تصورِ پاکستان کا نِت نیا بیانیہ:خلیفہ عبدالحکیم، یادگاری خطبہ

999

 لیاقت علی خاں نے دورہ امریکہ کے دوران اِس حقیقت کو بہ اعادہ و تکرار بیان کیا کہ دنیا اِس وقت دو کیمپوں میں بٹی ہوئی ہے، سرمایہ پرست کیمپ اور اشتراکی کیمپ، پاکستان اِن دو میں سے کسی ایک بھی کیمپ کا مقلّد نہیں ۔

حیدر آباد دکن میں جب عثمانیہ یونیورسٹی قائم ہوئی تو علامہ اقبال نے اپنی بجائے خلیفہ عبدالحکیم کو شعبہئ فلسفہ کا صدر بنانے کی تجویز پیش کرتے وقت لکھا تھا کہ :”خلیفہ عبدالحکیم بھی اقبال ہی ہیں “ خلیفہ عبدالحکیم سے اقبال کی یہ توقعات بیش از بیش پوری ہوئیں- انھوں نے نئے حالات میں فکرِ اقبال کی تشریح و توضیح کا فریضہ جس شان کے ساتھ ادا کیا اورہماری قومی زندگی کو درپیش مشکلات سے پنجہ آزمائی میں فکرِ اقبال ہی کے تسلسل میں جس جرتِ فکر و اظہار کا ثبوت دیا وہ بے مثال ہے- اقبال کے مرشدِ روشن ضمیر مولانا رومی کے فکری اور روحانی کمالات پر ا±ن کی نصف درجن تصنیفات اقبال اور رومی سے ا±ن کی گہری محبت کا بیّن ثبوت ہیں- ا±ن کا پی ایچ ڈی کا مقالہ بعنوان The Metaphysics of Rumi صرف مولانا رومی ہی نہیں ، مسلمانوں کے فلسفہئ تصوف پر اپنی نوعیت کی واحد تصنیف ہے- غالب اور اقبال کی شاعری کی تحسین ا±ن کی تخلیقی تنقید کا ایک جداگانہ رنگ ہے لیکن مجھے آج ، اس نشست میں ، سیاسی نظریہ و عمل کی د±نیا میں ا±ن کی یادگار خدمات کی جانب اشارہ کرنا ہے۔

قیامِ پاکستان سے لے کر پاکستان کے پہلے وزیراعظم ، لیاقت علی خان کی شہادت تک تصورِ پاکستان کا بیانیہ بانیانِ پاکستان کے تصورات اور تحریکِ پاکستان کے خواب و خیال ہی کا جیتا جاگتا عکس تھا- پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خاں نے اپنے دورہءامریکہ (۲مئی سے ۳۱مئی ۵۰ئ تک) کے دوران اِس حقیقت کو بہ اعادہ و تکرار بیان کرنا ضروری سمجھا تھا کہ دنیا اِس وقت دو کیمپوں میں بٹی ہوئی ہے، سرمایہ پرست کیمپ اور اشتراکی کیمپ، پاکستان اِن دو میں سے کسی ایک بھی کیمپ کا مقلّد نہیں ہے۔پاکستان ایک تیسرے راستے پر گامزن ہے اور یہ اسلامی سوشلزم کی راہ ہے۔ چنانچہ دورہئ امریکہ کے دوران متعدد نشستوں میں ا±ن سے اسلامی سوشلزم کے مطلب و معانی کی وضاحت بھی طلب کی گئی ہے اور یوں ا±ن کی مختلف تقریروں اور بیانات میں اِس موضوع پر ا±ن کے خیالات کی تکرار بھی دَر آئی ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب خلیفہ عبدالحکیم لاہور میں ادارہئ ثقافتِ اسلامیہ قائم کر کے سرمایہ پرست د±نیا اور اشتراکیت پسند دنیااور ہر دو دنیا?ں کے مشرقی مقلّدین کو اس باب میں تعبیر و تفہیم کی روشنی بخشنے میں ہمہ تن محو تھے۔ا±ن کی انگریزی تصنیف بعنوان Islam & Communism ا±سی سال شائع ہوئی جس سال کرائے کے ایک قاتل کی گولی نے لیاقت علی خان کو قوم سے چھین لیا تھا- پوری کتاب تو ایک طرف اگر اِس کتاب کے صرف دو باب Islamic Socialism اور Islamic Democracy پڑھ لیے جائیں تو اسلام کا مطلب بھی سمجھ میں آ جاتا ہے اور پاکستان کا مطلب بھی- ہمارا حکمران طبقہ آج تک اِن کتابوں سے استفادہ نہیں کر سکا- اِس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ لیاقت علی خان کی شہادت کے ساتھ ہی تصورِ پاکستان کا بیانیہ بدل کر رکھ دیا گیا تھا-

ادھر پاکستان سرمایہ داری اور اشتراکیت کے مابین جاری سرد جنگ میں سرمایہ پرست دنیا کا Camp Follower بنا اور ادھر عوامی جمہوریت کی مذمت اور”مہربان آمریت “کی حمد و ثنا شروع ہو گئی- امریکی سی آئی اے کے کارندوں نے کاروبارِ حکومت سنبھالا – برطانوی ہند کی تربیت یافتہ افسر شاہی مسندِ اقتدار پر یوں متمکن ہوئی کہ اونٹوں تک کے گلے میں Thank you America کی تختیاں لٹکا دی گئیں، قومی آزادی افسانہ و افسوں بن کر رہ گئی اورنوبت یہاں آ پہنچی کہ ایوب کابینہ کے سب سے کم عمروزیر ، ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی کتاب The Myth of Independence کی پہلی سطر میں ہی اِس حقیقت کا اعتراف کر لیا کہ جب وہ ایوب کابینہ میں شامل ہوئے تو ا±نھیں پتہ چلا کہ پاکستان میں چھوٹے چھوٹے فیصلوں میں بھی امریکی صوابدید شامل ہوتی تھی- یوں جب ہماری آزادی ہی معدوم ہو کر رہ گئی تھی تب تحریکِ پاکستان کے خواب و خیال کیسے نہ دھندلاتے؟ہماری تاریخ کی المناک ترین حقیقت یہ ہے کہ سرد جنگ کے دوران روسی اشتراکیت کے خلاف امریکہ کی جنگ کوپاکستان اور اسلام کی بقا کی جنگ ثابت کرنے کی خاطر علمائے کرام کی خدمات سے بھی استفادہ کیا گیا-

یہ ایک مانی جانی ہوئی صداقت ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا- اِس سے بھی بڑی صداقت یہ ہے کہ اسلام کے نام پر قیامِ پاکستان کی سرتوڑ مخالفت کی گئی تھی-جس زمانے میں پاکستان کا تصور پیش کیا گیا اور پھر یہ تصورِ پاکستان تحریکِ پاکستان بن کر مقبولِ خاص و عام ہوا ا±س زمانے میںہمارے مختلف دینی مسالک کے زعمائ نے اِس قومی ، اسلامی تحریک پاکستان کی ڈٹ کر مخالفت کی تھی- چندمذہبی مسالک اور مدارس کی جانب سے قیامِ پاکستان کی یہ مخالفت دینِ اسلام کی فرقہ وارانہ تفہیم و تعبیر کا شاخسانہ ہے-

مصورِ پاکستان اور مفکرِ اسلام علامہ محمد اقبال اسلام کی ا±س حقیقی روح کو شہنشاہیت کی گرفت سے نجات دلا کر روحِ عصر سے ہم آہنگ کرنے کی خاطر مسلمان اکثریت کا ایک خطہئ خاک حاصل کرنا چاہتے تھے تاکہ اسلام کی اس حقیقی روح کو زندگی کے مختلف شعبوں میں سرگرمِ کار کر کے ایک سچا اسلامی معاشرہ وجود میں لایا جا سکے- ا±ن کے پیشِ نظر طلوعِ اسلام کا وہ اوّلیں دور تھا جب اسلامی معاشرے پر نہ شہنشاہیت مسلط ہوئی تھی اور نہ ہی اِس شہنشاہیت کی دستگیر م±لّائیت سامنے آئی تھی- یہی وجہ ہے کہ جب دارالعلوم دیوبند سے تحریکِ پاکستان کی مخالفت اور آل انڈیا کانگرس کے سیاسی مسلک کی حمایت میں مولانا حسین احمد مدنی سرگرمِ عمل ہو گئے تو اقبال نے ا±نہیں راہِ راست پر لانے کی خاطر کہا تھا کہ : ’بمصطفیٰ بہ رساں خویش را کہ دیں ہمہ ا±وست/ اگر بہ ا±و نہ رسیدی تمام بولہبیست‘ – بانیانِ پاکستان حریّت ومساوات اور احترامِ آدمیت کا ایک سچا اسلامی معاشرہ وجود میں لانے کے تمنائی تھے- جب مسلمان تو موجود تھے مگر اِن میں شیعہ س±نّی کے سے فرقے ابھی وجود میں نہیں آئے تھے- یہ حقیقت تحریکِ پاکستان کے دوران ہندی مسلمانوں کے مختلف اور باہم متصادم فرقہ پرستوں کی فہم و فراست سے بالاتر ثابت ہوئی- اِدھروہ چھوٹی بڑی علمی موشگافیوں میں کھوئے رہے اور ا±دھر عامة المسلمین نے اپنی اجتماعی رائے سے پاکستان قائم کر دکھایا-

قیامِ پاکستان کے بعد وہ قیادت ہم سے بہت جلد چِھن گئی جس نے تحریکِ پاکستان کو قیامِ پاکستان کی منزل پر لا پہنچایا تھا- ا±س کے بعد ہم پر برطانوی تربیت یافتہ سرکاری افسران کی حکومت مسلط کر دی گئی- سردجنگ کے زمانے میں امریکہ کا ساتھ نبھانے کی خاطر اسلام کی بجائے م±لّائیت کی سرپرستی کی- سرد جنگ میںشمولیت کا جواز مہیا کرنے کی خاطر ایک نیا بیانیہ تشکیل دیا گیاجس کی ر±و سے پاکستان ، خدانخواستہ ، اشتراکیت کا خاتمہ کر کے د±نیا میں سرمایہ پرستی کا بول بالا کرنے کی خاطر قائم کیا گیاتھا- اِس نئے استدلال نے خود مختار پاکستان کی آزاد خارجی اور داخلی حکمتِ عملی کو خیرباد کہہ کر امریکی تابعداری کے جواز مہیا کیے- ہر چند فیلڈ مارشل محمد ایوب خان مذہبی جماعتوں کی سیاسی سرپرستی سے گریزاں رہے تاہم اشتراکیت کے غلبے سے خائف اندرونی اور بیرونی قوّتیں اِن مذہبی سیاستدانوں کی خدمات سے بیش از بیش فیضیاب ہوئیں-علامہ اقبال نے انتہائی کرب و اضطراب میں یہ سوال ا±ٹھایا تھا کہ:

کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟

د±نیا ہے تیری منتظر ، اے روزِ مکافات!

جاری ہے۔۔۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...