ترکی دو راہے پہ
چہار سو پھیلی کائنات کی کثیرالجہت فطرت کے مختلف رنگ جو نباتات و جمادات کی متضاد صورتوں میں حسین دیکھائی دیتے ہیں اسی طرح زندگی کی بوقلیمونی بھی انسانی سوچوں اور رویّوں کے امتیاز میں نمایاں نظر آتی ہے لیکن افسوس کہ مسلم معاشروں میں متنوع سیاسی نظریات اور متبادل قیادت کو برداشت کرنے کے امکانات کم ملتے ہیں
ترکی میں وقوع پذیر ہونے والی بغاوت طیب اردگان کے شخصی استبداد میں اضافہ کا سبب بننے کے باوجود صدر کی اتھارٹی کو متنازعہ اور ریاستی امور پر انکی گرفت کمزور بنانے کا وسیلہ بنے گئی اسی کمزور بغاوت کو کچلنے کی غیرمعمولی کوششوں کے مضمرات ترکی کی داخلی سلامتی اور سیاسی نظام کو دیر تک دگرگوں رکھیں گے گویا بغاوت مملکت کو اتنا نقصان نہیں پہنچا سکی جتنا غیر محدود حکومتی ردعمل پہنچا سکتا ہے۔
کیا اس مہمل کشمکش نے ترکوں کو ایکبار پھر دو راہے پہ لا کھڑا کیا؟جہاں انہیں ملکی مستقبل کا از سر نو تعین کا مسلہ درپیش ہو گا۔خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد جب مملکت کے ساتھ ملت کا شیرازہ بھی بکھر رہا تھا تو کمال اتاتر ک نے کمال فراست اور الوالعزمی کےساتھ ترکوں کو نسلی تعصبات اور مذہبی انتشار کی دلدل سے نکال کے منظم قوم بنایا لیکن اب طیب ادگان، اتاترک جیسی وسعت نظر اور عالی ظرفی کا مظاہرہ کر کے انتقام پہ درگزر اور عفو کو ترجیح دے پائیں گے؟
اس سوال کا جواب تو وقت دے گا لیکن اس ناقابل پیشگوئی ماحول میں عالمی برادری سے عداوت یا ریاستی طاقت کے ذریعے لاکھوں شہریوں کے نظریات کوکچلنا ممکن نہیں ہو گا تاہم ترک قیادت کا ذہنی پس منظر مستقبل کے دبستانوں کو دھندلا سکتا ہے۔صدر طیب اردگان نے بلاتاخیر بغاوت کی ذمہ داری اس نرم خُو مذہبی سکالر فتح اللہ گولن پہ عائد کی جو امریکی ریاست پنسیلوینیا میں خود ساختہ جلا وطنی کے دن کاٹ رہے ہیں،یہی وہ طرز فکر ہے جو تعصب کو تحقیق پہ فوقیت دیکر قومی سطح پہ دل و دماغ کی تقسیم بڑھا کر ملکی سلامتی کو متزلزل کر سکتا ہے،صدر اردگان کہتے ہیں،ہزاروں شہری، ٹیچرز، ججز ،فوجی آفیسرز اور پروفشنلز جو گولن کے نظریات سے متاثر ہو کے ریاست کا تختہ الٹنے پہ کمربستہ ہوئے انہیں قرار واقعی سزائیں دی جائیں گی،مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق بغاوت پہ قابو پا لینے کے بعد 35ہزار سے زیادہ ملٹری افیسرز،ججز اور پولیس اہلکار گرفتار ہوئے،تقریباً 15 ہزار سکولز ٹیچرز اور 15 ہزار سے زیادہ یونیورسٹیز کے پروفیسرز برطرف اور لگ بھگ 21ہزار سکولوں کے لائسنسز منسوخ کئے گئے،ترک وزیراعظم بن علی یلدرم نے کہا کہ گولن تحریک کو جڑ سے اکھاڑ پھیکنے کا وقت آن پہنچا ہے،نیو یارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ صدر اوباما سے ٹیلی فونک گفتگو میں طیب اردگان نے فتح اللہ گولن کو ناکام بغاوت کا بنیادی محرک بتا کے ملک بدرکرنے کی درخواست کی تاہم مسٹر اوباما نے فتح اللہ گولن کی حوالگی کا عندیہ نہیں دیا لیکن امریکی صدر نے بغاوت کے اسباب و محرکات معلوم کرنے کےلئے انہیں تحقیقات میں تعاون کی پیش کش ضرور کی۔
دریں اثناءترکی کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا،مجھے یقین ہے کہ بغاوت میں امریکی مقتدرہ کا کردار شامل ہوگا۔ ترک حکومت کے حامی اخبار نے صفحہ اول پر شائع ہونے والے مضمون میں الزام لگایا کہ امریکہ طیب اردگان کو قتل کرانا چاہتا ہے۔امریکی سیکرٹری خارجہ نے ترک حکومت کو بغاوت میں گولن کے ثبوت مہیا کرنے کا مشورہ دیا تاکہ امریکی عدالتیں معاملہ کی چھان بین کے بعد فتح اللہ گولن کے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں،جان کیری کہتے ہیں کہ امریکہ اورترکی کے مابین مجرموں کے تبادلہ کا معاہدہ تو موجود ہے لیکن ترکی نے اس ضمن میں ای میل کے ذریعے جو الیکٹرانکس ڈوزیئر بھجوایا اس میں گولن کے انخلاءکی درخواست واضح نہیں ۔مانٹسکو نے کہا تھا دنیا میں جتنی بلائیں ہیں ریاست ان سب میں زیادہ سرد مہر ہے،وہ سرد مہری سے جھوٹ بولتی ہے اور جھوٹ مسلسل اسکے ذہن سے نکلتا رہتا ہے“بظاہر یوں لگتا ہے کہ اردگان حکومت بغاوت کے اسباب و محرکات تلاش کرنے سے پہلے ہی ترک معاشرے میں فتح اللہ گولن کے اثرات کو مٹانے کی جلدی میں ہے،تاریخ گواہ ہے کہ ترک سر زمین پہ متبادل نظریات اور متخالف خیالات کو کبھی گنجائش نہیں ملی۔ چنانچہ اجتماعی حیات کا فکری دھارا ہمیشہ جمود کا شکار رہا۔
چہار سو پھیلی کائنات کی کثیرالجہت فطرت کے مختلف رنگ جو نباتات و جمادات کی متضاد صورتوں میں حسین دیکھائی دیتے ہیں اسی طرح زندگی کی بوقلیمونی بھی انسانی سوچوں اور رویّوں کے امتیاز میں نمایاں نظر آتی ہے لیکن افسوس کہ مسلم معاشروں میں متنوع سیاسی نظریات اور متبادل قیادت کو برداشت کرنے کے امکانات کم ملتے ہیں حالانکہ یہی فطری تضادات سیاسی ومعاشرتی دوام کا ابدی وسیلہ ہیں۔اگر ہم اسی تناظر میں منفرد سوچوں کی حامل گولن تحریک،جسے کچلنے کی تیاری کر لی گئی ہے،کو دیکھیں تو وہ ترکی کو تازہ نظریات اور متبادل قیادت کی فراہمی کا ذریعہ نظر آتے ہیں،تجزیہ کار کہتے ہیں، فتح اللہ گولن کی تحریک کی وسعت اور مقاصد کے بارے اندازہ لگانا ممکن نہیں لیکن اس کے پیروکار نہایت کامیابی کے ساتھ قوت کے مراکز میں سرایت کرتے ہیں خاص کر پولیس اور جوڈیشری میں اس تحریک کی جڑیں کافی گہری ہیں،فتح اللہ گولن اپنے پیروکاروں کو اخلاقی وسماجی طور پر راسخ العقیدہ مسلمان لیکن ذہنی طور پر جدید سائنسی علوم کا حامل اور ترقی پسند رجحانات سے مزین انسان بننے کی ترغیب دیتے ہیں، ان کی تحریک مذہبی انتہا پسندی کی مخالف اور اسرائیل سے متوازن تعلقات کی حامی ہے،اس تحریک میں عورتیں کو فعال کردار ملا لیکن فیصلہ سازی کے عمل سے انہیں دور رکھا جاتا ہے،گولن اپنے خطبات کے ذریعے ایسے صحت مند عالمی معاشرے کے قیام کےلئے کوشاں ہیں جو بین المذاہب مکالمہ کو فروغ دینے کا پلیٹ فارم مہیا کرے،اس مقصد کے حصول کے لئے وہ عالمی سطح کے خیراتی اداروں اور سیکولر سکول سسٹم کا قیام میں سرگرداں ہیں،گولن تحریک حماس و اخوان المسلمون جیسی عسکری تحریکوں سے الگ راہ عمل اختیار کرتے ہوئے،مغربی ممالک سے صحتمند مکالمہ اور خوشگوار تعلقات استوار رکھنے کی حامی بھی ہے،فتح اللہ گولن انسانوں کے درمیان علمی روابط اور سائنسی بنیادوں پہ تعلقات کار بنائے رکھنے کے علمبردار ہیں۔دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ 1990ءکی دہائی میں گولن اور اردگان نے ملکر اُس پرانی سیکولر اشرافیہ کے خلاف مزاحمت کی جس نے پچھلی صدی میں چار منتخب حکومتوں کا تختہ الٹا تھا۔تاہم 1999ء میں گولن کے ایک خطبہ کو جواز بنا کے ان پہ بغاوت کا مقدمہ چلایا گیا جس میں انہوں نے کہا تھا ”ہمارے،وہ دوست! جو انتظامی اور قانون ساز اداروں میں مقتدر پوزیشنوں پہ فائز ہیں انہیں نظام کی جزیات کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ نہایت بیداری کے ساتھ انہیں بتدریج اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھال کے زیادہ ثمرآور بنائیں تاکہ قومی سطح پہ صحت مند سوچوں کو منظم کیا جا سکے“اسی دوران وہ ملک چھوڑ کے امریکہ چلے گئے،عدم موجودگی میں عدالت نے انہیں بغاوت کے مقدمہ سے باعزت بری کر دیا۔قطع نظر اس بات کے گولن کے نظریات اور اسکی تحریک ہمارے معیار حق پہ پوری اترتی ہے یا نہیں لیکن کسی بھی انسان کو سوچنے،نظریہ و خیال پیش کرنے اور انکی ترویج کا حق حاصل ہے، یہی فطری آزادی ذہنی ارتقاءاور معاشرتی دوام کی ضامن بنتی ہے لیکن بدقسمتی سے مسلم معاشروں میں متبادل سوچوں اور متخالف نظریات کو پنپنے کی آزادی نہیں مل سکی،جس کی وجہ سے اجتماعی شعور پہ نامرادیوں کی نحوست اور دلیل کی بجائے تلوار کی چمک سیایہ فگن رہی،اسی کارن وہ زندہ سماجی رجحانات جو خود کار نظام کے تحت ہمہ وقت زندگی کی جزیات کو حیات نو عطا کرتے ہیں رفتہ رفتہ بیکار ہوتے گئے،ہیگل نہیں کہا تھا کہ زندگی متضاد قوتوں کے درمیان توازن کا نام ہے،ہمیں سیاسی خرابیوں اور جمہوری بد نظمی سے اسقدر خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ سیاست زندگی نہیں بلکہ نقش زندگی ہے، اردگان جو اپنی قیادت کو کامل اور سیاسی نظریات کو حتمی منوانے پہ مصر ہیں ترکی کی روح کو منجمد کر دیں گے،ترک حکومت نے متضاد خیالات اور متبادل قیادت کو کچلنے کی روش برقرار رکھی تو نتائج زیادہ ہولناک ہوں گے،اگر کسی مرحلہ پہ اے کے پارٹی اور اسکا نظریہ سیاست ناکام ہو گیا،جسکے کافی امکانات ہیں، تو ترکی کے پاس متبادل قیادت ہو گی نہ تازہ و توانا سوچیں،اس لئے گولن تحریک کو کچلنے کی بجائے اپوزیشن جماعتوں،متخالف نظریات اور فعال میڈیا کو زندہ رہنے کا حق دینا لازمی ہے تاکہ اجتماعی زندگی کے دھارے کی ہموار روانی ممکن بنائی جا سکے۔یورپی یونین کے سیکریٹری جنرل نے کہا ہے کہ متخالف رجحانات کو طاقت کے ذریعے کچلنا ممکن نہیں،اس جدلیات کے مضمرات دور تک اثر انداز ہوں گے،بلاشبہ بین الاقومی تعلقات کی نزاکتیں اور خطہ کے حالات طاقتوروں کے مابین پیکار کے ممکنات کو ظاہر کرتے ہیں لیکن داخلی افراط و تفریط کو مٹانے کےلئے رائے عامہ کسی قانون سے زیادہ موثر ثابت ہو گی،لہذہ طاقت کے بل بوتے مخالف خیالات کو کچلنے اور ناکام بغاوت کو جواز بنا کے اپوزیشن کو خاموش کرانے کی کوشش ترک معاشرہ کو اندر سے توڑ ڈالیں گی۔
فیس بک پر تبصرے