النصرہ فرنٹ اب نئے روپ میں

1,014

تنظیم کے سربراہ ابومحمد جولانی کے مطابق ’’ وہ شامی عوام کی خواہش اور مفاد کی خاطر ایمن الظوہری سے اپنی بیعت ختم کر کے نئی جماعت تشکیل دے رہے ہیں

سلفی فکر سے وابستہ جہادی تنظیم النصرہ فرنٹ نے اپنا نام تبدیل کرتے ہوئے فتح الشام فرنٹ رکھ لیا ہے جس کے فوراًبعد ہی مزاحمت کاروں کی طرف سے شامی فوج پر حملے بھی تیز ہو گئے ہیں،تازہ ترین اطلاعات کے مطابق مزاحمت کاروں نے ایک روسی ہیلی کاپٹرمار گرایا ہے جس کے نتیجے میں پانچ روسی فوجی بھی ہلاک ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ شامی سرکاری فوج کی 10 سے زیادہ بکتر بند گاڑیوں کو تباہ اور کئی ٹینکوں پر قبضہ بھی کرلیا ہے۔ لڑائی میں سرکاری فوج کے درجنوں اہل کاروں کے علاوہ حزب اللہ اور ایرانی پاسداران انقلاب کے افسران بھی مارے گئے جب کہ متعدد فوجیوں کو قیدی بنا کر انقلابیوں نے حلب کے مغربی علاقے کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے،مزاحمت کاروں کا مقصد ہے کہ وہ حلب اور دمشق کو ملانے والے راستے پر کنٹرول حاصل کر کے دمشق کو جانے والی عالمی امداد کو روک سکیں۔
یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ یہ کارروائیاں فتح الشام کے نام سے بننے والی اس نوزائیدہ تنظیم کی طرف سے ہیں یا تمام متحارب گروپ مل کر یہ کارروائیاں کر رہے ہیں۔
سلفی فکر سے وابستہ جہادی تنظیم النصرہ فرنٹ 2011کے اواخر میں شامی خانہ جنگی کے دوران معرض وجود میں آئی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے چند ماہ کے قلیل عرصہ میں شام کی بڑی مسلح جماعت بن گئی،24 جنوری 2012 کو شائع ہونے والے اپنے پہلے بیان میں النصرہ فرنٹ نے شامیوں کو جہاد کے لیے اٹھ کھڑے ہونے اور شامی نظام کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی دعوت دی اور تنظیم کا مقصد ’’ اللہ کی زمیں پر اللہ کا نظام نافذ کرنا ،اور دودھ پیتے بچوں اور بیواؤں کے چہروں پر مسکراہٹ واپس لانا‘‘بتایا۔دسمبر 2012 میں امریکہ نے اسے دہشتگرد تنظیموں کی فہرست میں ڈال دیا۔اور 30 مئی 2013 کو اقوام متحدہ نے القاعدہ سے منسلک افراد و اداروں پر پابندی کی فہرست میں النصرہ کو بھی شامل کر لیا۔ شروع میں تو النصرہ نے القاعدہ سے لاتعلقی کا اظہار کیا لیکن اپریل 2014 میں پوری جماعت نے القاعدہ رہنما ایمن الظواہری سے بیعت کرنے کا اعلان کر دیا اور داعش پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اسے خوارج کی جماعت قرار دیا، القاعدہ نے بھی اپنے ایک بیان میں النصرہ کو ہی شام میں اپنی واحد نمائندہ جماعت قرار دیا جس کے بعد سے شام کی لوکل جہادی تنظیمیں النصرہ سے پیچھے ہٹنے لگیں اور اختلافات پیدا ہوگئے۔
28 جولائی 2016 کو تنظیم کے سربراہ ابومحمد جولانی نے ایک ویڈیو بیان میں القاعدہ سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے تنظیم کا نام بھی النصرہ فرنٹ سے تبدیل کر کے فتح الشام فرنٹ رکھ لیا اور کہا کہ وہ شامی عوام کی خواہش اور مفاد کی خاطر ایمن الظوہری سے اپنی بیعت ختم کر کے نئی جماعت تشکیل دے رہے ہیں۔
جولانی کے مطابق نئی جماعت کے اہداف یہ ہوں گے:اللہ کے دین اور شریعت کا نفاذ،تمام لوگوں کے درمیان عدل قائم کرنا،مجاہدین کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کے لیے مختلف جہادی ٹولوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا،شام کے موجودہ نظام کا خاتمہ کر کے شام کی سرزمین کو آزاد کروانا۔
سوال یہ ہے کہ النصرہ نے اپنا نام کیوں تبدیل کیا؟ اور اس سے فتح الشام کو کیا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں؟ اس کے جواب میں فی الوقت کوئی حتمی رائے نہیں دی جاسکتی لیکن اس سے متعلقہ کچھ دوسری خبروں سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ جولانی کو اس کی ضرورت کیوں پیش آئی اور خود القاعدہ کے نائب امیر ابوالخیر نے جولانی کو کیوں الگ ہونے کا مشورہ دیا؟
میڈیا رپورٹس کے مطابق روس اور امریکہ کے درمیان حالیہ دنوں میں شام کے مستقبل کے حوالے سے کئی بیٹھکیں ہو چکی ہیں اور گزشتہ ہفتے لندن میں شام کے مسئلہ کے حل کے لیے 9 ممالک پر مشتمل بین الاقوامی اجلاس ہوا،جس میں جان کیری نے اپنے حالیہ روس کے دورے کے دوران روس اور امریکہ کے مابین شام کی بابت ہونے والے مذاکرات کے نتیجہ میں ہونے والی پیش رفت کے بارے میں متعلقہ ممالک کو آگاہ کیا۔ اگرچہ دونوں فریقین میں بشار الاسد کے مستقبل سے متعلق اختلاف برقرار رہا تاہم جانبین کے درمیان ایسے مشترکات پر گفتگو کی گئی جن پر سوچ بچار کر کے مسئلے کے حل تک پہنچا جا سکتا ہے۔جن میں شدت پسندی اور تسلسل سے جاری لڑائی کو روکنے کے لیے بین الاقوامی کوششوں کو تیز کرنا اور انتقال اقتدار کے معاملے کو افہام تفہیم سے حل کرناشامل ہے۔ لیکن دونوں ملکوں کے درمیان قائم ہونے والی مفاہمت کا دوسرے متعلقہ ممالک پر کوئی اثر نہیں پڑا اور وہ انہیں اس بات پر قائل کرنے میں ناکام رہے کہ روس اور امریکہ کے مابین ہونے والے مذاکرات درست سمت جا رہے ہیں،سعودی وزیرخارجہ عادل الجبیر کا اصرار تھا کہ کوئی ایسا حل تلاش کیا جائے جس میں بشار الاسد نہ ہو لیکن روس اور امریکہ کا موڈ کچھ اور ہے،وہ ہر قیمت پر بشار الاسد کا دفاع کرنا چاہتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ دونوں طاقتوں نے اپوزیشن گروپوں پر حملے کا فیصلہ کر لیا ہے۔اور یہ ممالک النصرہ فرنٹ کے نام تبدیل کرنے کو بھی اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔
29 جولائی کو روسی وزارت خارجہ کی جانب سے ایک بیان نشر ہوا جس میں کہا گیا کہ ’’النصرہ فرنٹ ایک دہشتگرد تنظیم تھی اور رہے گی چاہے وہ اپنا نام کچھ بھی رکھ لے،اور اس کا مقصد بھی وہی ہے جو داعش اور القاعدہ کا ہے،اور ان گروپوں کے خاتمے تک ان کا تعاقب جاری رہے گا‘‘
ادھر امریکن نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جیمز کلیپر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ’’ النصرہ کانام تبدیل کرنا صرف اور صرف فضائی بمباری سے بچنے کے لیے ہے‘‘ واشنگٹن نے بھی اپنے رسمی بیان میں النصرہ کو اپنا نام تبدیل کرنے کے باوجود اسے دہشتگرد تنظیموں کی فہرست میں برقرار رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان بھرام قاسمی نے بھی النصرہ کے نام تبدیل کرنے کو لفظوں کا کھیل قرار دیا ہے،بھرام کے مطابق بھی اس کا مقصد اپنے آپ کو دہشتگرد تنظیموں کی فہرست سے نکالنا ہے۔
عرب تجزیہ نگاروں کے مطابق اس کا مقصد دوسرے جہادی گروپوں کے قریب ہو کر اور پھر بھرپورمنظم ہو کر اسدی فوجوں پر حملہ کرنا ہے۔القاعدہ رہنما ابوالخیر نے بھی شامی دھڑوں کو متحد ہونے کا مشورہ دیا تاکہ زیادہ سے زیادہ نتائج حاصل کیے جا سکیں۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ النصرہ فرنٹ القاعدہ سے علیحدگی کے بعد ایک عام مسلح جماعت رہ جائے گی اور داعش کی قوت میں اضافہ ہو گا۔
النصرہ فرنٹ کے نام کی تبدیلی کے مقاصد کچھ بھی ہوں،ایک بات واضح ہے کہ شاید ابھی قدرت کو شامیوں پر رحم نہیں آیا، اور شام کی سرزمین ابھی مزید خون کی پیاسی ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...