مہنگائی ، لوڈ شیڈنگ ، گرمی، احتجاج، خوف اور بے یقینی۔۔

767

ہم ڈیڑھ دو سو برس پہلے ہی بادشاہوں کے ہاتھیوں کے قافلوں کا نظارہ کر نے والی قوم تھے ۔ سو مختصر سے اس فعال دو ر میں اتنے بہترین دماغ پیدا کرنا ناکامی نہیں ہے ۔

کمزور ریاستوں کی فہرست میں پاکستان کا تذکرہ تو آتا ہی تھا لیکن پچھلے برسوں میں کئی ’’ معتبر ‘‘ اداروں کی رپورٹ میں بھی وطن عزیز کو ناکام ریاستوں کی فہرست میں شامل کیا جا رہا ہے ۔ یعنی جدید دنیا کا ایک بڑا حصہ ہمیں معیشت ، حکومت ، قانون اور اس کی عملداری سے لے کر عوام کے جان و مال کے تحفظ تک میں ناکام تصّور کرنے لگ پڑا ہے ۔
مایوسی غالب آتی ہے ۔۔۔
شاید اس سے بھی بڑی آزمائشیں آنے کو ہیں ۔۔۔آزمانے کو ہیں !
مگر یہ ماہ اگست ہے ۔۔۔بڑی آزمائشوں اور عظیم امتحانوں سے نکلنے کی گھڑی …..
سو تصویر کا خوشگوار پہلو بھی ہے ۔
ہم ایک دفعہ ٹوٹ کر بھی عالمی نقشے میں ’’ قدرتی اعزاز ‘‘ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔
ملکی سطح پر ہی سہی ، کئی کامیابیاں سمیٹ چکے ہیں ۔
پچھلے کئی عشرے، ترقی کی رفتار میں مثالی اضافہ رہا ہے ۔
دفاع، تجارت ، صنعت اور زراعت میں بہت کچھ اچھا تھا ، اور اب بھی ہے ۔
ایٹمی صلاحیت کے ساتھ ساتھ ’’ امت مرحومہ ‘‘ میں اپنا سیاسی کردار بھی ۔۔۔
زیادہ عرصہ بھی نہیں بیتا ۔۔۔
ہم ڈیڑھ دو سو برس پہلے ہی بادشاہوں کے ہاتھیوں کے قافلوں کا نظارہ کر نے والی قوم تھے ۔ سو مختصر سے اس فعال دو ر میں اتنے بہترین دماغ پیدا کرنا ناکامی نہیں ہے ۔
ادب ، آرٹ ، کھیل ، سائنس اور مذہب میں بڑے بڑے نام۔۔۔ جھنڈیاں لہراتی ہیں تو گرمی کے باوجود موسم خوشگوار لگتا ہے ۔
لہراتے چاند تارے میں دُکھ بھری بیل گاڑیوں سے جیل گاڑیوں تک وہ محبتیں اور رفاقتیں دکھائی دیتی ہیں جو وہ چھوڑ آئے ۔۔۔وہ صعوبتیں اور محرومیاں دکھائی دیتی ہیں جو انہیں یہاں ملیں ۔۔۔عقیدے اور وطن کی محبت سے لبریز۔۔۔ لاکھوں کے ان قافلوں کا وہ سفر کہ جو صبر ، قربانی اور ایثار کی قربانیوں سے بھرا پڑا ہے ۔۔۔ کہانیوں سے بھرا پڑا ہے ۔۔۔
آزادی کے پچیس تیس برس بعد ہی پوری اسلامی دنیا کے سربراہوں نے اسی نگر ی میں یکجا ہو کر ہمیں ’’کامیاب ترین ریاست ‘‘ کی ڈگری دی تھی
خیال بھٹکتے ہیں ۔۔۔ آوارہ جگنوؤں کی طرح !
اگر چہ جدید عہد نے نظام ایسا بنا دیا گیا ہے کہ کمزور ریاستیں خواہش کے باوجود ستراسّی فیصد عوام کے دکھ اور محرومیاں نہیں بدل پا رہیں۔۔۔
اور جدید عہد کا المیہ ہے کہ چند سو شر پسندوں کی خاطر لاکھوں لوگوں کو گھر بار چھوڑنا پڑتا ہے تو وہیں اس عہد کی ایک انفرادیت یہ بھی تو ہے کہ نظام بنا نے و الوں کو اپنے فیصلے واپس لینے پڑتے ہیں ۔۔۔ قاضیوں اور منصفوں کے بہتر انتخاب کیلئے لاکھوں لوگ باہر نکل آتے ہیں۔۔۔ سازشوں اور دشمنوں میں گِھری یہ ریاست تما م تر مشکلات کے باوجود دفاعی معاملات پر سمجھوتہ نہیں کر پائی ہے۔۔۔ دنیا کی ایک سپر پاور کو شکست دے چکی ہے۔۔۔ روشن خیالی کیسی بھی ہو ۔۔۔ مسجدیں آباد ہیں اور چادر چار دیواری کا تقدس موجود ہے ۔ خود کش حملہ آوروں کی اطلاع کے باوجود سیکورٹی گارڈ اعتماد سے دروازے پر تلاشی لیتے ہیں اور موجودہ سپر پاور کے تمام تر دباؤ کے باوجود یہ ریاست ’’ شرارتی‘‘ پڑوسیوں سے تعلقات منقطع نہیں کر پا رہی۔۔۔
ہم یہ یوم آزادی اسی خود داری کے حصار میں دیکھتے ہیں۔
کاش یہ دن ’حصار‘ میں نہ ہوتا ، ’ہالے ‘میں ہوتا ۔ مگر آج کے ماند کل کے چاند بھی بن سکتے ہیں ۔۔۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...