تاریخی اور نسلیاتی تحقیق میں ڈی این اے ٹیسٹ کا استعمال
تحریر: جاوید فاروقی
جانداروں کے جسم خلیوں سے بنے ہوتے ہیں۔ خلیے میں زندگی کو برقرار رکھنے اور اسے پھیلانے کا تمام عمل سر انجام دیا جاتا ہے۔ خلیے کے اندر دیگر اجزاء کے علاوہ ڈی این اے بھی ہوتا ہے۔ یہ اس جاندار کی زندگی کا ایک نقشہ ہوتا ہے جس کے مطابق وہ کام کرتا ہے۔ ڈی این اے Deoxyribonucleic ایک پیچیدہ کیمیائی مرکب ہے جو شوگر اور فاسفیٹ کے ساتھ چار اور نسبتا اہم اجزاء سے نبتا ہے۔ یہ اجزاء
Adenine (A), Guanine(G), Cytosine (C),Thymine (T) کہلاتے ہیں۔ یہ اجزاء ایک دوہری بل کھاتی ہوئی سیڑھی کے اندر ایک دھاگے میں پروئے تسبح کی دانوں کی صورت میں ترتیب پاتے ہیں۔ انہی دانوں کی ترتیب کے فرق سے ڈی این اے معلومات سٹور کرتا ہے۔ انسانی ڈی این اے ان جیسے تقریباً تین ارب جوڑوں سے بنتا ہے۔ ان میں سے 99.9 فیصد کی ترتیب تمام انسانوں میں ایک جیسی ہوتی ہے، اور صرف 0.1 فیصد مختلف۔ یہی اختلاف انسانوں کے درمیاں شکل و صورت، رنگ، مزاج، ذہانت وغیرہ کے فرق کا سبب بنتا ہے۔ یہ 0.1 فیصد فرق single nucleotide polymorphisms یا SNPs کہلاتا ہے۔ دو افراد کے درمیاں SNPs کی جتنی زیادہ یکسانیت ہوگی، وہ اتنے ہی نسلی طور پر ایک دوسرے کے قریب ہونگے۔
ڈی این اے کے ذریعے نسل کے تعین کے ٹیسٹ میں سب سے پہلے فرد کے ڈی این اے سے SNPs کو الگ کیا جاتا ہے اور اس کی ترتیب کو واضح کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس ترتیب کا ڈیٹا بیس میں پہلے سے موجود دوسرے افراد کے SNPs کی ترتیب سے موازنہ کرکے دیکھا جاتا ہے۔ (اس وقت دنیا کے تقریباً 26 ملین لوگوں کا ڈیٹا آن لائن دستیاب ہے)۔ مثلاً چترال کا ایک بندہ اپنا ٹیسٹ کراتا ہے۔ اس کا SNPs نکال کر اس کا موزنہ دنیا کے مختلف جعرافیائی خطوں کے افراد جیسے یورپی، افریقی، عرب، وسط ایشیائی وغیرہ خطوں کے لوگوں کے ڈیٹا بیس سے کیا جائے گا۔ اس فرد کا ڈیٹا جس خطے کے افراد سے جس قدر مماثلت رکھے گا، ان کے آباء و اجداد کے ان لوگوں سے قریبی زمانے میں مشترک ہونے کا امکان اتنا زیادہ ہوگا۔
تیسرے مرحلے پر مثال کے طور پر چترال کے ایک باشندے کو نسلیاتی طور پر 76٪ وسط ایشیائی، 23٪ یورپی اور 1٪ افریقی نسل کا رپورٹ کیا جاتا ہے۔ یہ مرحلہ تجرباتی نہیں ہوتا بلکہ اس فرد کے ڈیٹا اور پہلے سے موجود ڈیٹا پر شماریاتی اور ریاضیاتی عمل کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی خاص پشت پر اس کا دادا وسط ایشیائی تھا اور دادی یورپی تھی۔ بلکہ یہ کہ اس کے SNPs کا 76٪ وسط ایشیائی میں رہنے والے لوگوں سے ملتا ہے اور 23٪ یورپ میں رہنے والوں سے۔
ڈی این اے کے ذریعے نسل کا پتہ چلانے کا ٹیسٹ ADT دو مقاصد کے لیے کیا جاتا ہے، ایک سائینسی تحقیق اور دوسرے اپنے آباء و اجداد میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے۔ تحقیقی کام کرنے والے ہمیشہ درست نتائج کی تلاش میں ہوتے ہیں اس لیے وہ تحقیق میں کسی چیز کو شامل کرنے یا نہ کرنے کے لیے کڑے معیارات کی پابندی کرتے ہیں۔ وہ اپنے حاصل کردہ نتائج کو بار بار جانچتے ہیں تاکہ یقینی بنایا جاسکے کہ ہر بار ایک ہی نتیجہ آتا ہے۔ ان کی تحقیق کے نتائج مقالے یا کتاب کی شکل میں سامنے آتے ہیں تو شائع ہونے سے پہلے کڑی جانچ پڑتال سے گزارے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تحقیقی کام کے نتائج بہت معیاری اور قابل اعتبار ہوتے ہیں۔ لیکن تجارتی بنیادیوں پر عام لوگوں کو ٹیسٹ کی خدمات مہیا کرنے والی کمپنیوں کا کام اتنا معیاری نہیں ہوتا۔ ان پر زیادہ خرچہ بھی نہیں آتا (امریکی کمپنیاں ٹیسٹ کے لیے اپنے شہریوں سے 100 ڈالر تک اور پاکستانیوں سے 500 ڈالر تک وصول کرتی ہیں)۔ پاکستان میں بھی کچھ لوگ یہ ٹیسٹ کرنے کا دعوےٰ کرتے ہیں اور بیرونی کمپنیوں کے لیے بھی یہاں سیمپل اکھٹے کرنے کی سہولت موجود ہے۔ لیکن مہارتوں کی کمی، معیارات کا کم خیال رکھنے اور دیگر وجوہات کی بناء پر ان کے نتائج اتنے یقینی نہیں ہوتے۔
اس ٹیسٹ کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ مثلاً چترال کے ایک فرد کا SNPs لے کر اس کا موازنہ کسی دوسرے علاقے کے کسی مخصوص فرد کے SNPs سے براہ راست کیا جائے۔ اس کے نتائج نسبتاً زیادہ قابل اعتبار ہوتے ہیں۔ اس طریقے سے دو افراد کے درمیاں نسلی تعلق معلوم کیا جاسکتا ہے ۔
SNPs کے موازنے کے علاوہ بھی اور طریقے ہیں جن سے کسی فرد کی جینیاتی تاریخ کا پتہ چلایا جاسکتا ہے۔ ان میں
Mitochondrial DNA Based Test
Autosomal Marker Based Test
اور
Other Non-recombining Y Chromosome Test
شامل ہیں۔ آگے ان کی ذیلی قسمیں ہیں جیسے
microsatellite based tests اور polymorphism based test وغیرہ۔
ان ٹسٹوں سے مادری اور پدری نسلی سلسلوں کی تحقیق، اولاد کے تعین اور علاقائی نسلیت کے تعین میں مدد ملتی ہے۔ اس میدان میں کام کرنے والے کچھ اداروں کے نام یہ ہیں:
African Ancestry
DNA heritage
DNA print
Oxford ancestors
Relative Genetics وغیرہ۔
حیاتیاتی سائینس کا یہ شعبہ نسبتاً نیا ہے اور اسے شروع ہوئے چند دہائیاں ہی ہوئی ہیں۔ اس شعبے میں تیزی سے دریافتیں ہورہی ہیں اور آگے چل کر اس میں ترقی کے مکانات بہت زیادہ ہیں۔
فیس بک پر تبصرے