مختلف الخیال عناصر پر مشتمل مثالی معاشرہ
مثالی معاشرے کی تشکیل کے لئے یہ ضروری نہیں کہ لوگ ایک ہی مزاج کے مالک ہوںبلکہ مختلف مسالک اور مختلف مزاج کے حامل افراد بھی باہمی تعاون سے پر امن ازندگی گزار سکتے ہیں ۔
مثالی معاشرے کی تشکیل کے لئے یہ ضروری نہیں کہ سماج میں بسنے والے لوگ ایک ہی مزاج ایک ہی مسلک کے پیرو کار اور ایک ہی ذہنیت کے مالک ہوںبلکہ مختلف مسالک کے پیروکار مختلف اذہان کے مالک افراد اور مختلف مزاج کے حامل افراد بھی باہمی تعاون سے پر امن اور مثالی زندگی گزار سکتے ہیں ۔اس کی ایک مثال ہمیں آج سے چودہ سو سال پہلے رسول کریم ۖ کے زمانے میںنظر آتی ہے ،اگر آج سے چودہ سو سال پہلے مختلف الخیال لوگ باہمی تعاون سے مثالی معاشرے کی تشکیل میں کردار اداکر سکتے ہیں تو پھر آج یہ بات شد و مد کے ساتھ کیوں کہی جاتی ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کا مل کر رہنا اور پر امن زندگی گزارنا بہت مشکل ہے ۔رسول کریم ۖ کے دور میں مختلف الخیال لوگوں کا باہم مل جل کر رہنے اور پر امن زندگی گزارنے کی ایک جھلک ملاحظہ ہو: ہجرت سے قبل مدینہ منورہ میں اوس و خزرج کے دو قبیلوں کے علاوہ یہود کے مختلف قبائل اور دیگرمشرکین آباد تھے گویا مدینہ مختلف عقائد، قبائل اور نسلوں کی آماج گاہ تھا۔ ہجرت کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اوراس اتحاد واتفاق کو قائم رکھنے کیلئے دنیا کا پہلا تحریری دستور وجود میں آیا۔ جس پر تمام باشندگانِ مدینہ کا اتفاق ہوا اور اس کی رو سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ کی پہلی اسلامی ریاست کا سربراہ تسلیم کیاگیا۔ یوں مدینہ میں ایک مختلف الخیال عناصر پر مشتمل ایسا معاشرہ وجود میں آیا جس میں میثاقِ مدینہ کی وجہ سے یہود، انصار، مہاجرین اور دوسرے قبائل ایک تنظیمی اتحاد میں شامل ہوگئے۔ اور سب ایک دوسرے کے وجود کا اعتراف کرنے لگے۔
ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی کتاب عہد نبوی میں نظامِ حکمرانی کے مطابق میثاق مدینہ دنیا کاسب سے پہلا تحریری دستور ہے۔ یہ تاریخ ساز میثاق دو حصوں میں تقسیم ہے۔ پہلاحصہ مسلمانوں کے باہمی تعلقات اور حقوق و فرائض کی نشاندہی کرتا ہے۔ جبکہ دوسرا حصہ اہل اسلام اور دیگر اہل مدینہ کے باہمی تعلقات، حقوق و فرائض اور دیگر امور کی وضاحت کرتا ہے۔ ایک دفعہ کے الفاظ یہ ہیں مسلمانوں کیلئے مسلمانوں کا دین اور یہودیوں کیلئے یہودیوں کا دین ہے یعنی مدینہ میں جتنے بھی لوگ بستے تھے ان کو دینی، عدالتی اور قانونی آزادی کا اختیار دلایاگیا تھا۔ تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کرلیجئے۔ اس سے بڑھ کر مفاہمت بین المذاہب کا وسیع عملی مظاہرہ دیکھنا کہاں نصیب ہوگا؟
عرب محقق اور سیرت نگار محمد حسین ہیکل حیاتِ محمدۖ میں میثاقِ مدینہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ وہ تحریری معاہدہ ہے جس کی بدولت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال قبل ایک ایسا ضابطہ، انسانی معاشرہ میں قائم کیا جس سے شرکا ء معاہدہ میں ہرگروہ اور ہرفرد کو اپنے اپنے عقیدہ و مذہب کی آزادی کا حق حاصل ہوا، انسانی زندگی کی حرمت قائم ہوئی،اموال کو تحفظ ملا اور شہر امن کا گہوارہ بنا۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غیرمسلموں کو مسجد میں ٹھہراتے۔ ان کو ان کے طریقہ پر مسجد میں عبادت کرنے کی اجازت دیتے۔ ایک مرتبہ نجران کے عیسائیوں کا وفد مدینہ آیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مسجد میں حاضر ہوا۔ اس وقت ان کی نماز کاوقت آگیا تھا۔ اس لئے انہوں نے مسجد ہی میں نماز شروع کردی۔ بعض مسلمانوں نے روکنا چاہا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع کردیا اور فرمایا نماز پڑھ لینے دو۔ چنانچہ عیسائیوں نے مسجد نبوی کے اندر اپنے طرز پر نماز پڑھی۔
ایک بار ایک یہودی کاجنازہ گذر رہا تھا۔ جنازہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم احترام آدمیت کی خاطر کھڑے ہوگئے۔اعتدال اور درمیانہ روی کے حوالہ سے اسلام کو دیگر مذاہب میں خاص امتیاز حاصل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف دنیاوی امور میں بلکہ دینی امور میں بھی اعتدال اپنانے کا حکم فرمایا ہے۔ایک بار تین صحابہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے وہ عبادت کے بارے میں جاننا چاہتے تھے کہ کس قدر عبادت کریں۔ ایک نے کہامیں ساری رات عبادت کروں گا اور آرام نہیں کروں گا۔ دوسرے نے کہا میں روزانہ روزہ رکھوں گااور کبھی ناغہ نہیں کروں گا۔ تیسرے نے کہا میں ساری عمر نکاح نہیں کروں گا اور شہوت پوری کرنے سے دور رہوں گا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالی سے ڈرنے والا اور زیادہ پرہیزگار ہوں۔ اس کے باوجود میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور بغیر روزہ کے بھی رہتا ہوں۔ نماز بھی پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں اورمیں نے نکاح بھی کئے ہیں۔ پس جومیرے طریقہ کے خلاف کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں۔
گذشتہ سطور سے یہ بات عیاں ہوگئی کہ دین اسلام امن و سلامتی، عدل و انصاف،اعتدال و درمیانہ روی، عفو و درگزر اور رواداری و عدم تشدد کا دین ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کوئی وقت تھا جب کہ اسلام اورمسلمان دونوں کاایک ہی مفہوم لیا جاتا تھا۔یعنی جو کچھ اسلام تھا وہی مسلمان کا عمل تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اسلام کا چرچا تھا۔ اس کی ترقی ہورہی تھی۔ لوگ اسلام اورمسلمانوں کواچھا دین اوراچھے پیروکار سمجھتے تھے۔اب اسلام اورمسلمان دونوں کا مفہوم الگ الگ ہوگیا ہے۔ یعنی اسلام کی تعلیمات اور مسلمان کے عمل و کردار میں ایک واضح فرق بلکہ تضاد سامنے آیا ہے۔ مسلمان مسلمان کے گریبان میں ہاتھ ڈالے ہوئے ہے۔مسلمانوں کے لئے یہ سوچ کا مقام ہے کہ پر امن معاشرہ کی تشکیل کے لئے اگر رسول کریم ۖ مختلف الخیال،مختلف المزاج اور مختلف اذہان کے لوگوں کے ساتھ مل کر رہ سکتے ہیں تو پھر ان کے امتی اور پیرو کا ر مختلف مکاتب فکر کے ساتھ مل جل کر پر امن کیوں نہیں رہ سکتے ؟
فیس بک پر تبصرے