عمران دقنیش….تم وہوا سے حلب کیسے پہنچ گئے؟
سب ہکا بکا میری طرف دیکھ رہے تھے….شام کے شہر حلب پر چھائی شام وہوا میں رات بن کر اُتر چکی تھی….
مَیں ڈیرہ غازی خان کے علاقے وہوامیں رہتا ہوں۔دُور کے ایک پرائمری سکول میں اُستاد ہوں۔چند سال اُدھر شادی ہوئی۔ایک بیٹاہے۔اپنا دوکمروں کا کچا پکا گھر ہے۔ایک کمرے میں ،مَیں میری بیوی اور بیٹا رہتے ہیں ۔ایک میں امی ابو۔بیٹا پہلی کلاس میں پڑھتا ہے۔مَیںنے اُسے اپنے سکول میں داخل نہیں کروایا۔اُدھر علاقے کے ایک پبلک سکول میں داخل کروایا ہے۔وہ سکول دوسرے بچوں کے ساتھ رکشہ پر آتا جاتا ہے ۔زندگی سکون سے گزررہی ہے ۔محدود خواہشیں ہیں ۔محدود ہی ضرورتیں ہیں ۔
لیکن کبھی دل بہت رنجیدہ ہو جاتا ہے ۔ملکی حالات افسردہ کردیتے ہیں ۔جب کبھی دہشت گردی کا واقعہ رُونما ہوتا ہے تو کئی دِن طبیعت اُداس رہتی ہے۔تاہم زندگی کے دن گزررہے ہیں۔لیکن ایک دن خبر آئی کہ لاہور سے ایک بچہ اغوا ہو گیا۔پھر جیسے جیسے دن گزرتے گئے ،بچوں کے غائب ہونے کی خبریں زیادہ ہوتی گئیں۔صورت یہ ہوئی کہ دوتین ہفتوں کے اندر اندر لاہور سمیت پنجاب کے کئی شہروں سے بچے غائب ہونے لگے اور میڈیا او ر سوشل میڈیا چیخ اُٹھا۔ہم سکول کے اُستاد جب خالی پیریڈ میں اکھٹے ہوتے تو اسی موضوع پر بات چیت کرتے اور اپنے اپنے اندازے لگاتے کہ بچے کہاں غائب ہورہے ہیں ،اُنہیں کون اغوا کررہا ہے؟پھراس بات پر خدا کا شکر ادا کرتے کہ ہمارا چھوٹا سا شہر اُن شہروں سے بہت دُور ہےجہاںبچے غائب ہورہے ہیں ۔مَیںسکول کے بعد جب گھر آتا اور رات کو نجی چینلز پر خبریں سنتا تو معلوم پڑتا کہ آج کے دِن کتنے بچے غائب ہوئے ہیں ۔جب یہ خبریں سن رہا ہوتا تو ایک نظر اپنے سوتے ہوئے بچے پر ضرور ڈالتا۔
سب کچھ ٹھیک جارہا تھا کہ ایک دِن ،جب مَیں سکول سے گھر آیا تو میری بیوی رُو رُو کر اپنا براحال کر چکی تھی،میرا ابا اماں کی حالت بھی غیر تھی۔یہ خبر کوہِ سلیمان کا ایک پہاڑ بن کر مجھ پر گری کہ میرا بیٹا سکول سے اپنے گھر کی گلی تک تو رکشہ پر آیا ،وہاں سے اُتر کر گھر نہیں آیا۔اس بات کو ایک گھنٹہ گزر چکا تھا۔مَیں نے سب کو حوصلہ دیا اور پورا محلہ اور علاقہ چھان مارا۔لیکن وہ کہیں نہیں تھا۔صبح وہ میرے سامنے چھوٹا سا سکول بستہ کندھے سے لٹکائے ،سکول گیا تھا۔میری بیوی نے اپنی موجودگی میں اُسے دیگر بچوں کے ساتھ رکشے پر بٹھایا تھا۔سکول میں بھی وہ دوسرے بچوں کے ساتھ داخل ہوا تھا ،پھر واپس بھی اُنہیں کے ساتھ آیا اور رکشے والے نے معمول کی طرح گلی کی نکڑ پر اُتارا۔پھر وہ کہاں چلا گیا؟اُس کوڈھونڈتے ڈھونڈتے شام ہو گئی۔مگر وہ کہیں نہیں تھا۔رات کو عشاءکے بعد تھانے میں رپورٹ درج کروائی۔
ایک ہفتہ گزر گیا۔اُس کا کہیں اَتا پتا نہیں تھا۔سب علاقہ چھان مارا۔مگر اُس کا کوئی سراغ نہیںمل رہا تھا۔ایک ایک لمحہ بھاری ثابت ہو رہا تھا۔مَیں سکو ل بھی نہیں جارہا تھا۔دروازے پر کوئی آہٹ ہوتی تو لگتا کہ وہ ابھی ہنستا ہوا اندر داخل ہو گا اور مجھ سے لپٹ جائے گا۔گذشتہ شام ٹی وی پر خبریں چل رہی تھیں ۔مَیں چارپائی پر لیٹا ٹی وی کی اُور دیکھ رہا تھا۔کیا خبریں چل رہی ہیں؟میرا تو اُس طرف کوئی دھیان ہی نہیںتھا۔لیکن پھراچانک مَیں چیخ کر اُٹھ بیٹھا۔میرابیٹا….میرابیٹا….میرابیٹا….میرابیٹا….مل گیا ….مل گیا ….مل گیا ….مل گیا ….مَیں پکارتا چلا گیا۔سب گھر والے جمع ہوگئے۔دیکھتے دیکھتے گلی محلے کے لوگ بھی آگئے۔مَیں چیخ رہا تھاکہ میرا بیٹا وہوا کی کچی پکی گلیوں سے شام کے شہر حلب میں کیسے پہنچ گیا،اغواکاراُسے وہاں کیسے لے گئے،وہ ایمبولینس کی سیٹ پر کیوں بیٹھا ہوا ہے ،اُس پر بم کس ظالم نے پھینکا،اُس کا چہرہ لہولہان کیوں ہے اور میڈیا والے اُس کا نام کیوں غلط لے رہے ہیں ….؟؟؟ سب ہکا بکا میری طرف دیکھ رہے تھے….شام کے شہر حلب پر چھائی شام وہوا میں رات بن کر اُتر چکی تھی….
فیس بک پر تبصرے