پشتون قوم پرست اور مذہبی طبقے کے کرنے کا کام

1,244

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ میں پچھلی دو دہائیوں سے جاری گمنام جنگ میں ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ لوگ قتل ہوئے، سہاگ اجاڑ دئیے گئے، بچے اور بچیاں یتیم اور بوڑھے ماں باپ اپنے بڑھاپے کے واحد سہارے سے محروم کر دئیے گئے۔ انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ انفراسٹرکچر اور روزگار کی تباہی ایک الگ المناک داستان ہے جو تاحال مکمل بحالی کے منتظر ہیں۔ لیکن اس پورے المیے کا جو کربناک پہلو ہے وہ عوامی بحث و مباحثے سے غائب اور معاشرے کے اہلِ خیر کی ہمدردانہ توجہ سے تاحال محروم ہے – اور وہ ہے بیواؤں اور یتیموں کی پائیدار بحالی اور سرپرستی۔

یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ دہشت گردانہ حملوں کے نتیجے میں قتل ہونے والے مرد اپنے پیچھے بیوائیں اور بچے بے یارومددگار چھوڑ جاتے ہیں جن کا کوئی پُرسانِ حال یا والی وارث نہیں ہوتا۔ چونکہ ریاست فلاحی نہیں ہے اور ان متاثرین کی بحالی بھی ریاستی ترجیحات میں شامل نہیں ہے اس لئے چار و ناچار معاشرے کے اہلِ خیر سے یہ امید اور توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اس مسئلے کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے پائیدار بنیادوں پر اس حوالے سے کوئی قابلِ عمل اقدام کریں۔ محدود حکومتی خیرات کی بجائے دوررس نتائج کا حامل کوئی ایسا منصوبہ ترتیب دیا جائے جو بیواوں اور یتیموں کی عزتِ نفس کو مجروح کئے بغیر انہیں معاشرے میں باعزت زندگی گزارنے کے قابل بنائے۔ اگرچہ الخدمت فاونڈیشن، مسلم ہینڈز سمیت دیگر فلاحی تنظیمیں اس میدان میں خدمات انجام دے رہی ہیں لیکن اس کا دائرہ کار مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔

اس پورے مسئلے میں اس اہم امر کا ادراک وقت کی ضرورت ہے کہ پشتون معاشرے میں تعلیمِ نسواں کی معیاری اور یقینی شرح کافی کم ہے نیز خواتین کے فنی مہارتوں کی طرف لوگوں کی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ یو این ڈی پی کی رپورٹس کے مطابق عصری تعلیم کے بنیادی حق کے حوالے سے gender disparity کی شرح پشتون خطے میں سب سے زیادہ ہے. عصری تعلیم کے برعکس خواتین کے دینی مدارس کا قیام اور اس کی طرف لوگوں کا رجحان بڑھ رہا ہے. مزید بدقسمتی دیکھئیے کہ تعلیم کو “دینی اور دنیاوی” کے خانوں میں بانٹ دیا گیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کمائی کے لئے دنیاوی تعلیم کا حصول کراہت اور جنت کے حصول کے لئے دینی تعلیم کی تحصیل قابلِ تحسین ٹھہرتی ہے حالانکہ دونوں ضروری ہیں۔ تعلیم کو کمائی اور روزگار کیساتھ جوڑنے کا نقصان یہ ہے کہ پشتون معاشرے میں “عورت کی کمائی” کو عار سمجھا جاتا ہے اور نتیجتاً خواتین کی تعلیم کو ترجیحات میں شامل نہیں کیا جاتا۔ غیرت کے selective معیار کے مطابق عورت کو تعلیم کا حق تو نہیں دیا جاتا لیکن جب زچگی کا مرحلہ آتا ہے تو لیڈی ڈاکٹر تلاش کی جاتی ہے ورنہ مرد ڈاکٹروں سے علاج نہیں کرایا جاتا. مصدقہ رپورٹس کے مطابق دورانِ زچگی خواتین کے اموات کی شرح بھی ان علاقوں میں زیادہ ہے. تعلیم کو کمائی کے ساتھ جوڑنے کی بجائے یہ شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ خالصتاً خواتین سے متعلق مسائل میں ایک تعلیم یافتہ اور باشعور خاتون ہی زیادہ مفید اور موثر کردار ادا کرسکتی ہے.

موت برحق ہے لیکن ایک غیر تعلیم یافتہ اور غیر مہارت یافتہ عورت کو جہاں شوہر کی موت کی صورت میں اپنی بیوگی کا صدمہ برداشت کرنا پڑتا ہے وہاں بچوں کی پرورش اور معیاری تعلیم و تربیت کی فکر اسے مزید ہلکان کر دیتی ہے۔ لیکن اگر ایک خاتون تعلیم یافتہ اور مہارت کی حامل ہو تو حکومتی خیرات اور این جی اوز کی عکسی امداد کے حصول کے وقت عزتِ نفس سے محروم ہونے کی بجائے جہاں وہ باعزت طریقے سے دو پیسے کما کر عزت کی روزی روٹی کا بندوبست کرنے کے قابل ہوسکتی ہے وہاں اپنے بچوں کو مقدور بھر معیاری تعلیم و تربیت بھی دلوا سکتی ہے۔

دوسرا سنگین مسئلہ تیزی سے بڑھتی ہوئی بے لگام آبادی ہے جس میں جہالت اور شعور کے فقدان کیساتھ ساتھ بعض مذہبی تشریحات و تعبیرات کا بھی عمل دخل ہے۔ پشتون مذہبی طبقے کی خدمت میں عرض ہے کہ خدارا بچوں کی پیدائش کے حوالے سے مستقبل کی خوش فمہیوں پر مبنی خلافِ عقل تقاریر اور خطبات سے گریز کیجیئے۔ “اُمت کی تعداد بڑھانے” کے چکر میں ایک شخص بغیر سوچے سمجھے اپنی اوقات سے زیادہ بچے پیدا تو کرلیتا ہے لیکن تمام تر سخت محنت و مشقت کے باوجود وہ محدود وسائل میں اپنے بچوں کو معیاری تعلیم تو دور ان کی بنیادی ضروریات تک پوری نہیں کرسکتا اور وہ آپ کے خطبات کہ “رزق کی فراہمی خدا کا وعدہ ہے” کو سمجھنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے لیکن وہ کبھی آپ کی “بصیرت افروز” خطبات کو سمجھ نہیں پاتا۔ ریاستی بندوبست میں موجود نقائص اور سرمایہ دار طبقے کے ہاتھوں برپا معاشی استحصال کی دہائیاں دینے سے غریب مطمئن ہونے کی بجائے مزیدفرسٹریشن میں مبتلا ہوجاتا ہے جس کا سامنا گھر میں موجود بیوی اور معصوم بچوں کو کرنا پڑتا ہے۔

پشتون قوم پرست لاحاصل میڈیائی چیخ و پکار سے پنجاب کے “مفروضہ استحصال” کا خاتمہ تو شاید نہ کرسکیں لیکن تلخ زمینی حقائق کے سنجیدہ ادراک کی صورت میں اگر اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اور ووٹ کی سیاست سے ہٹ کر عوامی مفاد میں اقدامات کریں تو پشتون کو “زما لویہ گناہ دا دہ چے پشتون یم” جیسے مفلسانہ اور مظلومانہ احساس سے نجات ضروت مل جائے گی۔

پشتون مذہبی طبقہ مفروضہ “یہودی لابی” اور دیگر خیالی مسلم دشمن طاقتوں کے خلاف تو شاید کوئی جوہری کامیابی حاصل نہ کرسکیں لیکن اپنے منصب اور دینی فرائض کا احساس کرتے ہوئے پشتون معاشرے میں جہالت کا رقص روکنے میں اپنا موثر کردار ضرور ادا کرسکتے ہیں۔

فرضی خارجی دشمنوں کے مقابلے میں معاشرے کے اندر واقعتاً موجود جہالت اور شعور کا فقدان زیادہ خطرناک ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...