اصلاحات کے تقاضے

912

اصلاحات سے پہلے قبائلی علاقوں میں نئی مردم شماری لازمی ہو گی مگر امن کی بحالی اور آئی ڈی پیز کی واپسی تک مردم شماری کا انعقاد کیسے ممکن ہو گا؟

قبائلی علاقوں میں سیاسی اصلاحات متعارف کرانے کے لئے اعلی سطحی ریفارمز کمیٹی نے رپوٹ پیش کر دی،جسے 23 اگست کو وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت خصوصی اجلاس میں زیر غور لایا گیا، قومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز کی سربراہی میں بنائی گئی پانچ رکنی ریفارمز کمیٹی جس میں،خیبر پختون خوا کے گورنر اقبال ظفر جھگڑا،وفاقی وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ،نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر ناصر جنجوعہ اور وزیرقانون زاہد حامد شامل ہیں،نے دس ماہ کی تگ و دو کے بعد جو سفارشات مرتب کیں،ان میں پہلی، فاٹا کی موجودہ حیثیت کو برقرار  رکھتے ہوئے بتدریج انتظامی و عدالتی اصلاحات متعارف کرانے،دوسرے، فاٹا کا انتظام چلانے کے لئے گلگت بلتستان طرز کی منتخب کونسل کا قیام،تیسرے، فاٹا کو الگ صوبہ کا درجہ عطا کرنے اور چوتھا،قبائلی پٹی کو صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم کرنے پر مبنی تجاویز شامل ہیں،رپورٹ میں کہا گیا کہ قبائلی عوام کی اکثریت خیبرپختونخواہ میں شمولیت کے حق میں ہے تاہم کرم اور باجوڑ ایجنسی سمیت ایف آر پشاور کے قبائلی عمائدین  فاٹا کی موجود حیثیت کو برقرار رکھنے  کے حامی ہیں،اصلاحاتی کمیٹی کی رپوٹ کے مطابق قبائلی عوام،روایات اور جرگہ سسٹم کو بھی اپنی شناخت کے طور پر ہرصورت برقرار رکھنے پہ اصرار کرتے ہیں۔براہ راست منظوری کی بجائے وزیراعظم نے کمیٹی کی سفارشات کو وسیع عوامی مباحثہ کے لئے عام کر کے ابہام سے لبریز ان تجاویزکو زیادہ بامقصد بنانے کی کوشش کی ہے۔ بلاشبہ اس سرسری اور ناتراشیدہ مساعی پہ مزید غور و فکر کی ضرورت تھی چنانچہ دور رس نتائج کے حامل اس حساس معاملہ کو عقل اجتماعی کے  سپرد کر کے بہتر راہ عمل اختیار کی گئی۔

نومبر 2015ء میں قائم کی گئی ریفارمز کمیٹی نے فاٹا  کے منتخب  اراکین اسمبلی سے مشاورت کے علاوہ سیاسی جماعتوں،علماء کرام ،قبائلی عمائدین اور نوجوانوں کی آراء سے رہنمائی حاصل کی،اس سے قبل 2012-13 ء میں بھی گورنر نے قبائلی علاقوں میں سیاسی اصلاحات متعارف کرانے کیلئے کمیشن بنائے جن کی رپورٹس کو فاٹا کی سیاسی جماعتوں،عمائدین اور نوجوانوں نے ادھوری مساعی سمجھ کے مسترد کر دیا،اب تک بنائے گئے اصلاحاتی  کمیشن نے یہاں کے تہذیبی جمود کا درست ادراک اورخطہ کو درپیش مسائل کو سمجھنے سے پہلوتہی کر کے قبائلی عوام کو بااختیار بنانے کی بجائے ایف سی آر کے  بینافشریز (گورنر، پولیٹیکل ایجنٹ اور ملک) کو ہی سنٹر آف گرئیوٹی بنانے میں عافیت تلاش کی،حتیٰ کہ کوئی کمیشن قبائلی عوام کو مکمل بلدیاتی نظام کی فراہمی یا آئین کے آرٹیکل 247 میں مناصب ترمیم کیلئے موثر تجاویز تک نہیں دے سکا۔اس وقت قبائلی سماج سیاسی آزادیوں اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم  اور وسیع تر معاشی خوشحالی سے کوسوں دور ہے،فاٹا  کے 66 فیصد خاندان اب بھی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں لیکن حیرت انگیز امر یہ کہ اسکے باوجود بھی وہاں اجتماعی حیات کا دھارا فعال اور سماجی شعور مربوط نظر آتا ہے بلکہ حکومت کی طرف سے کی جانے والی اصلاح احوال کی ہر کوشش انکے فطری استحکام کو مبتلائے اضطراب کرتی رہی کیونکہ ہمارے ارباب بست و کشاد خود بھی اسی تصور کے اسیر ہیں جس سے وہ قبائلیوں کو نجات دلانا چاہتے ہیں،اس پورے قضیہ میں الجھن یہی  ہے کہ تہذیب ہمیشہ ابتری اور بدنظمی کے خاتمہ سے شروع ہوئی،جب خوف پہ قابو پا لیا جائے تو تجسس اور تعمیری اپج آزاد ہو جاتے ہیں اور انسان قدرتی طور پہ زندگی کی تزئین و آرائش کی طرف مائل ہوتا ہے لیکن اسکے برعکس فاٹا کی تہذیب جو خوف و جارحیت کے سیائے تلے پروان چڑھی اس نے قبائیلی عصبیت کو اپنے دفاع کا  جوہر بنایا جسکی تسخیر آسان نہیں ہو گی۔

سات ایجنسیوں اور چھ ایف آرز پہ مشتمل یہ قبائلی خطہ 27 ہزار 220 مربع کلو میٹر پہ محیط ہے، 1998ء کی مردم شماری کے مطابق یہاں کی کل آبادی 33 لاکھ نفوس پہ مشتمل تھی،تجارتی ومعاشی ضرورتوں اور خانہ سوز بدامنی کے باعث گزشتہ پندرہ سالوں میں نقل مکانی کے رجحان  نے یہاں آبادی میں اضافہ کے بہاوکو روک رکھاہے، پھر بھی اصلاحات سے پہلے قبائلی علاقوں میں نئی مردم شماری لازمی ہو گی مگر امن کی بحالی اور آئی ڈی پیز کی واپسی تک مردم شماری کا انعقاد کیسے ممکن ہو گا؟۔حیرت ہے کہ ایف سی آر کے خاتمہ کا مطالبہ کرنے والوںکی اکثریت اس قانون کی اساس اور تاریخی پس منظر سے صرف نظر کرتی ہے،اجتماعی ذمہ داری کے اصول پہ مبنی ایف سی آر قانون کے تحت حقوق و مرعات اور جزاو سزا کے اجتماعی نظام کو پورے قبیلہ پہ محیط رکھاگیا ،یہی قوانین چونکہ قبائلیوں کے گروہی مفادات اور علاقائی رسم رواج کو ریگولیٹ کرتے ہیں اسلئے قبائلی سماج نہ صرف اسے بسر وچشم قبول کرتا ہے بلکہ تمام تر قباحتوں کے باوجود آج بھی اس قانون سے  دامن چھڑانے سے ہچکچا رہا ہے۔ 1849ء میں جب انگریزوں نے سکھوں سے اقتدار حاصل کیا تو اس وقت قبائلی علاقے پنجاب کا حصہ تھے ،چنانچہ ابتداء میں انگریزوں نے سرحدی قبائل کے ساتھ داخلی رواجات میں عدم مداخلت اورعدم جارحیت کے معاہدات کر کے انہیں مطیع بنایا،ایف سی آر کا قانون 1867ء میں بنایا گیا اور چند جزوی ترامیم کے بعد 1872ء میں اسے پہلی بار میانوالی،کیمبل پور(اٹک) اور ملحقہ اضلاع میں نافذ کیا گیا،1879ء میں خیبر ایجنسی کے قیام کے ساتھ ہی ایف سی آر کو افغانستان کے سرحدی علاقوں تک وسعت دی گئی، 1892ء میں کرم ایجنسی قائم ہوئی اورڈیونڈ لائن معاہدہ کے دو سال بعد 1897ء میں نارتھ اور ساوتھ ایجنسیوں کے قیام کے ساتھ ہی قبائیلی علاقوں میں اجتماعی ذمہ داری کے اصول پہ مبنی اس قانون کا اطلاق مکمل کر لیاگیا۔قیام پاکستان کے بعد 1951ء میں مہمند ایجنسی اور 1973ء میں باجوڑ اور اورکزئی ایجنسیوں کا قیام کر کے ایف سی آر کے تحت آنے والے انتظامی یونٹس بڑھا دیئے گئے، قبائلی ثقافت اور اجتماعی مفادات کے نظام(نکات)کو قائم رکھنے کی خاطر  52 سال تک اس نظام میں ترمیم و تنسیخ سے گریز کیا گیا۔1997ء میں پہلی بار یہاں کے میکنوں کو ووٹ کا ملا لیکن فاٹا کے پارلیمنٹرین کو قانون سازی کا حق نہیں دیا گیا،البتہ 2011ء میں صدر زرداری نے پہلی بار  ایف سی آر میں 18جزوی ترامیم کر کے قبائیلی عوام کو کچھ بنیادی انسانی حقوق عطا کئے،جن میں اجتماعی ذمہ داری کے قوانین میں ترمیم کر کے 16 سال سے کم عمر بچوں اور 65 سال سے بڑی عمر کے بوڑھوں کو استثنی اور فرد کے جرم میں پورے قبیلہ کی گرفتاری کو ممنوع قرار دیا،ایف سی آر کے تحت درج مقدمات کو معینہ مدت میں نمٹانے کی پابندی لگائی گئی اور ایف سی آر کے تحت اپیلوں کی سماعت کرنے والے ٹربیونل کو  بااختیار بنانے کے علاوہ اپیل کے عمل کو زیادہ آزادانہ بنایا گیا،جیلوں میں بند ایف سی آر کے قیدیوں کے معائنہ اور فوجداری مقدمات میں قید ملزمان کی ضمانت کے تصور کو بھی متعارف کرایا گیا،قبائلوں پر جھوٹے مقدمات بنانے کی صورت میں مواخذہ اور پولیٹیکل انتظامیہ کے فنڈ کی آڈٹ کا نظام بھی رائج ہوا، ان اٹھارہ ترامیم نے ایف سی آر جیسے مربوط قوانین کے بند ڈھیلے تو ضرورکئے لیکن ایسی ترامیم مکمل شہری آزادیاں دے سکی نہ قبائیلی تہذیب و ثقافت اور اجتماعی مرعات کے نظام کی تشکیل نو کے قابل بنیں۔

تمام اصلاحاتی کمیٹیوں کی رپوٹس سے عیاں ہوتا ہے کہ سیاسی اصلاحات اور ایف سی آر کے خاتمہ سے قبل قبائیل اپنی تہذیب و ثقافت(رواجات) کی ریگولیشن اور اجتماعی مفادات،خاصکر بندوبست اراضی کی ضمانت چاہتے ہیں،اجتماعی ملکیت میں پڑی وسیع اراضی کی منصفانہ بلکہ قابل قبول تقسیم اگر ممکن نہ بنائی گئی تو قبائیلیوں کی آئندہ نسلیں کبھی نہ ختم ہونے والی خون ریزی میں الجھ سکتی ہے،دوسرے فاٹا کو بندوبستی اضلاع  میں ضم کرنے کی صورت میں قبائلیت ٹوٹ جائے گی اور وہ سارے رسم رواج بکھر جائیں گے جنکی عصبیت نے ان خوش جمال لوگوںکو باہم جوڑ رکھا ہے،ٹرائیبل سسٹم کے ٹوٹنے کے بعد بیسیوں تکنیکی  مسائل سر اٹھا لیں گے اور کچھ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ ایف سی آر کے خاتمہ کے ساتھ ہی قبائلی عوام کو حاصل اجتماعی مراعات از خود مفقود اور قبائلی بلٹ کی وہ پوری اراضی ریاست کو واپس پلٹ جائے گی جو انگریز حکمرانوں نے سرحدی قبائل کو ایف سی

آر معاہدہ کو قبول کرنے کے عوض ایوارڈ کی تھی۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...