ایمان اور عقل کے موضوع پر اسلامی فکر کے ابتدائی مباحث

1,516

تحریر: مصطفیٰ اکیول

ترجمہ: رشاد بخاری

ماضی کی مسلم فکر میں تاریخی طور پہ اس حد تک تنوع رہا ہے کہ عصر حاضر میں اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ آج چھوٹے چھوٹے فروعی مسائل پہ مذہبی طبقات میں تناؤ محسوس کیا جاسکتا ہے اور انہی فروعی مسائل کی بنیادپہ تحریکیں بھی برپا ہیں۔ جبکہ ماضی میں جو فکری و علمی مسالک موجود رہے ہیں ان کا باہمی اختلاف عقائد میں بنیادی نوعیت کا بھی رہا ہے، تاہم ان موضوعات پر خوب مکالمہ کیا جاتا تھا اور دلیل کی بنیاد پہ برتری ثابت کی جاتی۔ اگرچہ بعض طبقات پر سیاسی مفادات کی وجہ سے گھیرا تنگ کیا گیا اور ان کی فکر کو آگے نہیں چلنے دیا گیا، مگر اس کی وجوہات زیادہ تر سیاسی ہی رہیں۔ ان طبقات میں سرفہرست معتزلہ کا نام آتا ہے جنہیں اپنے وقت کے جدیدیت پسند کہا گیا۔ معتزلہ کے بارے میں آج منفی رائے غالب ہے لیکن کیا وہ ہر طرح سے غلط تھے اور کیا ان کے وجود و افکار کو مٹادینا درست اقدام تھا، زیرنظرمضمون میں مصطفی اکیول نے اسی موضوع پر بات کی ہے۔ مصطفیٰ اکیول معروف مصنف اور ’کیٹو انسٹی ٹیوٹ‘ میں اسلام اور جدیدیت پر سینئر فیلو ہیں۔مضمون کا ترجمہ رشاد بخاری نے کیا ہے۔رشاد بخاری سماجی کارکن، ادیب اور لکھاری ہیں، کئی سماجی تنظیموں کے ساتھ وابستہ رہ کر فلاحی و شہری مسائل پر کام کرتے رہے ہیں۔ (مدیر)

آج اگر آپ کسی بھی ایماندار مسلمان سے پوچھیں کہ وہ اسلام کے اندر کس روایت کی پیروی کرتے ہیں تو اس کا جواب غالباً سنی یا شیعہ ہوگا۔ جو لوگ سنی کے طور پر شناخت رکھتے ہیں وہ بھی فقہ کے چار مکاتب فکر میں سے کسی ایک کی پیروی کرسکتے ہیں: حنفی، شافعی، مالکی یا حنبلی۔ دوسرے سنی ان قائم کردہ مکاتب کو مسترد کرتے ہیں اور “سلف” کے طریقے پر چلنے کا دعویٰ کرتے ہیں – اسلام کی پہلی تین نسلیں – جو اکثر ہوبہو پیروی پر زور دیتے ہیں۔

تاہم سلف کے زمانے کے بارے میں ہماری سمجھ کے مطابق کچھ ایسے ستم ظریفانہ تضاد ہیں جنہیں ان کے بزعم خود معتقدین کے ساتھ ساتھ بہت سے دوسرے ہم عصر مسلمان نظر انداز کرتے نظر آتے ہیں: یہ اسلام کے اندر بہت زیادہ تنوع کا زمانہ تھا۔ آج کے مقابلے میں اس وقت فقہ کے زیادہ مکاتب تھے – جن کا آغاز الاوزاعی (متوفی 774)، الثوری (متوفی 778) اور الظاہری (متوفی 883) جیسے علماء نے کیا تھا۔ ان مکاتب میں سے سبھی یا تو قدرتی طور پر ختم ہوگئے یا دوسرے مکاتب کے ساتھ ضم ہوگئے۔ دوسرے، جیسے کہ ابن کرم (متوفی 868) کی طرف سے شروع کیا گیا مکتب، متشدد فرقہ وارانہ لڑائیوں میں ہارنے والے فریق کے طور پرختم ہوا۔ مزید برآں،اس وقت سنی اور شیعہ دونوں روایات کو کم سختی سے بیان کیا گیا تھا، ان کے درمیان زیادہ الہیاتی بہاؤ تھا اور جسے بعد میں “بدعتوں” کے طور پر مسترد کیا گیا۔

اس کا واضح اظہار معتزلہ کے حوالے سے ہوا، جو ’کلام‘ (اسلامی الہیات) کو فکر کا میدان بنانے والا پہلا مکتب ہے۔ آج، زیادہ تر سنی ذرائع اسے عقیدے کے اندر ابتدائی “بدعتیوں” میں شمار کرتے ہیں، جنہیں ان کے واحد اور سچے راستے کے پیروکاروں نے مسترد کر دیا ہے۔ وہ بہت کم سمجھتے ہیں کہ بہت سے ابتدائی حنفیہ ، جو آج تک کا سب سے بڑا سنی مکتب فکر ہے ،درحقیقت معتزلی تھے، اور مؤخر الذکر کی سوچ نے مرکزی دھارے کی سنی فکر پر اہم اثرات چھوڑے ہیں، جیسے کہ خدا کے ساتھ انسانی خصلتوں کے انتساب کے تصور کے ساتھ ان کی بے اطمینانی۔

معتزلہ فکر کا کلیدی پہلو اگرچہ مسلمانوں اور مغربی ذرائع دونوں میں مشہور ہے: ان کی “عقل پسندی”۔ لیکن اس کے معنی کے بارے میں غلط فہمیاں ہیں۔ قدامت پسند سنی مسلمانوں کے نزدیک انسانی عقل یا دلیل میں غلطی کا احتمال موجود ہوتاہے جس کو [معتزلہ کے ہاں] بےمثال الہامی وحی کے مقابلے میں بہت زیادہ اہمیت دی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ ترک ماہر الہیات حسین کانسو کہتے ہیں: ’گویا وحی خدا کی طرف سے ہے اور عقل اور دلیل کافر کے طرف سے‘۔

تاہم، معتزلہ کے لیے، وحی اور استدلال دونوں خدا کی طرف سے تھے – ایک ہی اخلاقی سچائی کے لیے آزاد راستوں کے طور پر۔ اوراس تعلق کے صحیح معنی کو بہتر طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ آج کل مسلم دنیا میں مذہب، قانون اور اخلاقیات کے بارے میں پر جوش بحثوں سے متعلق ہے۔

معتزلہ کون تھے؟ ان کے نام کا مطلب ’جو پیچھے ہٹتے ہیں‘، اس کہانی سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے بانی، واصل ابن عطا (متوفی 748)، اپنے استاد حسن البصری (متوفی 728) کے حلقے سے “واپس” ہو گئے تھے یا نکل گئے تھے۔ ایک متبادل وضاحت، جسے خود معتزلہ نے ترجیح دی ہے، وہ یہ ہے کہ متقی سنیوں کے طور پر، وہ دنیا کے گناہ آمیز فتنوں سے اور مسلمانوں کوتقسیم کرنے والی خانہ جنگیوں میں جنونی پارٹیوں میں شریک بننے سے’پیچھے ہٹ گئے‘ یا انہوں نے ان سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ قرآن میں اس اصطلاح کے مثبت معنی پر زور دیتے ہوئے جیسا کہ (18:16) جہاں پرہیزگار نوجوان مشرکوں سے ’کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں‘؛ یا (19:48)، جہاں ابراہیم بت پرستوں سے “واپس” ہو جاتے ہیں۔

متقی بھی اور عقلیت پسند بھی؟ ہاں معتزلہ بالکل ایسے ہی تھے۔ اس کی وجہ سمجھنے کے لیے ان کے سیاق و سباق کو دیکھنا چاہیے۔ ابتدائی اسلامی سلطنت صرف ایک صدی میں اسپین سے فارس تک نمایاں طور پر ترقی کر چکی تھی۔ ان نئے فتح شدہ علاقوں میں سے زیادہ تر میں، مسلمانوں نے مذہبی جوش اور فوجی طاقت سے فتح حاصل کی تھی، لیکن عراق کے کاسموپولیٹن مراکز، جیسے بغداد اور بصرہ میں، انہوں نے قدیم روایات کے فکری چیلنجوں کا سامنا کیا: عیسائیت، یہودیت، زرتشت، مانیکیزم اور، کچھ دیر بعد، یونانی فلسفہ۔ ان کے خلاف، زیادہ قدامت پرست علماء جنہوں نے “بلا کفایہ” یا “بغیر پوچھے کہ کیسے” ماننے پر فخر کیا، کوئی دلیل پیش نہیں کر سکے۔ اس کے بجائے، اسلام کو ایسے عقلی ماہرینِ الہٰیات کی ضرورت تھی جو عقیدے کا “معنی” بتا سکیں۔ اور یہ کوئی اور نہیں بلکہ معتزلہ تھے۔

عقلی طور پر مستقل دعوت کے لیے یہ کوشش معتزلہ کے ان تمام عقائد کی وضاحت کرتی ہے جو زیادہ عقیدہ پرست مسلمانوں کو غیر ضروری طور پر پیچیدہ معلوم ہوتے ہیں، اگر اشتعال انگیز طور پر بدعتی نہ بھی ہوں۔

مثال کے طور پر، معتزلہ نے تقدیر، یا “قدر” کے مقبول عقیدے کی مخالفت کرتے ہوئے یہ دلیل دی کہ خدا نے انسانوں کو ان کے اعمال میں مکمل آزادی اور طاقت دی ہے۔ کیونکہ بصورت دیگر، انہوں نے محسوس کیا کہ، وہ خدا کے انصاف کی وضاحت نہیں کر سکتے تھے – جو ان کے نظام میں، لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دینے یا سزا دینے میں ایک اہم اصول ہے۔ (انہوں نے یہ بھی دیکھا تھا کہ کس طرح تقدیر کے نظریے کو اموی خاندان کے آمریت پسند حکمرانوں نے استعمال کیا، جنہوں نے 661 سے 750 تک اسلامی سلطنت پر غلبہ حاصل کیا، تاکہ وہ اپنے لیے غیر مشروط اطاعت پیدا کر سکیں)۔

معتزلہ کا ایک اور نظریہ خلق قران کا نظریہ تھا جسے بہت سے مسلمانوں نے حیران کن پایا۔ ان کے نزدیک قرآن ازل سے خود خدا کے ساتھ موجود نہیں تھا بلکہ خدا کا ’پیدا یا تخلیق کردہ‘ لفظ تھا۔ اس کی وجہ ان کا یہ احساس تھا کہ ایک “غیر تخلیق شدہ قرآن” “غیر تخلیق شدہ مسیح” کے عیسائی نظریے کی تائید کرے گا جیسا کہ عیسائی ماہر الہیات دمشق کے جان (متوفی ۷۴۹) نے دلیل دی تھی۔ (کیونکہ قرآن کے مطابق مسیح بھی، “خدا کا کلام” تھے)۔

دوسرے لفظوں میں، قرآن کو “تخلیق” کے طور پر بیان کرنے سے معتزلہ قرآن کی قدر کم نہیں کر رہے تھے۔ اس کے بجائے، وہ قرآن کی بنیادی تعلیم کی حفاظت کرنے کی کوشش کر رہے تھے، جو کہ خدا کی مکمل وحدت ہے۔

معتزلہ کا سب سے نمایاں نظریہ، الہی قانون یعنی شریعہ کے بارے میں ان کا تصور تھا۔ یہ اس سوال کے جواب میں تھا کہ: کیا کوئی چیز اس لیے “اچھی” یا “بری” ہے کیونکہ خدا اس کا حکم دیتا ہے یا اس پر پابندی لگاتا ہے؟ یا کیا خدا چیزوں کے بارے میں حکم دیتا ہے یا اس پر پابندی لگاتا ہے کیونکہ وہ فطری طور پر “اچھی” یا “بری” ہیں؟

قرآن پر مبنی دلائل کے ساتھ، جو انسانوں کے موجودہ اخلاقی علم کا حوالہ دیتے ہوئے ’معروف (جانی گئی نیکی)‘ کا حکم دیتا ہے – معتزلہ نے مندرجہ بالا دوسرے نقطہ نظر کا دفاع کیا، جسے اکثر ’اخلاقی معروضیت‘ کہا جاتا ہے۔ اس نظریہ میں، شریعت کے طور پر نازل ہونے والے الٰہی احکام نے مسلمانوں کو معروضی اخلاقی اقدار کے بارے میں تعلیم دی جو پہلے سے ہی چیزوں کی نوعیت کے مطابق انسانی عقل کے لیے قابل فہم تھیں۔ اس کے مطابق قتل فطری طور پر برائی تھی، اور شریعت نے صرف اس سچائی کی نشاندہی کی ہے۔ [یعنی یہ ایک ایسی سچائی تھی جسے انسانی عقل پہلے سے ہی دونوں صورتوں میں تسلیم کرتی ہے۔]

مخالف نظریہ ،جس پر بعد میں سنی اسلام کا غلبہ ہوا ،وہ تھا جسے فلسفی ’خدائی حکم کا نظریہ‘ کہتے ہیں۔ اس نظریہ میں، شریعت کے طور پر نازل ہونے والے خدا کے احکام، اخلاقی سچائیوں کی نشاندہی نہیں کرتے تھے۔ لہٰذا، قتل صرف اس لیے غلط تھا کہ خدا نے اس پر پابندی لگا دی۔ اگر خدا نے اس کا حکم دیا ہوتا تو یہ بالکل صحیح ہوتا، کیونکہ شریعت کے علاوہ ’اچھے‘ اور ’برے‘ کا کوئی پیمانہ نہیں تھا۔

شریعت کے بارے میں یہ دو متضاد نظریات اس کی تشریح کے لیے سنگین مضمرات رکھتے تھے۔

ایک بڑا مسئلہ حدیث سے متعلق تھا۔ قرآن کے برعکس، جس کے اختیار پر تمام مسلمان متفق تھے، ان زبانی طور پر منتقل کی جانے والی خبروں کی صداقت مشکوک تھی۔ یہی وجہ ہے کہ عراق میں زیادہ تر فقہاء، ابتدائی احناف بشمول معتزلہ ،نے صرف ایک محدود تعداد میں اکثر نقل کی جانے والی احادیث کو قبول کیا اور اپنی زیادہ تر توجہ قرآن اور انسانی عقل پر مرکوز کی۔ اس لیے انہیں ’اہل الرائے‘ (اہل عقل) کہا جاتا تھا۔

مخالف کیمپ ’اہل الحدیث‘ کا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ احادیث سے مسلمانوں کو ہر ممکنہ سوال پر رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔۔۔ اس طرح عقل یا دلیل کی زیادہ ضرورت محسوس نہ کی گئی – اوران کی صداقت کی تصدیق راویوں کا ایک غیر منقطع سلسلہ قائم کرکے کی جا سکتی ہے (جیسے الف نے ب سے اور ب نے ج سے سنا جس نے حضور سے سنا، اس طرح کہ درمیان میں کوئی راوی غائب یا مشکوک نہیں)۔ امام احمد بن حنبل سے شروع ہو کر، جو معتزلہ کے سخت ترین مخالف تھے، احادیث کی چھ کتابیں (صحاح ستہ) تیار ہوئیں جنہیں آج بھی احترام [سند] کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

دونوں مکاتب فکر کے درمیان ایک اہم فرق یہ تھا کہ آیا احادیث کے مواد پر عقل یا استدلال کی بنیاد پر سوال کیا جاسکتا ہے؟ اہل حدیث کے لیے جب راویوں کا سلسلہ قائم ہو گیا اور حدیث کو صحیح قرار دے دیا گیا تو اس پر بحث کے لیے بہت کم کچھ رہ گیا تھا۔ یہ ایک روایتی متن بن گیا جسے صرف قبول کرنا اور ماننا پڑا۔ معتزلہ کے نزدیک، تاہم، کسی بھی حدیث پر، اس کے راویوں کے سلسلے سے قطع نظر، اس کے مواد کا جائزہ لے کر۔۔ قرآن اور انسانی عقل دونوں کی روشنی میں، بشمول اخلاقی وجدان،سوال کیا جا سکتا ہے۔

یہاں ایک مثال ہے۔ ابن حنبل کے مجموعہ حدیث “مسند” میں حضرت محمد[ صلی اللہ علیہ وسلم] کی ایک روایت شامل ہے جس میں لکھا ہے: ’مومن اور ان کی اولاد جنت میں اور مشرک اور ان کی اولاد جہنم میں ہوں گے‘۔ مؤخر الذکر حصہ مبینہ طور پر حضور کی زوجہ حضرت خدیجہ کو “پریشان کن” محسوس ہوتا ہے، کیونکہ یہ ہم میں سے اکثر کے ضمیر کو ایسا محسوس ہوگا۔ لیکن کیا ضمیر کو مذہب میں ایک پیمانہ شمار کیا گیا؟

معتزلہ کا جواب اثبات میں تھا۔ ابراہیم النظم (متوفی ۸۴۵) نے لکھا، ’خدا بچوں کو سزا نہیں دے گا، کیونکہ یہ اسے ظالم بنا دے گا، جو وہ نہیں ہے‘۔ دو صدیوں بعد، آخری عظیم معتزلہ عالم اور قاضی عبد الجبار (متوفی ۱۰۲۵) نے بھی ایسی احادیث پر، جو اخلاقی طور پر ناقابل قبول ہیں، تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ’ان عقلی صلاحیتوں کو، ایسی رپورٹوں کے حق میں، ترک کرنا جائز نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں ودیعت کر رکھی ہیں‘۔

خوش قسمتی سے، بچوں میں جہنم کی حدیث کے راویوں کے سلسلے میں ایک کمی تھی، اس لیے اسے بالآخر “ضعیف” کے طور پر درجہ بندی میں رکھا گیا۔ اس کے باوجود آج بہت سے مسلمان ایسی دوسری روایات پڑھتے ہیں جنہیں ’صحیح‘ قرار دیا گیا مگر جو ان کے ضمیر کو جھنجھوڑتی ہیں: ایسی احادیث جو بدعنوان ظالموں کی اطاعت، من موجی شوہروں کی غلامی؛ یا لوگوں کو، محض اُن کے عقائد کی وجہ سے، “مرتد” کے طور پر قتل کرنے کا حکم دیتی ہیں۔

ایسی مذہبی تعلیمات کے پیش نظر جو اخلاقی طور پر غیر منصفانہ محسوس ہوتی ہیں، آج مسلمانوں کے لیے معتزلہ کے نقطہ نظر کو یاد رکھنا مفید ثابت ہو سکتا ہے: کہ خدا ناانصافی کا حکم نہیں دے سکتا – جس کی تعریف وقت اور سیاق و سباق کے ساتھ مختلف ہوسکتی اور بدل سکتی ہے – اور ہمیں سوال کرنے کا حق ہے۔

دوسرے لفظوں میں، جیسا کہ ہم عصر اسلامی اسکالر خالد ابو الفضل نے حال ہی میں کہا ہے، مسلمان مذہب میں ’ضمیر کے مطابق سوچ‘ کا زیادہ استعمال کر سکتے ہیں۔ جب انہیں ایسے مذہبی احکام کی تعمیل کرنے کے لیے کہا جاتا ہے جو کہ ضمیر کے خلاف ہیں، تو وہ جائز طور پر کہہ سکتے ہیں کہ ’میں ایسا نہیں سمجھتا، مجھے اس کا کوئی مطلب سمجھ نہیں آتا‘۔

تاہم اس تناظر کو خدائی حکم کے نظریہ کے غلبے کی وجہ سے مرکزی دھارے کی اسلامی سوچ میں سختی سے روک دیا گیا ہے۔ اس نظریے کے مطابق، انصاف کا آزادانہ احساس مذہبی متون پر سوال نہیں اٹھا سکتا، کیونکہ ان متون سے باہر انصاف کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ جس عالم نے اس نظریے کی حمایت کی تھی وہ معتزلہ کی صفوں سے منحرف ہوگیا تھا: ابو الحسن اشعری (متوفی ۹۳۶)، جس نے ۴۰ سال کی عمر میں اپنے عقائد میں تبدیلی کر کے معتزلہ کے خیالات کو رد کر دیا۔ اور اس کے بجائے وہی دعوی کرنا شروع کیا جو ابن حنبل کرتے تھے۔ چونکہ وہ ایک عقلی ماہر الہیات رہے تھے، انہوں نے خود ابن حنبل سے زیادہ، جنہوں نے تمام الہیات کو ایک فضول اختراع قرار دے کر رد کر دیا تھا، دلیل سے اپنے دعوی کو ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اشعری نے عقلی استدلال کے ساتھ حنبلی عقائد کا دفاع کرتے ہوئے اپنے مکتب فکر کی بنیاد رکھی جسے الاشعریہ کے نام سے جانا جاتا ہے (جو کہ مذکورہ بالا چار فقہی مکاتب سے الگ ہے، لیکن ان پر اثر رکھتا ہے)۔ اور جو سنی دنیا میں تیزی تیزی سے مقبول ہوا، خاص طور پر گیارہویں صدی کے اواخر میں جب اسے ریاستی سرپرستی حاصل ہوئی۔

اس صدی کا ایک اور اہم واقعہ حنبلی خلیفہ القادر کی طرف سے معتزلہ کی سرکاری مذمت تھی۔ 1017 میں، اس نے ’قادری عقیدہ‘ کا اعلان کیا، جس نے واضح طور پر معتزلہ نظریہ کو نشانہ بنایا: ’جو کہتا ہے کہ قرآن تخلیق کیا گیا ہے، وہ کافر ہے، جس کا خون جائز طور پر بہایا جا سکتا ہے‘۔ جلد ہی معتزلہ علماء اپنے عقائد سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئے۔ مزاحمت کرنے والوں کو جیل بھیج دیا گیا، جب کہ مسجد کے منبروں سے ان کے “بدعتیوں” کی مذمت کی گئی۔

یہ بھی درست ہے کچھ معتزلہ نے بھی بہت پہلے ریاستی جبر کا سہارا لیا تھا، جب ان کے ’خلق قرآن‘ کا نظریہ خلیفہ المامون کے بدنام زمانہ۸۳۳ سے ۸۵۱ تک “مہنہ” (لفظی طور پر “آزمائش”)، جبرکے ذریعے نافذ کیا گیا تھا۔ یہ ان کی طرف سے ایک ناقابل معافی غلطی تھی، جسے سنی ماخذ میں بار بار بیان کیا جاتا ہے۔ تاہم، وہی ماخذ کبھی بھی قادری عقیدہ کے بارے میں بات نہیں کرتے، جس کے بارے میں ہمیں صرف جدید مغربی اسکالرشپ کی بدولت معلوم ہوا۔

حقیقت میں کیا ہوا، مختصراً یہ کہ اہلِ حدیث نے اہلِ عقل پر فتح حاصل کی۔۔۔ جزوی طور پر حکمرانوں کے حکم کی بدولت۔۔۔ جن کے لیے انہوں نے ’اطاعت‘ کی تبلیغ کی، چاہے وہ ’ظالم اور بدعنوان‘ ہی کیوں نہ ہوں۔ دریں اثناء اس طویل جنگ کے فاتحین کی حیثیت سے اہل حدیث نے اپنے مفاد کے مطابق ہی اس کی تاریخ لکھی۔

معتزلہ کی ایسی مذمت اور صفائی کی گئی کہ وہ سنی دنیا میں معدوم ہو گئے۔ صرف شیعوں، خاص طور پر یمن کے زیدیوں میں انہوں نے کچھ جگہ پائی۔ ان کی ابتدائی فقہ حنفیت – جس کے بانی ابو حنیفہ (متوفی ۷۶۷) نے اہل حدیث کی کافی ناراضگی مول لی تھی – کو ان کے عقلی قانون سازی کے قاعدے “استحسان” کے دائرہ کار کو کم سے کم کرتے ہوئے موافقت کرنی پڑی جس کا مطلب ہے بغیر کسی متنی بنیاد کے ’کسی چیز کی اچھائی پر غور کرنا، جیسے مغربی قانون میں ’ایکوئٹی یا مساوات‘ پر۔

بالآخر، اسلامی قانون کے ایک معاصر ماہر وائل حلاق کے الفاظ میں، اشعری نظریہ ’سنی فقہ کا سب سے بنیادی اصول‘ بن گیا – یعنی یہ کہ “خدا تمام معاملات کا فیصلہ کرتا ہے اور یہ کہ انسانی عقل کسی بھی انسانی فعل کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے ایک جج کے طور پر بالکل نااہل ہے‘۔”

کیا یہ اسلامی روایت میں غلط موڑ تھا؟ یا یہ بالکل ویسا ہی تھا جیسا کہ ہونا چاہیے تھا؟

ان لوگوں میں سے ایک جنہیں لگتا ہے کہ یہ ایک غلط موڑ تھا، احمد الرئیسونی ہیں، جو مراکش کے ایک ممتاز اسلامی اسکالر ہیں جنہوں نے 2018 میں مرحوم یوسف القرضاوی کی جگہ لینے کے بعد، حال ہی میں مسلم اسکالرز کی بین الاقوامی یونین کے صدر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ ان کی 2005 کی کتاب، ’امام الشاطبی کے نظریہ اسلامی قانون کے اعلیٰ مقاصد اور ارادے‘، جسے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ نے شائع کیا، نے اس مسئلے پر بات کرتے ہوئے درج ذیل نتیجہ اخذ کیا:

’اگر سچ کہا جائے تو اشعری جنہوں نے ‘نیکی’ اور ‘برائی’ کو عقلی طور پر قابل فہم خصوصیات کے طور پر رد کیا ہے، جو چیزوں اور اعمال میں شامل ہیں، ان کے اور ان کے مخالفین معتزلہ کے درمیان دیرینہ اور متنازعہ بحث رہی ہے۔۔۔ جیسے جیسے دن، سال بلکہ صدیاں گزرتی گئیں، ان کے درمیان یہ تنازعہ سخت سے سخت ترین ہوتا گیا۔ معتزلہ کے خلاف شدید ردعمل اشعری فکر کا ایسا غالب پہلو تھا کہ ان کی مخالفت ہراشعری مفکر کا ذاتی فریضہ بن گئی۔‘

اشعری روایت کے بعد کے مرحلے پر، ابو حامد الغزالی (متوفی 1111) جیسے عظیم علماء نے جزوی طور پر قانون کی معقولیت کو قبول کیا، جس سے انہیں ’مقاصد الشریعہ‘ کا اہم نظریہ تیار کرنے میں مدد ملی۔ اس کے باوجود، جیسا کہ رئیسونی سے پتہ چلتا ہے، ان بعد میں آنے والے اشعریوں کو اب بھی ’متروک نظریے (یعنی معتزلہ) سے متاثر ہونے کے خوف‘، نے روکے رکھا۔

تاہم، رئیسونی مزید لکھتا ہے:

’ہمیں ان لوگوں کی طرف سے معافی مانگنے کی ضرورت ہے جنہوں نے خود واضح سچائیوں کو جھٹلایا اور محض معتزلہ کی مخالفت کرنے کے لیے وہم وخیال کا دفاع کیا‘۔

پس ظاہر ہوتا ہے کہ معتزلہ ہر چیز میں غلط نہیں تھے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ہر چیز میں ٹھیک تھے۔ لیکن وہ ابتدائی اسلام میں اسلامی عقیدے اور قانون کی انسانی عقل اور عالمی اخلاقیات کے ساتھ۔ مطابقت پیدا کرنے کی ایک علمی اور فکری کوشش کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب اس طرح کی مفاہمت اور مطابقت کی اور بھی فوری ضرورت ہے، ان کے کچھ خیالات دوبارہ غور کے قابل ہو سکتے ہیں۔

یہ اسلام کی تاریخ میں کچھ دوسرے معدوم فرقوں یا فکری تحریکوں کے لیے بھی درست ہو سکتا ہے۔ آخرکار، یہ تاریخ، حتیٰ کہ ایمان میں سب سے زیادہ متقی لوگوں کی نظروں میں بھی، انسان کی بنائی ہوئی ہے۔ اس کی تشکیل نہ صرف اسلام کے مذہبی اصولوں سے ہوتی ہے بلکہ تاریخ کے حادثات، قدیم ثقافتوں کے اثرات اور من مانی کرنے والے حکمرانوں کے حکم سے بھی ہوتی ہے۔ اس لیے آج کے مسلمانوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس پیچیدہ اسلامی روایت کو نہ صرف احترام کی نگاہ سے دیکھیں بلکہ تنقیدی نظر سے بھی، تاکہ وہ ممکنہ طور پر بہترین وجدان کے حامل ہوسکیں اور اسلام کو ایک بالکل مختلف نئے ہزاریےمیں نئے سرے سے بیان کرسکیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...