ائمہ و خطباءکی تربیت کا فقدان
سوال کے کوئی آداب نہیں کیونکہ اگر سوال کو آداب میں جکڑنے کی کوشش کریں گے تو وہ سوال نہ رہے گا اور سوال کا ایک خاص وقت ہوتا ہے۔
”منبر و محراب سے قوم کی توقعات“ کے عنوان سے گزشتہ کالم میں چند گزارشات پیش کی گئیں جسے تیز و تند تنقید کے باوجود احباب نے بے حد سراہا ‘ سو اسی جذبے کے پیشِ نظر چند گزارشات پیشِ خدمت ہیں۔
چند ایک خطباءکو چھوڑ کر اکثر خطباءکی حالت یہ ہے کہ وہ جمعة المبارک کے خطبہ کیلئے کوئی خاص تیاری نہیں کرتے ۔ جب منبر پر تشریف فرما ہوتے ہیں اور خطبہ شروع کرتے ہیں تو وہ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ سامنے سننے والے چونکہ قرآن و حدیث کے علم سے واقفیت نہیں رکھتے ‘ اس لیے جو جی میں آئے کہو۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ وہ لوگ جو کالج‘ یونیورسٹیز اور بیرون ممالک کے تعلیمی اداروں میں پڑھے ہوتے ہیں گو وہ قرآن و حدیث کا علم نہیں رکھتے لیکن عقل و دانش تو رکھتے ہیں اور شاید ہمارے مذہبی احباب سے زیادہ رکھتے ہوں۔ ایسے پڑھے لکھے، سمجھدار لوگ جب مولوی صاحب کو منبر پر بیٹھ کر کمزور باتیں کرتے سنتے ہیں تو صاف کہہ دیتے ہیں کہ یہ اسلام کی تعلیمات نہیں ہو سکتیں۔
خطیب کے پیشِ نظر یہ بات ہونی چاہئے کہ جو وہ کہہ رہا ہے وہ مخاطب کی نفسیات ‘ پسند ‘ نظریات‘ ذہنی سطح اور ضروریات کے مطابق ہو۔ مثلاً اکثر تعلیم یافتہ افرا دمعقول چیزوں کو پسند کرتے ہیں۔ ان کی یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ ہر بار انہیں نیا مواد ملے جو ان کے ذوق علمی کی تسکین کر سکے۔ جو خطیب ایسا کرے گا ‘ اسے سننا یہ لوگ پسند کریں گے اور جو انہیں رٹارٹایا مواد بار بار سنائے گا اس سے یہ دور بھاگیں گے۔ اہم بات یہ ہے کہ تقریر میں ربط کا ہونا بہت ضروری ہے۔ ہمارے اکثر مقررین میں یہ کمی دیکھنے میں آئی ہے کہ وہ ایک بات شروع کرتے ہیں ‘ پھر بات سے بات نکلتی جاتی ہے اور اصل موضوع درمیان میں ہی رہ جاتا ہے۔
اکثر خطباءاپنی تقریر میں عربی کی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں جو عام عوام کو کم کم ہی سمجھ آتی ہیں۔ اول تو سامعین میں سے کوئی بولتا نہیں ، اگر کوئی جرا
¿ت کرکے مولوی صاحب سے اس اصطلاح کے معانی پوچھ لے یا یہ کہے کہ آپ بہت مشکل اصطلاحات استعمال کرتے ہیں تو اس کی خوب کلاس لی جاتی ہے کہ تم مسلمان ہو اور تمہیں اس عام اصطلاح بارے علم نہیں ہے۔ ہمارے دینی مدارس اور مذہبی حلقوں میں سوال اٹھانے کو بے ادبی تصور کیا جاتا ہے۔ یعنی حضرت صاحب کا ادب مقدم ہے اور سوال پسِ پشت چلا جاتا ہے۔ ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ سوال کے آداب کیا ہیں؟ میرا جواب یہ تھا کہ سوال کے کوئی آداب نہیں کیونکہ اگر سوال کو آداب میں جکڑنے کی کوشش کریں گے تو وہ سوال نہ رہے گا اور سوال کا ایک خاص وقت ہوتا ہے۔ اگر اس وقت سوال کرنے پر پابندی عائد کر دی جائے تو ممکن ہے وہ شخص آئندہ سوال ہی نہ کرے۔ اس حوالے سے یہ تدبیر کی جا سکتی ہے کہ ممکنہ سوالات کے جوابات کی تیاری پہلے ہی سے کر لی جائے۔ بہترین طریقہ یہ ہے کہ سوال جواب کی نشست میں سوالات تحریری ہوں تاکہ کسی ناخوشگوار بحث سے بچا جا سکے۔ جس سوال کے جواب بارے یہ یقین ہو کہ اس پر بحث کرنے سے کوئی فتنہ پیدا ہو سکتا ہے یا پھر فساد کا خطرہ ہے ‘ اسے سامعین کے سامنے پیش نہ کیا جائے۔ اس کی بجائے آخر میں جو سوالات باقی رہ گئے ہیں‘ ان سوالوں پر الگ نشست میں انفرادی طور پر بات کی جائے۔
ہمارے ہاں خطباءمیں ایک بات کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتا اور وہ ہے وقت کی پابندی کی پروا نہ کرنا۔ اس حوالے سے اپنے مواد کا پہلے سے تجزیہ کر لیں کہ اگر تقریر طویل ہو جائے تو اس کے مواد میں سے کیا کیا چیزیں چھوڑ کر اسے مقررہ وقت میں مکمل کرنا ہے۔ اسی طرح اگر مواد جلدی ختم ہو جائے تو اس میں کیا کیا اضافی چیزیں ڈال کر اسے مقررہ وقت تک لے جایا جا سکتا ہے۔ اس بات کا خاص طور پر خیال کیا جانا چاہیے کہ آپ کا کام صرف اتنا ہے کہ احسن انداز میں سامعین تک بات پہنچا دی جائے۔ سامعین پر مسلط ہو کر زبردستی عمل کروانا آپ کے فرائض منصبی میں شامل نہیں۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ خطباءکی تربیت کے لیے کوئی خاص کورس‘ تربیت گاہ یا ادارہ نہیں ہے۔ اکثر خطباءدینی مدارس کے فضلاءہوتے ہیں، جن کے لیے درس نظامی کی ڈگری ہی کافی سمجھی جاتی ہے حالانکہ اگر دیکھا جائے تو خطابت انتہائی حساس معاملہ ہے۔ عالم فاضل بننے کے بعد سینئر علماءکی زیر نگرانی خطباءکی مکمل تربیت ہونی چاہیے کیونکہ خطباءدین کے متکلم سمجھے جاتے ہیں اور منبر و محراب کے اصل وارث خطباءکو ہی سمجھا جاتا ہے۔ چونکہ ہم ایک اہم مسئلہ کے حل کے لیے گفتگو کر رہے ہیں اس لیے مجھے ذاتی تجربے پہ مشتمل احوال لکھنے میں کوئی باک نہیں : ایک بڑے مفتی صاحب ایک مسجد میں جمعہ کا خطبہ دیا کرتے تھے۔ جب وہ سفر پر جاتے یا ان کی طبیعت خراب ہوتی تو وہ جمعہ کے خطبہ کے لیے مجھے بھیج دیا کرتے ۔ اس وقت میں بالکل ابتدائی درجات کا طالب علم تھا لیکن تھوڑی بہت تقریر کرنا جانتا تھا، اس لیے مفتی صاحب جمعہ کے خطبہ کے لیے مجھے بھیج دیا کرتے ۔ میرا کل علم اور جمع پونجی مفتی صاحب سے سنے ہوئے جمعہ کے خطبات تھے یا ان کے دروس قرآن۔ اس کے علاوہ ابتدائی درجے کے طالب علم کے پاس کیا علم ہو سکتا ہے۔ سو میں نے بھی مفتی صاحب کی طرح منبر پر بیٹھ کر لوگوں کی کلاس لینا شروع کر دی۔ چند ہی دنوں بعد لوگوں نے مفتی صاحب کو بتایا کہ ہم آپ کو سننے کے لیے آتے ہیں اور آپ کسی ادنی درجے کے طالب علم کو بھیج دیتے ہیں ‘ جب لوگ چلے گئے تو مفتی صاحب نے مجھے بلایا اور بڑے پیار سے پوچھا کہ آپ تقریر کس طرح کرتے ہیں اور اس میں کیا کہتے ہیں۔ میں چونکہ کم عمر تھا ‘ مجھے اصل بات کا پتہ نہ چلا ،سومیں نے بڑے شوخ انداز میں بتایا کہ حضرت جس طرح آپ اپنی تقریروں میںسخت لہجہ اختیار کرتے ہیں میں بھی ویسا ہی لہجہ اختیار کرتے ہوئے تقریر کرتا ہوں۔
مفتی صاحب نے جب میری زبانی سختی کے الفاظ سنے تو سوچ میں پڑ گئے اور فرمایا کہ تم جا سکتے ہو۔ خیر اس کے بعد انہوں نے مجھے کبھی جمعہ کے خطبہ کے لیے نہیں بھیجا ۔تھی ،یہ صرف میری کہانی ہی نہیں مجھ جیسے بیسیوں خطباءایسا ہی رویہ اختیار کرتے ہیں۔پہلے عرض کیا کہ خطباءکا کام احسن انداز سے پیغام پہنچا دینا ہے زبردستی مسلط کرنے یا منوانے کا ہمیں حق نہیں ہے ۔
فیس بک پر تبصرے