سوچنا چھوڑ دوں کیسے میں بھلا جیتے جی
بات یہ ہے کہ خدانے انسان کو صاحبِ ارادہ و اختیار بنایا اور عقل دی تاکہ وہ اپنے فیصلے سوچ سمجھ کر سکے اور ان فیصلوں کے لئے بجا طور پر ذمہ دار بھی ٹھہرایا جا سکے
یہ بات کون نہیں جانتا کہ آج کا مسلمان طرح طرح کے مسائل میںالجھ کر اپنی تاریخ کے بدترین دور میں سے گزر رہا ہے لیکن کیا کسی کو ان مسائل کی وجہ اورحل کے بارے میںبھی کچھ معلوم ہے؟ یہ تو سبھی بتاتے ہیں کہ ہمارے زوال کی وجہ یہ ہے کہ ہم اچھے مسلمان نہیں رہے لیکن کوئی یہ بھی بتا سکتا ہے کہ اچھا مسلمان کہتے کسے ہیں؟
عام طور پر اچھا مسلمان اسے سمجھا جاتا ہے جو اﷲ کا ہر حکم دیکھے سنے (یعنی سوچے سمجھے ) بغیر ماننے کو تیار ہو لیکن قرآن کہتا ہے کہ ”مومنین وہ لوگ ہیں کہ جب ان کے سامنے خدا کی آیات بھی پیش کی جائیں تو وہ ان پر بھی اندھے اور بہرے بن کر نہیں گرتے” (/73الفرقان)۔
ذرا سوچیے کہ اگر ”الف” ”ب” کے برابربھی ہو اور ”ت” کے بھی، تو کیا ”ب” اور ”ت” بھی برابر نہیں ہوں گے؟قرآن میں ایک مقام پر آیا ہے کہ ”خدا کے نزدیک بدترین مخلوق وہ لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے ” (/22الانفال) اور دوسرے مقام پر آیا ہے کہ ”خدا کے نزدیک بدترین مخلوق وہ لوگ ہیں جو ایمان نہیں لاتے ” (/55الانفال) ۔ کیا اس سے یہی مطلب نہیں نکلتا کہ خدا کے نزدیک” عقل سے کام نہ لینا” یا ”ایمان نہ لانا” ایک ہی بات ہے؟
بات یہ ہے کہ خدانے انسان کو صاحبِ ارادہ و اختیار بنایا اور عقل دی تاکہ وہ اپنے فیصلے سوچ سمجھ کر سکے اور ان فیصلوں کے لئے بجا طور پر ذمہ دار بھی ٹھہرایا جا سکے۔ قرآن کہتا ہے ”خدا نے انسان کو دیکھنے سننے (یعنی سوچنے سمجھنے) کی صلاحیت دی اور اسے درست راستہ دکھا دیا۔ اب انسان کا جی چاہے تو اس راستے کو اختیار کر لے اور اس کا جی چاہے تو اس راستے سے انکار کر دے” (3،2/الدھر)۔
حیوان کو صاحبِ ارادہ و اختیار نہیں بنایا گیا اور عقل نہیں دی گئی کہ جسے اپنے فیصلے خود کرنے کا اختیار ہی حاصل نہیں اسے عقل کی کیا ضرورت؟ قرآن کے بقول ”یفعلون مایومرون” انہیں جو کچھ حکم دیا جاتا ہے وہ اس کی تعمیل کرتے ہیں(50/النحل) ”وھم لا یستکبرون” اور انہیں اس بات کا اختیار ہی نہیں دیا گیا کہ وہ من مانی کریں اور احکام الہی سے سر کشی برتیں (49/النحل)۔
انسان اور حیوان میں بنیادی فرق ہی عقل کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو انسان عقل سے کام نہیں لیتا اسے قرآن حیوان بلکہ حیوان سے بھی بدتر قرار دیتا ہے کہ حیوان کم از کم اپنے جبلّی تقاضوں کو تو پورا کرتاہے ۔ قرآن کہتا ہے کہ ”اکثر انسان جہنمی ہیں کہ انہیں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دی گئی پھر بھی یہ نہ سوچتے ہیں نہ سمجھتے ہیں ۔ انہیں دیکھنے سننے کی صلاحیت دی گئی پھر بھی یہ نہ دیکھتے ہیں نہ سنتے ہیں۔ یہ (لوگ انسان نہیں) حیوان ہیں بلکہ حیوانوں سے بھی بھٹکے ہوئے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو غفلت کی زندگی گزار رہے ہیں ” (179/الاعراف، 44/الفرقان)” جب ان لوگوں کو جہنم میں ڈالا جائے گا تو یہ کہیں گے کہ اگر ہم عقل سے کام لیتے تو آج جہنم میں نہیں ہوتے” (10/الملک)۔ا قرآن اسلئے نازل کیا گیا کہ لوگ عقل و فکر سے کام لے سکیں (/29ص، /3الزخرف وغیرہ)قرآن میں حقائق کو بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے تاکہ لوگ عقل و فکر سے کام لیں اور ان حقائق کو سمجھیں (/242البقرة، /118ال عمران، /151الانعام، /2یوسف، /67النحل وغیرہ ) قرآن میں خدا مثالوں سے بات واضح کرتا ہے اور اسے اہل عقل و فکر ہی سمجھ سکتے ہیں (/43العنکبوت، /58,59الروم) قرآن نازل ہی اہل عقل و فکر کیلئے کیا گیا (/3حم السجدة، /52ابراھیم)
قرآن کہتا ہے کہ عقل و فکر سے کام لیا کرو (/44البقرة، /65 ال عمران، /32الانعام، /169الاعراف، /16یونس، /51ھود، /109یوسف وغیرہ) قرآن پر غور و فکر کیا کرو (/82النساء ) اپنے آپ پر غور و فکر کیا کرو (/8الروم) تخلیق انسانی پر غور و فکر کیا کرو (/20,21الروم، /67المومن وغیرہ) مظاہر فطرت پر غور و فکر کیا کرو (/164البقرة، /190ال عمران، /99الانعام، /185الاعراف، /5,6,67یوسف، /3,4الرعد وغیرہ)۔
حضور اکرم ۖ نے فرمایا کہ ”اﷲ تعالیٰ نے جب عقل کو پیدا کیا تو اس سے فرمایا کہ میں نے کوئی مخلوق تجھ سے بہتر، افضل اور خوبصورت پیدا نہیں کی۔ میں تیرے سبب لوں گا، تیرے سبب دوں گا، تیرے سبب پہنچانا جائوں گا، تیرے سبب ناراض ہوں گا، تیرے سبب ثواب ہو گا اور تجھ پر ہی عذاب ہو گا ”(مشکوة۔ کتاب الاذان) ”آدمی نمازی، روزہ دار، زکوة دینے والا، حج اور عمرہ کرنے والا ہوتا ہے (یہاں تک کہ آپۖ نے سارے نیک کام گنائے) لیکن قیامت میں اسے اس کی عقل کے مطابق ہی جزا دی جائے گی”(مشکوة۔ کتاب الاذان) ۔
قرآن کی رو سے عقل اور ایمان ایک دوسرے کے لئے اسطرح لازم و ملزوم ہیں جس طرح آنکھ اور اجالا ۔ اجالا وہی دیکھ سکتا ہے جسکی آنکھ کھلی ہو اور ایمان وہی لا سکتا ہے جو عقل سے کام لیتا ہو ۔ ایک آیت کا یہی ایک ٹکڑا دیکھ لیجئے کہ ”اے عقل و فکر سے کام لینے والو یعنی وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو”(10/الطلاق)،کیااس سے بھی یہ حقیقت بالکل واضع نہیں ہو جاتی کہ اہل ایمان تو عقل استعمال کرنے والے لوگ ہی ہو سکتے ہیں؟
قرآن کی رو سے ایمان ہو تا ہی وہی ہے جو سوچ سمجھ کر لایا جائے ۔ اسی لیے قرآن وراثت میں ملنے والے اسلام کو تسلیم نہیں کرتا اور پیدائشی مسلمانوں سے بھی یہ کہتے ہوئے ایمان کا تقاضا کرتا ہے کہ ”اے ایمان والو! ایمان لائو خدا پر اور اسکے رسولۖ پر اور قرآن پر اور اس سے پہلے نازل کی گئی سب کتابوں پر ” (/136النسائ) ۔ اس آیت میں ظاہر ہے کہ خدا نے ”اے ایمان والو” کہہ کر ان لوگوں کو مخاطب کیا ہے جو نام کے مسلمان توہیں لیکن کام کے نہیں (ورنہ جو ایمان لا چکاہو اس سے دوبارہ ایمان کے تقاضے کا کیا مطلب؟ )یعنی یہ لوگ اسلیے مسلمان ہیں کہ انکے باپ دادا مسلمان تھے۔ اسطرح کے مسلمانوں اور ان غیر مسلموں میں کیا فرق ہے جو اسلئے غیرمسلم ہیں کہ انکے باپ دادا غیرمسلم تھے؟
قرآن پیدائشی مسلمانوں اورپیدائشی غیر مسلموں کو ایک ہی آنکھ سے دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ ”وہ لوگ جو ایمان لائے یا جو یہودی ہیں یا جو عیسائی ہیں یا جو صابی ہیں ان میں سے جو کوئی بھی خدا اور آخرت پر ایمان لائے گا اور اچھے کام (یعنی قرآن کی اطاعت) کرے گا اسکا صلہ اسکے رب کے پاس ہو گا اور اسکے لیے نہ کوئی خوف ہو گا نہ کوئی حزن” (/62البقرة)۔
فکروتدبّر اسلامی تعلیمات کا خلاصہ ہے اسی لیے تو خدا کہتا ہے کہ اے محمدۖ انہیں کہہ دو کہ میں تمہیں صرف ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں اور وہ ایک بات یہ ہے کہ تم غور و فکر کیا کرو (/46سبائ)۔
قرآن میں صلوة سے بھی زیادہ غوروفکرکی تلقین کی گئی ۔ سات سو کے قریب آیات ایسی ہیں جن میں صلوة قائم کرنے کی تاکید کی گئی جبکہ ساڑھے سات سو کے لگ بھگ ایسی ہیں جن میں عقل کے استعمال پر زور دیا گیا۔”اقیم الصلوة” سے صلوة فرض ہو گئی تو ”ثم تتفکرو” سے غوروفکر کیوں فرض نہیں ہوئی؟
اس بات میں شک و شبہے کی کوئی گنجائش ہی نہیں کہ قرآن میںسب سے زیادہ زور عقل کے استعمال پر دیا گیا،قرآن کی رو سے فکروتدبّرمسلمان کا اولین فریضہ ہے اور یہی اسکے تمام مسائل کا حل بھی ہے۔
سوچنا چھوڑ دوں کیسے میں بھلا جیتے جی
سوچنا چھوڑ دے انسان تو مر جاتا ہے
فیس بک پر تبصرے