تھا۔ اب مجھے ادبی رسائل و جرائد میں احمد ندیم قاسمی کی تحریروں کی تلاش اور کتاب گھروں میں اُن کی کسی نئی کتاب کی تلاش رہنے لگی۔ جوکچھ میّسر آتا گیا ، پڑھتا چلاگیا اور یوں مجھے غائبانہ طور پر احمد ندیم قاسمی سے قُرب حاصل ہونے لگا۔
اُسی زمانے میں حکومت نے انجمن ترقی پسند مصنفین کو سیاسی جماعت قرار دے کر انجمن کے سیکرٹری جنرل احمدندیم قاسمی اور اس کے ہم نوا بیشتر ترقی پسندادیبوں کوجیل میں ڈال دیا تھا۔ مئی ۱۹۵۲ءسے شروع ہونے والی ایک سال کی اس نظربندی کے احوال و مقامات پر حمید اختر نے اپنی کتاب ”کال کوٹھڑی“ میں بھرپور روشنی ڈالی ہے۔ اس رودادِ قفس میں ندیم کی شخصیت کا جیتا جاگتا عکس جلوہ گر ہے۔ حمید اختر کی”کال کوٹھڑی“ نے اپنی اس محبوب شخصیت سے میری غائبانہ جان پہچان کونئی گہرائیوں سے روشناس کیا۔ اُسی زمانے میں راولپنڈی کے سہ ماہی ادبی جریدہ ”ماحول“ میں احمد ندیم قاسمی نے اپنی ذاتی زندگی کے تجربات کو ”چند یادیں “کے عنوان سے شائع کیا تھا۔ اِس تحریر نے احمد ندیم قاسمی کے بچپن ، لڑکپن ، شباب اور اُن کے ذہنی و فکری ارتقاءکو سمجھنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اپنی ابتدائی زندگی کی محرومی اور سرشاری کی رودادبیان کرتے وقت ندیم صاحب نے لکھا تھا:
”مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مدرسے جانے سے پہلے میرے وہ آنسو بڑی احتیاط سے پونچھے جاتے تھے جو امّاں سے محض ایک پیسہ حاصل کرنے میں ناکامی کے دُکھ پر بہہ نکلتے تھے، لیکن میرے لباس کی صفائی، میرے بستے کا ٹھاٹ اور میری کتابوں کی ”گیٹ اَپ“ کسی سے کم نہ ہوتی تھی۔ گھر سے باہر احساس برتری طاری رہتا تھا اور گھر میںداخل ہوتے ہی وہ سارے آبگینے چور ہو جاتے تھے جنھیں میری طفلی کے خواب تراشتے تھے۔ پیاز یا سبز مرچ، یا نمک مرچ کے مرکب سے روٹی کھاتے وقت زندگی بڑی سفّاک معلوم ہونے لگتی تھی اور جب میں اپنے ہی خاندان کے بچوں میں کھیلنے جاتا تھا تو آنکھوں میں ڈر ہوتا تھا اور دل میں غصّہ۔ خاندان کے باقی سب گھرانے کھاتے پیتے تھے، زندگی پر ملمّع چڑھائے رکھنے کا تکلّف صرف ہمارے نصیب میں تھا۔ والد گرامی پیر تھے۔ یادِ الٰہی میں کچھ ایسی استغراق کی کیفیتیں طاری ہونے لگیں کہ مجذوب ہو گئے اور جن عزیزوں نے گدی پر قبضہ جمایا، انھوں نے ان کی بیوی، ایک بیٹی، دو بیٹوں اور خود اُن کے لیے کل مبلغ ڈیڑھ روپیہ ماہانہ( نصف جس کے بارہ آنے ہوتے تھے) وظیفہ مقرر کیا۔ تین پیسے روزانہ کی اس آمدنی میں امّاں مجھے روزانہ ایک پیسہ دینے کے بجائے میرے آنسو پونچھ لینا زیادہ آسان سمجھتی تھی“۔
ماں کی گود ندیم کی وہ پہلی درسگاہ تھی جہاں اُن کے غیر ت و حمیّت ، نیکی اور پاکیزگی ، مادی غربت کے عالم میں روحانی ثروت مندی کے سے انسانی جوہروں نے جِلا پائی۔اپنی والدہ کے سایہ
رحمت کے بعد آغوشِ فطرت نے اُن پرزندگی کے جلال و جمال کے تہہ در تہہ اسرار منکشف کیے:
”میں جب اپنے بچپن کا تصوّر کرتا ہوں تو ماں کے بعد جو چیز میرے ذہن پر چھا جاتی ہے وہ حسنِ فطرت ہے۔ یقینا یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ مظاہرِ فطرت سے موانست کا یہ جذبہ کب، کیسے اور کیوں پیدا ہوا، مجھے تو بس اتنا معلوم ہے کہ جب بھی میں اپنا ماضی یاد کرتا ہوں تو لہلہاتے ہوئے کھیتوں، امڈتے ہوئے بادلوں، دُھلی ہوئی پہاڑیوں اور چکراتی، بل کھاتی اور قدم قدم پر پہلو بچاتی ہوئی پگڈنڈیوں کی ایک دنیا میرے ذہن میں آباد ہو جاتی ہے۔ بہیکڑ کے پھول کی جڑیں مٹھاس کا موتی، لانبی لچکتی گھاس کی چوٹی پر جانے کی کوشش میں چیونٹی سے بھی کہیں چھوٹے چھوٹے کیڑوں کی استقامت ،چیختی ہوئی چٹانوں کی جھریوں میں سے پھوٹتے ہوئے جنگلی پھولوں کے پودے، گھنی پھلاہیوں کے سائے میں دھرتی کی بھینی بھینی خوشبو دور نیلے پہاڑ کے دامن میں آئینے کی طرح چمکتی ہوئی جھیل پر سورج کی کرنوں کی سڑک، بادل کی گرج کے ساتھ تانبے کی چادروں کی طرح بجتے ہوئے پہاڑ، مکی کے بھٹوں کے لانبے لانبے سنہرے بالوں میں مکّی کی مہک، یہ اور دوسری تفاصیل جو کبھی کبھی میرے افسانوں اور شعروں کا پس منظر بن جاتی ہیں، میری زندگی کے اسی دور کا جمع کیا ہوا اثاثہ ہے جب میں وادیوں اور گھاٹیوں میں اُپلے چُننے نکلتا تھا یا اپنے میلے کپڑوں کی پوٹلی لیے اونچی پہاڑیوں پر پیالوں کے سے تالابوں میں کپڑے دھونے جاتا تھا“۔
مضمون ”چند یادیں“سے لیے گئے اِس اقتباس سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ احمد ندیم قاسمی اپنے بچپن کی شدید افلاس کی لپیٹ میں آئی ہوئی زندگی کی بے انتہا مشقت کو یاد کرتے وقت تلخی کے کسی شائبہ تک کو اپنے قریب نہیں بھٹکنے دیتے۔ اِس کے برعکس کچھ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے وہ جنگل بیابان میں اُپلے چننے کو زحمت نہیںبلکہ رحمت تصوّر کرتے ہیں۔ ایک ایسی رحمتِ خداوندی جس نے ندیم کو حُسنِ فطرت اور حُسن عمل ہر دو کی تحسین کا ہُنر سکھایا ہے۔اِسی زمانے میں جب احمد ندیم قاسمی کے دو شعری مجموعے ”شعلہ
گُل “ اور ”دھڑکنیں“ پڑھے تو مجھے حُسنِ فطرت اور حُسنِ انساں کے باہمی ربط و تعلق کی تعلیم ملی۔ ”شعلہ
گُل “ میں انسانی عظمت کے موضوع پر نظم در نظم اور غزل در غزل نادر و نایاب اشعار پڑھ کر مجھے ندیم کے بچپن کے ماحول کے ندیم کے فن پر اثرات سمجھنے میں بہت مدد ملی۔ ”شعلہ
¿ گُل“ میں قید و بند کے زمانے کی شعری تخلیقات بھی یہاں وہاں اپنا جادو جگا رہی ہیں۔
اِس زمانے میں احمد ندیم قاسمی انجمن ترقی پسند مصنفین کے سربراہ تھے۔ اُنھیں متعدد ترقی پسند ادیبوں کے ساتھ پنجاب کی مختلف جیلوں میں پابندِ سلاسل رہنا پڑا تھا۔اِس قیدو بند کی انتہائی اثرآفریں روداد جناب حمید اختر نے اپنی ناقابلِ فراموش کتاب ”کال کوٹھڑی “میں رقم کر رکھی ہے۔ میں نے اِس کتاب کو بار بار پڑھا اور ہر بارندیم کو اپنے سب ہم قفس رفیقوں سے ممتاز اور منفرد پایا۔ خود انہوں نے رسالہ ”نقوش“ کے دو مختلف شماروں (۲۷۔۲۸ اور ۲۹۔۳۰)میں بالترتیب ”مہربلب “اور ”زندان و سلاسل“ کے عنوان سے اِس قید و بند کے احوال و مقامات پر روشنی ڈالی ہے۔ اِن سب تحریروں میں جس نظریاتی صلابت اور انسانی عظمت کے ثبوت احمد ندیم قاسمی نے فراہم کیے ہیں وہ کہیں اور مشکل ہی سے نظر آئیں گے۔
ایوب خان کے مارشل لاءکے ابتدائی دور میں جب وہ سنٹرل جیل راولپنڈی میں قید تھے اُن دنوں میں روزنامہ ”تعمیر“ میںسب ایڈیٹر تھا۔ اُن دنوں میں اپنے ایڈیٹر اور ندیم صاحب کے پرانے دوست جناب محمد فاضل(۱) کی وساطت سے اُنہیں ادبی کتابیں اور ادبی رسائل و جرائد بھیجا کرتا تھا۔ اُس وقت تک ہماری آپس کی کوئی باقاعدہ ملاقات نہ ہو پائی تھی۔ بس چند برس پیشتر جب میں پہلی مرتبہ لاہور گیا تھا تو اپنے دِل میں یہ شوق لے کے گیا تھاکہ احمد ندیم قاسمی کو دیکھوں گا۔ میں خوب جانتا تھا کہ وہ نسبت روڈ پر کس مکان میں رہتے ہیں۔روزنامہ”امروز“ کے دفتر میں کس وقت جاتے ہیں اور وہاں سے واپس کس وقت اور کس راستے سے گھر تشریف لاتے ہیں۔ چنانچہ میں نسبت روڈ کی ایک نکڑ پر منتظر کھڑا رہا۔ جب ندیم صاحب بائیسکل پر سوار نسبت روڈ سے اپنے گھر کی طرف جانے والی سڑک پر مُڑے تو دس منٹ بعد میں بھی اُن کے دروازے تک جا پہنچا۔ گھنٹی دی تو خود ندیم صاحب دروازے پر آئے۔میں نے اُنہیں بتایا کہ میں گورنمنٹ کالج کیمبل پور سے یہاں ایک کام سے آیا تھا ۔سوچا آپ سے ملتا جاﺅں۔ انہوں نے پوچھا کس کام سے آئے ہو اور میں کیا مدد کر سکتا ہوں؟ میں نے بتایا کہ بس آپ کو دیکھنے کا شوق تھا آگیا۔ بہت بہت شکریہ۔ نہ میں نے اپنا نام بتایا (جاری ہے)نہ انہوں نے پوچھا۔
فیس بک پر تبصرے