آزادی کا سورج آدھی رات اور نجومی

877

ہندو نجومیوں اور جیوتشیوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور ہندو عوام کی توہم پرستیوں کو متوجہ کر لیا۔ یہاں تک کہا جانے لگا کہ ہمیں غلامی قبول ہے لیکن یہ منحوس تاریخ 15 اگست قبول نہیں۔ نہرو کو اس وقت کے سر کردہ نجومیوں سے خفیہ ملاقات کر کے مطمئن کرنا پڑ گیا

15 اگست 1945 ء کو دو ایٹم بم گراے جانے کے بعد جاپان نے ہتھیار پھینک دیے تھے۔ ماؤنٹ بیٹن اس وقت جنوب مشرقی ایشیاء کمانڈ کا سپریم الائیڈ کمانڈر تھا۔ 15 اگست 1945 ء کو اس نے جاپان کا سرینڈر سنگا پور میں قبول کیا۔ وہ اسے اپنے لیے بہت بڑا اعزاز سمجھتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے ہندوستان کو آزاد کرنے کے لیے 15 اگست کا انتخاب کیا۔ جنوبی کوریا جو کہ اس وقت جاپان کی کالونی تھا بھارت کی طرح 15 اگست ہی کو جشن آزادی مناتا ہے۔
15 اگست 1947ء کو جاپان کے ہتھیار پھینکنے کی دوسری اینی ورسری تھی جسے یادگار بنانے کے لیے ہندوستان کو آزاد کرنے کے لیے یہی تاریخ چنی گئی۔جب ہندو جوشتیوں اورنجومیوں کو اس کا معلوم ہوا تو انھوں نے زائچے بنانے شروع کر دیے۔ان کے جیو تش کے علم کے رُو سے 15 اگست منحوس اور نا مبارک ثابت ہو رہی تھی۔ نتیجہ کے طور پہ ہندو نجومیوں اور جیوتشیوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور ہندو عوام کی توہم پرستیوں کو متوجہ کر لیا۔ یہاں تک کہا جانے لگا کہ ہمیں غلامی قبول ہے لیکن یہ منحوس تاریخ 15 اگست قبول نہیں۔ نہرو کو اس وقت کے سر کردہ نجومیوں سے خفیہ ملاقات کر کے مطمئن کرنا پڑ گیا۔ کے۔ این راؤ نے اس موضوع پر کافی کچھ لکھا ہے۔ ان کے مطابق دو نجومیوں ہر دیو جی اور سریا نارائن نے بابو راجندر پرشاد سے جو کہ بعد میں بھارت کے صدر بنے ملاقات کر کے بتایا کہ علم نجوم کے رو سے 15 اگست نحس ہے۔ یہی وجہ تھی کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو متبادل تاریخیں بھی تجویز کی گئیں۔ لیکن ماؤنٹ بیٹن نے کسی کی ایک مانی کیونکہ 15 اگست اس کی پسندیدہ تاریخ تھی۔ البتہ یہ اس نے اجازت دے دی کہ 15 اگست کے جس گھنٹہ کو سعد اور مبارک سمجھا جاے اقتدار کی منتقلی کی رسم کے لیے منتخب کر سکتے ہیں۔ اس پر ہندو نجومی ہردیو نے 14 اور 15 اگست کی آدھی رات کاوقت تجویز کیا۔ سر وڈ رو ر ائٹ نے ٹائمز لندن کے ایک ا یڈیشن میں اس بات کا تذکرہ کیا ہے۔ ہندو کیلنڈر کے رُو سے تاریخ سورج نکلنے کے ساتھ تبدیل ہوتی ہے۔ جبکہ انگریزی کیلنڈر کے مطابق رات 12 بجے کے بعد بدل جاتی ہے اور قمری کیلنڈر کا تعلق چاند کے نکلنے کے ساتھ ہے۔ اسی لیے مسلمانوں کے نزدیک 14 اگست کی شام سے 27 رمضان شروع ہو رہی تھی جو کہ ان کے لیے بہت تقدس کی حامل تھی۔
ہندو جیوتشیوں کے مطابق اقتدار کی منتقلی کا وقت “ابھیجیت مہورت” کے قریب قریب ہونا چا ہیے تھا جو کہ رات کے ساڑھے گیارہ بجے سے سوا بارہ بجے کا دورانیہ بنتا تھا۔ اقتدار کی منتقلی کی تقریب میں نہرو کو اس بات کا بھی پابند کیا گیا کہ ان کی تقریر 12 بجے تک ختم ہو جانی چاہیے ۔کے۔ این راؤ کا ایک مضمون شایع ہو ا ہے جس میں اس نے عنوان جمایا ہے” نجومیوں نے ہندو قوم کو بچا لیا”۔ ان کے خیال میں پاکستان پر جو قیامتیں ٹوٹیں جیسے قائد کا جلد فوت ہو جانا ملک کا ٹوٹ کر دو ٹکڑے ہو جانا اور مارشل لاؤں وغیرہ کا شکار ہونا اسی باعث تھا کہ پاکستان نے بھارت سے بہت سے گھنٹے پہلے اقتدار کی منتقلی کی تقریب قبول کر لی۔ گویا ہندو نجومیوں کے نزدیک اصل تقریب اقتدار کی منتقلی ہی تھی۔ ویسے نہرو نے وزیر اعظم کے لیے اورماؤنٹ بیٹن نے گورنر جنرل بھارت کے لیے حلف 15 اگست ہی کو اٹھایا۔ادھر پاکستان، کراچی میں قائد اعظم اورلیاقت علی خان نے بھی 15 اگست ہی کو حلف اٹھاے۔
لارڈ ماؤنٹ بیٹن 13 اگست کو کراچی رات کے کھانے پر مدعو تھے۔ 14 اگست 1947کو پاکستان کی مجلس دستورساز سے خطاب کیا اور بادشاہ سلامت برطانیہ کا پیغام دیا۔ بعد میں قائد اعظم نے تقریر کی۔ تقریروں کے بعد پاور ٹرانسفر کی رسم ہوئی۔ مشہور کتاب “آزادی آدھی رات کو” کے مصنف نے ماؤنٹ بیٹن کی بطور وائسراے آخری رپورٹ کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ 14 اگست کو کراچی میں پاکسان کو اقتدار منتقل کرنے کی تقریب میں شرکت کے بعد دوپہر کے وقت دہلی واپس پہنچ گے تھے۔ جہاں انھوں نے آدھی رات کو بھارت پاور ٹرانسفر کی تقریب میں شامل ہونا تھا۔
پاکستان نے شروع شروع میں چند ایک سال 15 اگست ہی کو یوم آزادی منایا۔کیونکہ تیکنیکی اور قانونی حوالے سے یہی درست تھا۔ لیکن بعد میں 14 اگست کو اقتدار کے انتقال کی بنیاد پر یوم آزادی کے طور پر اپنے لیے مخصوص کر لیا۔ اور اس بات کو اب کم و بیش 65 برس ہونے جا رہے ہیں۔کے کے عزیز کے
اتباع میں کچھ یار لوگ اسے تاریخ کا قتل اور پتا نہیں کیا کیا کہنے لگے ہیں جو کہ ہمارے خیال میں قرین انصاف نہیں ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...