مسئلہ فلسطین کا تاریخی پس منظر اور غامدی صاحب (آخری حصہ)

1,900

اسرائیل سے جنگ کرنے کے لیے محترم غامدی صاحب نے مناسب وقت کا انتظار کرنے کا مشورہ دیا ہے یہاں تک کہ اللہ مسلمانوں کو طاقت سے نوازے۔

جنگ عظیم دوم کے دوران برطانیہ کی کمزوری کو دیکھتے ہوئے یہودیوں نے اپنا سیاسی قبلہ تبدیل کر لیا اور ان کی نگاہیں امریکہ کی طرف لگ گئیں،انہوں نے امریکہ سے مراسم بڑھانا شروع کر دیے جس کا اثر جلد ہی سامنے آیا اور 1944 میں پہلی مرتبہ امریکی صیہونیوں کی طرف سے  کھلے بندوں یہودی مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا گیا۔

1946 کے موسم خزاں میں برطانوی حکومت نے لندن میں مسئلہ فلسطین کے تصفیہ کے لیے ایک کانفرنس منعقد کی جس میں عرب حکمرانوں کو مدعو کیا تاہم  اس کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا ،اس کے بعد برطانیہ نے فلسطین کا مسئلہ اقوام متحدہ  میں لے جانے کا فیصلہ کر لیا۔

اپریل 1947ء میں اقوام متحدہ  نے اسی سلسلہ میں ایک اجلاس بلایا،عربوں کو امید تھی کہ  انہیں اپنا موقف لوگوں تک پہنچانے کا موقع ملے گا اور لازمی طور پر ان کے مقدمے کی حمایت کی جائے گی مگر اجلاس میں ہونے والے مباحثات کچھ اور ہی خبر دے رہے تھے اور اجلاس نے امریکہ کی پشت پناہی سے صیہونی رنگ اختیار کر لیا،فلسطین  سے متعلق اقوام متحدہ کی خصوصی کمیٹی” یو این ایس سی او پی” کی دفعات میں میں صیہونیت کی حمایت کا تعصب صاف ظاہر ہوتا تھا۔اس کمیٹی نے اپنی تحقیقات یکم ستمبر 1947 کو اقوام متحدہ میں پیش کیں جس میں تقسیم فلسطین کی سفارش کی گئی۔

یہ منصوبہ تقسیم جو بے اصولیوں سے بھر ہوا ہے اور جغرافیہ۔تاریخ۔معاشیات اور انسانی فطرت کے قوانین اور اقوام متحدہ کے اصولوں کی اعلانیہ مخالفت کرتا ہے  اور  جس اقوام متحدہ کا فرض تھا کہ اس کو روکے  اور فلسطین کے اصلی باشندوں  اور ان کی اراضی کو تحفظ فراہم کرے اسی اقوام متحدہ کی جانب سے 29 نومبر 1947ء تقسیم کا منصوبہ اختیار کر لیا گیا جو کہ جنگ عظیم دوم کے بعد 24 اکتوبر 1945ءکو معرض وجود میں آنے والی یو این کی مختصر سی عمر کا ایک المناک اور قابل تاسف سانحہ ہے۔

اقوام متحدہ نے قرار داد پیش کی جو قرارداد”181″ کے نام سے معروف ومشہور  ہوئی جس میں فلسطین کی تقسیم کا حکم صادر کیا، اس قرار داد میں یہ طے پایا کہ  فلسطین کو دو ملکوں میں تقسیم کیا جائے ایک عربی اور دوسرا یہودی ، اور القدس   بدستور بین الاقوامی تولیت میں رہے۔ یہ قرارداد سوویت یونین اور امریکا کی حمایت سے منظور ہو گئی۔اس قرارداد کی منظوری سے پہلے یہودیوں کے اختیار میں فلسطین کا  5،6 فیصد حصہ تھا جبکہ اس تقسیم  کی قرار داد میں فلسطین کا 5۔56 سر زمین یہودیوں کیلئے مختص کردیا گیا تھا، اسی وجہ سے فلسطینیوں اور عربوں نے اس قرارداد کی مخالفت کی، اور اس قراداد پر بھی عملدرآمد نہ ہو سکا۔

اس ساری صورتحال کے بعد یہ بات اظہر من الشمس تھی کہ  فلسطین  اب میدان کارزار میں تبدیل ہونے والا ہے ۔ ہگانہ تنظیم نے 17  سے 25 سالہ نوجوانوں  کو دعوت دی کہ وہ عسکری کاروائیوں کے لیے  تنظیم میں شامل ہوں۔ ان کے مقابلہ میں عرب لیگ  نے بھی (لشکر آزادی)  کے نام سے ایک لشکر  منظم کیا۔ اور اس دوران میں یہودیوں کا ایک اور مہاجرین کا بڑا قافلہ فلسطین میں داخل ہوا،  اور نکبہ فلسطین  سے پہلے ان کی تعداد  31 فیصد تک پہنچ گئی  جبکہ ان کا قبضہ 9 فیصد اراضی پر تھا۔

1948 میں برطانیہ فلسطین سے نکل گیا اور یہودیوں  اور عربوں کے درمیان  جنگ شروع ہو گئی  اور یہ جنگ یہودیوں کی کامیابی پر منتج  ہوئی، اور یہودی فلسطین کے 78  فیصد علاقے پر قابض ہوگئے اور   15مئی  1948ء کو اسی مقبوضہ سرزمین پر یہودی مملکت کے قیام کا اعلان کر دیا، اس اعلان کے وقت فلسطینوں کی ایک بڑی تعداد جو یہودیوں کے نامزد حصہ میں آباد تھی اپنے اپنے گھروں میں ہوتے ہوئے بھی پناہ گزین بن گئی۔

امریکا نےفورا ًہی  یہودی مملکت کوتسلیم کر لیا، اور اس کے ایک سال بعد ہی  اقوام متحدہ  نے بھی اسرائیل کو باقاعدہ عالمی سطح پر ایک ملک  کےطور پر  تسلیم کر لیا ۔اس جنگ کے وجہ سے القدس دو حصوں میں تقسیم ہوگیا، اس کا مغربی حصہ یہودیوں کے ہاتھوں میں چلاگیا اور  مشرقی  حصہ اردن کے ہاتھ میں آگیا، مگر اسرئیل  نے  1967ء میں اس حصہ پر   بھی اپنا قبضہ جمالیا۔

جن یہودیوں کے حصہ میں جنگ سے پہلے  9 فیصد حصہ تھا جنگ کے بعد وہ 78 فیصد پر قابض ہوگئے، یہی وہ  المناک واقعہ تھا جو  1948کے جنگ کے وجہ سے رونما ہوا اور اسی لیے اسے نکبہ کہتے ہیں۔اگر ہم مسئلہ فلطین کو چند لفظوں میں بیان کرنا چاہیں توس کا اصل مسئلہ یہودی مہاجرین کے فلسطین میں صہیونی فکر لیکر آنا ہے، ان کا یہ عقید ہ تھا فلسطین صرف ان کیلئے ہے اور  اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ یہاں کہ اصلی فلسطینیوں کا انجام کیا ہوتا ہے ہر حال میں انہیں یہاں اپنی حکومت قائم کرنی ہے تمام استعماری ممالک نے بھی اس صہیونیوں کے  منصوبہ پر انکی  مدد کی کیونکہ اس پروجیکٹ کا کامیاب ہونا ان کےبھی  مفاد میں تھا ۔

اس سارے پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے محترم جاوید احمد غامدی صاحب کی گفتگو  سےیہ سمجھ میں آتا ہے کہ اگرچہ فلسطینیوں کے ساتھ ناانصافی ہوئی لیکن مسلمانوں کو عالمی طاقتوں کے فیصلے کو قبول کر لینا چاہیے،جو کہ میرے  خیال  میں باقی ممالک کے مسلمان تو شاید قبول کر سکیں لیکن جن سے گھر چھن گئے اور اپنے گھر میں ہوتے ہوئے بھی وہ پناہ گزین اور یہودیوں کی سرزمین پر غاصب کہلائے وہ یہ مشورہ کبھی بھی قبول نہیں کریں گے۔

غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ فلسطینیوں کو جو قانون کے مطابق مل رہا ہے اسی پر امن سے تعمیر کا آغاز کریں لیکن اس سارے پس منظر کے بعد یہ عیاں ہے کہ یہودیوں کا منصوبہ پورے فلسطین پر قابض ہونے کا ہے اور وہ خود متعین کردہ حدود سے روز بہ روز تجاوز کر رہے ہیں،یہودی فلسطینوں سےوہ بھی ان سے چھین رہے ہیں  جو کچھ  ان عالمی قانون کے مطابق مل رہا ہے  اور عالمی قانون کی مسلسل خلاف ورزیاں کر رہے ہیں،اس لیے یہ کہنا کہ”اسرائیل رد عمل کے نتیجہ میں بڑا ہو رہا ہے” اس سے اتفاق کرنا ناممکن ہے، بلکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ فلسطینی مزاحمت گریٹر اسرائیل منصوبے  میں تاخیر کا باعث بن رہی ہے جس  کا غصہ یہودی  وقتا فوقتا نہتے مسلمانوں،عورتوں اور بچوں پر اتارتے رہتے ہیں۔

غامدی صاحب یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ  جہاد و قتال میں پہلا سوال جگہ اور وقت کا ہوتا ہے لیکن فلسطینی مسلمانوں کو مزاحمت سے روکنے کا مشورہ دینے کے بعد یہ بھی سوچنا ہو گا کہ ان کے پاس اس کے علاوہ کیا آپشنز ہیں؟ راقم کے نزدیک فلسطینوں کے پاس دو آپشن رہ جاتے ہیں: ایک یہ کہ  وہ ہجر ت کر جائیں اور بغیر مزاحمت کے اپنی اراضی تر نوالے کی صورت میں اسرائیل کے حوالے کر دیں،یا پھر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اس انتظار  میں گھر میں بیٹھ جائیں کہ یہودی فوج ان پر تشد دکر کے انہیں وہاں سے ہجرت پر مجبور کرے یا انہیں قیدی بنا کر ان کی خواتین کو لونڈیاں بنا لے۔

اسرائیل سے جنگ کرنے کے لیے محترم غامدی صاحب نے مناسب وقت کا انتظار کرنے کا مشورہ  دیا ہے یہاں تک کہ اللہ مسلمانوں کو طاقت سے نوازے،یہ بالکل صائب مشورہ ہے لیکن  پر عمل اس صورت میں ہی ہو سکتا ہے جب کہ  اس اقدام  میں پہل مسلمانوں کی طرف سے کی جارہی  ہو،یہاں تو  معاملہ برعکس ہے،مسلمان دفاعی پوزیشن میں  ہیں،اگر جنگ نہیں بھی کر سکتے تو کم از کم سفارتی سطح پر تعلقات استوار نہ کر کے اپنا احتجاج تو ریکارڈ کروا سکتے ہیں،کیا اب مسلمان ممالک کو اس آخری درجہ سے بھی پیچھے ہٹنے کا مشورہ دیا جائے گا؟

محترم غامدی صاحب درد دل رکھنے والے انتہائی معزز سکالر ہیں،اور انہوں نے بڑے اخلاص کے ساتھ  مسئلہ فلسطین پر اپنا موقف پیش کیا ہے جس  کے کچھ حصہ سے راقم نے نے بڑے ادب کے ساتھ اختلاف کرنے کی جسارت کی ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ:

مسلم ممالک اور فلسطینیوں کے پاس آخری آپشن وہی ہے جس پر وہ پہلے سے عمل پیرا ہیں  اور وہ یہ  کہ مسلمان ممالک اسرائیل سے سفارتی تعلقات  بدستورمنقطع رکھیں اور فلسطینوں کی طرف سے مزاحمت جاری رہنی چاہیے،اور جب تک اسرائیل اور عالمی طاقتیں اپنی اس ناانصافی پر مبنی ظالمانہ روش پرقائم رہتی ہیں تب تک  کے لیےاس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں رہتا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...