ہمارے فکری انتشار کی وجہ کیا ہے؟

981

جب صورت یہ ہو کہ ہمارے منبر و محراب، سیمینارز ، ٹی وی ٹاک شوز اور اخباری کالموں وغیرہ میں الفاظ اور اصطلاحات کی موسلادھار بارش ہورہی ہو لیکن نہ ان اصطلاحات کے معانی متعین ہوں نہ مفہوم تو ذہنی انتشار طوفانی ژالہ باری کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔

ہمارے ہاں دانش ورانہ گفتگوﺅں میں جو خاص الفاظ یا اصطلاحات عام طور پر استعمال ہوتے ہیں اگر ان کے معانی اور مفہوم متعین ہوں تو معاشرہ میں ذہنی انتشار وخلفشار کے پیدا ہونے کا امکان بہت کم ہوجاتا ہے۔ برعکس اس کے جب صورت یہ ہو کہ ہمارے منبر و محراب، سیمینارز ، ٹی وی ٹاک شوز اور اخباری کالموں وغیرہ میں الفاظ اور اصطلاحات کی موسلادھار بارش ہورہی ہو لیکن نہ ان اصطلاحات کے معانی متعین ہوں نہ مفہوم تو ذہنی انتشار طوفانی ژالہ باری کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ آئیے چند ایک الفاظ پر غور کرتے ہیں جو کہ آج کل ہر ایک کی زبان پر ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا ان کا کوئی متعین مفہوم بھی ہمارے ذہن میں ہے؟ پوری دنیا میں عام طور پر اور پاکستان میں خاص طو رپر استعمال ہونے والا لفظ” اِسلام“ ہے۔ اسلامی جمہوریہ سے لے کر لاہور میں ”اسلامک شہد“ تک وہ کون سی چیز ہے جس کے ساتھ ”اسلامی“ کا لاحقہ نہ لگایا جاتاہو۔ آپ عام لوگوں کو تو چھوڑیے بڑے بڑے دانشوروں سے پوچھ کر دیکھئے اس کا کوئی متعین مفہوم ان کے پاس نہیں ہوگا اور اگر کوئی مفہوم ہوبھی تو ایک کا دوسرے سے نہیں ملے گا۔ کسی کے پاس کوئی ایسا معیار ہی نہیں ہوگا جس سے اسلامی اور غیر اسلامی میں تفریق ہوسکے۔

اپنی اِس خامی کو چھپانے کے لیے اور اِس الجھاﺅ کو سلجھانے کے لیے ہم ایک اور اصطلاح ”کتاب و سنت“ کا سہارا لیتے ہیں کتاب سے مراد قرآنِ مجید ہے لیکن ”سنت“ کی اصطلاح جس قدر مقدس ہے اتنا ہی اس کا مفہوم غیر متعین ہے۔ بعض کے نزدیک ہر حدیث سنت ہے۔ بعض کے نزدیک حضورِ اکرم کے صرف وہ اعمال ہیں جو آپ نے رسول کی حیثیت سے التزاماً سرانجام دیے۔دُشواری یہ ہے کہ حدیث کا کوئی ایسا مجموعہ نہیں ہے جس میں نشان دہی کی گئی ہو کہ حضورنے فلاں کام رسول کی حیثیت میں التزاماً کیا تھا اور فلاں پرسنل حیثیت سے۔ نیز ”کتاب وسنت“ کی اصطلاح میں یہ بھی طے نہیں ہے کہ دونوں کا آپسی تعلق کیا ہے۔ اِن دونوں میں قرآن کی حیثیت فائق ہے یا حدیث قرآن پر قاضی ہے۔ یہ عام اصطلاحات نہیں ہیں جو صرف دانش وروں اور اسلامی سکالروں کی نوکِ زبان پر ہوں۔ یہ اصطلاحات آئینِ پاکستان کا بھی ایک طرح سے حصہ ہیں اور کیا یہ تعجب انگیز نہیں کہ ان کا کوئی متعین مفہوم وفاقی شرعی عدالت یا سپریم کورٹ کے پاس بھی نہ ہو۔

مندرجہ بالا مسئلے کا حل یہ بتایا جاتا ہے کہ فقہ کے قوانین نافذ کردیے جائیں۔ ہمارے مختلف فرقوں (شیعہ سنی) کی مختلف فقہیں ہیں اور اہلِ حدیث تو کسی فقہ ہی کے قائل نہیںہیں۔

ان ناقابلِ تردید حقائق کے ہوتے ہوئے یہ مطالبہ برابر کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں اسلامی قوانین نافذ کئے جائیں۔ ان قوانین کا نتیجہ کیا ہوگا آپ خود تصو ّر کرسکتے ہیں۔ ایک اور اصطلاح ہے ”نظریہ

پاکستان“ تشکیلِ پاکستان سے لے کر آج تک جتنی بار اس اصطلاح کو دہرا یا گیا ہے اس کا شمار ممکن نہیں ہے۔ یہ نظریہ کیا ہے اور اس کا متعین مفہوم کیا ہے؟ کوئی نہیں بتائے گا۔ نظریاتی سرحدوں کا واویلا تو بہت ہوتا ہے اوریہ بھی کہ اس کرہ

ارض پر پاکستان واحد ملک ہے جو آئیڈیالوجی کی بنیاد پر وجود میں آیا۔ سرتسلیم خم ہے لیکن یہ تو بتایا جائے کہ یہ آئیڈیالوجی کیا تھی یا کیا ہے۔ کیا مملکت کی طرف سے یا اس کے کسی آئینی ادارے کی طرف سے کبھی متعین مفہوم بتایا گیا ہے؟ لاہور میں نظریہ

¿ پاکستان ٹرسٹ اور اسلام آباد میں قائد ِاعظم ٹرسٹ جیسے ادارے جن کو مملکت سالانہ اربوں روپے کے فنڈز مہیا کرتی ہے کیا وہ بھی اس کا مفہوم متعین کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں؟ یا یہ صرف چند ریٹائرڈ بیوروکریٹس کی وقت گذاری کا ذریعہ ہیں۔

آپ اسے ایک نظری سوال سمجھ رہے ہوں گے لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس نظریہ کی مخالفت کرنے والوں کو مملکت کا غدار تصو ّر کیا جائے گا۔اور غداری کی سزا کا آپ کو معلوم ہی ہے۔ سرِ تسلیم خم! لیکن یہ تو بتایا جائے کہ نظریہ

¿ پاکستان ہے کیا؟ یہ تو قانون کا ابتدائی تقاضا ہے جس کا پورا کیا جانا ضروری ہے۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو فکری پریشانی اور انتشار میں اضافہ ہوتا جائے گا جس سے نوجوان طبقہ بری طرح متاثر ہورہا ہے۔

 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...