ہمارا معاشرہ اور بے چارگی میں ڈوبا فرد

1,090

یہ بات طے ہے کہ جس معاشرے کے افراد میں اپنی ہستی اور ہونے کا احساس نہ ہو، وہ بے وقعت ہونے میں قباحت محسوس نہیں کیا کرتے ۔

ہمارا پاکستانی معاشرہ اس وقت قافلہ ء اقوام عالم کے ساتھ مستقبل کے سفر پر گامزن ہے۔مگر المیہ یہ ہے کہ ہم اس قافلے کی آخری ٹولی کے طور پر سفر کر رہے ہیں۔اس آخری ٹولی میں نہ ہمت ہے ، نہ حوصلہ اور طاقت ۔نتیجتاً اس معاشرے کے لوگ اقوام عالم سے خائف بھی ہیں اور حسد کا شکار بھی۔آگے بڑھ نہیں سکتے اور پیچھے رہنا گوارا نہیں کرتے۔

ہمارے معاشرے کے لوگ ایک عجیب سی خفت اور انفعالیت کا شکار ہیں۔اس خفت اور انفعالیت کا نتیجہ ہے کہ ہم باقی ماندہ دنیا کے معاشروں کے حوالے سے ایک غصے کا شکار بھی ہیں۔ جذبے اور احساس سے عاری ہم لوگ ، اپنے مہمل رویوں،سرد مہریوں ،کام چوریوں پر غور کرنے کی بجائے دنیا کے دیگر معاشروں کو گالی دینے اور استہزا اُڑانے کو اپنی کامیابی قراردے رہے ہیں۔مگر ان رویوں کے ساتھ نہ تو ہم آگے بڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی دنیا کی قیادت و سیادت سنبھال سکتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں یہ رویے کیوں پنپے؟اورعوامی سطح پر ایک بے حسی ،جموداور انفعالیت کیوں کر پیدا ہوئی ؟ان سوالوں کا جواب تلاش کرنا ہے تو ہمیں اپنے ماضی پر غور کرنا ہو گا کیوں کہ مستقبل کا ہر فیصلہ حال اور ماضی کے تجربات کی روشنی میں ہی ممکن ہے۔

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ماضی کے تجربات سے سیکھنے اور ان تجربات کی روشنی میں نئے فیصلے کرنا ایک مختلف عمل ہے اور ماضی کے احیاء کی کوششیں ایک مختلف عمل ہے۔

بد قسمتی سے پاکستانی معاشرے میں ماضی کے احیاء کی باتیں بہت عام ہیں۔ سماجی،  تہذیبی زندگی ہو،  یا ادارہ جاتی عمل اور کوشش،  ہم ہر جگہ ماضی کے احیاء کی بات کرتے ہیں۔  زندگی کو جدید ترین تناظر میں دیکھنے اور پرکھنے کی کوئی کوشش ہمارے ہاں نظر نہیں آتی۔  قصہ پرانا ہے۔

برصغیر میں جدید زندگی کا آغاز انگریزوں کی آمدکے بعد ہوا۔1857ء میں ہمیں زندگی کے بہت سے نئے اطوار کو ازسرنو طے کرنا پڑا۔ہمارے ہاں فرد نے ان نئے رویوں کو قبول کرنے میں نہ تو دیر کی،  اور نہ ہی کسی بڑی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا۔مگر عین اسی دور سے فرسودہ خیالات،  پسماندہ فکر اور مغالطوں کا شکار ایک ایسا ٹولہ منظم ہوا،  جس نے معاشرے میں فکری پسماندگی اور فکری مغالطوں کو عام کرنے کی کوششیں شروع کردیں اور بدقسمتی سے آج تک یہ کوشش نہ صرف جاری ہیں بلکہ ادارہ جاتی سطح پر کچھ غیر مرئی طاقتوں نے ان کوششوں کی  سرپرستی بھی کی ہے۔ان غیر مرتی طاقتوں نے ادارہ جاتی بدعنوانی اور فکری افلاس کو فروغ دیا۔اور فرد کی شناخت اور انفرادیت کو بری طرح مجروح کیا۔

یہ بات طے ہے کہ جس معاشرے کے افراد میں اپنی ہستی اور ہونے کا احساس نہ ہو،  وہ بے وقعت ہونے میں قباحت محسوس نہیں کیا کرتے اور نتیجتاً فردکے ہاں ایک ایسی بے حسی جنم لیتی ہے جسے وجود پائی سطح پر بیگانگی کہا جا تا ہے۔اس بیگانگی کی کوکھ سے جنم لیتی ہے لاتعلقی، ذات کے اثبات سے محرومی ، بے چارگی اور بے وقعتی ۔۔۔یہ صورت حال معاشرے کے لیے زہر قاتل ہے اور بدقسمتی سے اس وقت ہمارے معاشرے کے فرد کے ہاں بے چارگی اور بے وقعتی کا یہ احساس راسخ تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟

اس کا حل فرد کی انفرادیت اور شناخت کو بحال کرنے میں مضمر ہے ۔جب تک حکومتی اور سماجی ادارے فرد کا اعتماد بحال نہیں کرتے اس معاشرے میں تبدیلی اور تطہیر کا عمل شروع نہیں ہو گا۔

پھر سوال یہ بھی ہے کہ کیسے؟

سب سے پہلے قانون کی عمل داری سب کے لیے یکساں بنیادوں پر ہونا ضروری ہے۔

دوسری سطح پر فرد کو اظہار ذات کے مواقع میسر آنے چاہیں۔ادارہ جاتی سطح پر یہ طے کیا جانا ضروری ہے کہ پاکستانی معاشرے کی اکائی فرد ہے اور جب جب فرد یعنی اکائی کو مجروح کیا جائے گا پورا معاشرہ مجروح ہوگا۔

اظہار ذات کے یہ مواقع ہر سطح  پر اور ہر انداز کے ہوتے ہیں اور ہونے چاہییں کیوں کہ فرد بھی اپنی ذات کے حوالے سے مافوق الادراک  ہوا کرتا ہے۔وہ اپنی ذات،  اپنے جذبات اور احساسات کی سطح پر، کبھی بھی یکساں انداز اور ردعمل کا حامل نہیں ہوتا،  نہ ہوسکتا ہے۔ سو فرد کو اپنی ذات جذبے اور احساسات کے حوالے سے اظہارِ ذات کا موقع ملنا ضروری ہے۔تعلیم اورکھیل کے شعبے اظہار ذات کا سب سے بڑا وسیلہ ہیں۔

پہلی ترجیح کے طور پر حکومتی اداروں کو نصاب ، طرزِ تدریس اور استاد اور شاگرد کے رشتے میں انقلابی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔  اس کے ساتھ کھیلوں کے میدانوں کو آباد کرنا ہوگا۔کھیل صرف صحت کا لازمہ اور صحت کو برقرار رکھنے کا ذریعہ نہیں(یہ ہمارا  ٦٩  سالہ بیانیہ ہے جسے اب ترک کر کے نیا بیانیہ اختیار کرنے کا وقت آن پہنچا ہے) بلکہ فرد کی خفتہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور فرد کے ہاں اپنی ذات کے اثبات کی تلاش کا وسیلہ بھی ہیں۔ یہ فرد کی آزادی کو مہمیز کرتے ہیں۔یہ فرد کے ہاں بے پایاں اعتماد اور یقینِ ذات پیدا کرتے ہیںاور کشادگیء فکر و نظر کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں فرد کو ہر قدم پر تحدید اور جکڑبندیوں کا سامنا ہے ۔اس تحدیدکو توڑنے میں کھیلوں کے میدان ایک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

خام تاریخی شعور نے (جو ہمارے سلیبس کی دین ہے)ہمیں تہذیبی حوالے سے جو نقصان پہنچایا ہے اس کا ازالہ ضروری ہے۔ نہ تو ماضی کا احیا ممکن ہے اور نہ ہی ماضی کی تہذیبی اقدار اب زندہ ہو سکتی ہیں ،اب ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے۔ ماضی پرستی کے تصورات کو سلیبس سے خارج کرنا ہوگا اور ایک ایسا سلیبس مرتب کرنا ہوگا جس میں تعصبات،نفرتوں اور فکری مغالطوں پر اساس رکھنے والے موضوعات کو گنجائش نہ ملے بلکہ جس میں جدید عہد اور مستقبل کے مسائل سے ہم آہنگ ہونے اور نئی نسل کو پر امن اور خوبصورت مستقبل کی نوید دی جائے۔نوجوانوں کے دلوں میں خوابوں ، خوابناکیوں کو زندہ کرنا آج کا سب سے بڑا تقاضا ہے۔

دوسری طرف ہمارے قوانین وقت کے تقاضوں اور ضرورتوں کے مطابق نہیں رہے۔ہمارے قانونی ڈھانچے اور انصاف دینے والی عدالتوں میں رائج نظام فرسودہ تر ہوچکے ہیں۔ اس بات کا اظہار ڈیڑھ دو ماہ قبل چیف جسٹس آف پاکستان بھی کر چکے۔ عدم انصاف کی صورتِ حال نے بھی فرد کو بے چارگی اور لاتعلقی کی طرف دھکیل دیا ہے ۔ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ہم قوانین اور نظام عدل کے طریقہ کار پر ازسرِ نو غور کریں(یہ ذمہ داری لازمی طور پر معاشرے کے دانشوروں پر عائد ہوتی ہے اس حوالے سے باقاعدہ وسیع البنیاد تھنک ٹینک

کی ضرورت ہے کیوں کہ موجودہ حالات میں یہ ذمہ داری حکمرانوں کے گماشتوں اور بے حس اداروں کو نہیں سونپی جا سکتی ۔

پاکستانی معاشرہ اس وقت ایک اندھی کھائی کے کنارے پر پہنچ چکا ہے ۔سورج سوانیزے پر آچکا ہے ہمارے معاشرے کا بے چارگی میںڈوبا فرد کسی بھی وقت پلٹ کر اثبات ذات کی تلاش میں نکل سکتا ہے اور وہ لمحہ قیامت کا ہوگا ۔ بہتر ہے کہ ہم بروقت سنبھل جائیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...