دنیا ہمارے پیچھے کیوں پڑی ہے ؟

997

پاکستان میں مثبت بیانیوں کا کوئی ایک ماخذ ہو سکتا ہے ؟

خاص طور پر جب جب اندرونی اور علاقائی سطح پر تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہوں اور جہاں نہ صرف نت نئے بیانئے جنم لے رہے ہوں بلکہ ان بیانیوں کے رد عمل کا عمل بھی عروج پر ہو۔

ذرا ان موضوعات پر ایک نظر ڈالئے جوآج کل عمومی بحث کا حصہ ہیں اور ہم انھیں کس طرح سرسری طور پر استعمال کرتے ہیں ۔

بظاہر اندرونی سلامتی کی صورتحال بہتر ہے اور ہم مطمئن ہیں ۔افغانستان کے صدر اشرف غنی کے حالیہ پاکستان مخالف بیانات میں کوئی نیا پہلو نظر نہیں آتا۔ البتہ مقبوضہ کشمیر میں برہان وانی کی ہلاکت سے ایسا لگتا ہے کہ وادی ایک بار پھر بد امنی کی لپیٹ میں آنے والی ہے ۔پھر ہم سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ حکومت کیا کررہی ہے ؟ دوسرے ہی سانس میں ہم بنگلہ دیش پر لپکتے ہیں ۔دیکھو حسینہ واجد کیا کر رہی ہے ؟ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہو رہی کہ داعش نے بنگلہ دیش کی  اشرافیہ میں جگہ بنا لی ہے ۔لگتا ہے کہ ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد پاکستان میں جمہوریت پر سے خطرہ ٹل گیا ہے ۔اس کا مطلب ہے کہ کرپشن کا بازار گرم رہے گا ؟

یہ اور اس نوع کی بحثیں ٹی وی اسکرین ، اس کے باہر اور اخبارات کے صفحات پر بکھری نظر آتی ہیں ۔ان تبصروں اور بیانات کو “بیانئے “نہیں کہا جا سکتا۔بیانئے ہماری اجتماعی سوچ کا عکاس ہوتے ہیں البتہ ان بیانات کے پیچھے متحرک بیانیوں کاایک اظہار ہو سکتا ہے ۔

ان دنوں اسلام آباد کی پالیسی اور علمی حلقوں میں بیانیوں اور انتہا پسندی جیسے موضوعات پر ایک بار پھر بات ہو رہی ہے ۔بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ مذہبی انتہا پسند بیانئے ہر سطح پر پھیل رہے ہیں ۔وہ سیاسی اور قانونی معاملات سے لے کر ثقافت اور معاشرت تک اتنی گہرائی تک جا چکے ہیں کہ انھوں نے ہمارا روز مرہ محاورے ،دلیل اور زبان تک بدل کے رکھ دی ہے ۔

اسلام آباد کی ان بحثوں میں طاقتور اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے بیانیوں پر بھی بحث ہوتی ہے ،جس کے متعلق بیشتر ماہرین اور دانشوروں کاخیال ہے کہ وہ بھی اتنے ہی منفی اور غیر صحت مند ہیں جتنے غیر ریاستی عناصر کے بیانئے ۔ان کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو ریاست اور سماج کے درمیان طے پانے والے عمرانی معاہدے سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے ۔آئین ِ پاکستان سب سے کم معتبر عبارت ہے جسے نہ تو اسٹیبلشمنٹ اور نہ ہی عسکری غیر ریاستی عناصر قابل اعتنا سمجھتے ہیں ۔

ستم ظریفی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور غیریاستی عناصر دونوں ہی آئینی اور جمہوری حدود کے باہر محاذ آرائی میں مصروف ہیں ۔شاید یہی وجہ ہے کہ شدت پسندآئین کے مخالف ہیں ۔ممکن ہے کہ معتدل مزاج رہنما اس سے اختلاف کریں اور کہیں کہ شدت پسند گمراہ ہیں اور انہیں نہ تو مذہب اور نہ ہی آئین کی حرمت کا خیال ہے ۔لیکن شدت پسندوں کے لئے یہ تنقید کوئی معنی نہیں رکھتی اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہی  راست پر ہیں اور انہیں مذہب کی زیادہ آگاہی ہے ۔ اگرچہ پاکستان کا آئین اور اس کی دفعہ 156  پاکستان میں کسی بھی قسم کے لشکر اور پرائیویٹ آرمی بنانے کی ممانعت کرتی ہے لیکن عسکریت پسند اور انتہا پسندتو آئین کو مانتے ہی نہیں ۔

بجائے اس کے کہ آئین ، جمہوری قدروں اور جمہوری  احتساب کے اخلاقی معیارات  سے شدت پسندوں کے بیانیوں کا جواب دیا جاتا ، اسٹیبلشمنٹ کی دلیل یہ ہے کہ ملک میں کرپشن ہے ۔طرزِ حکمرانی خراب ہے وہ اس طرح کے کئی کلیشئے زدہ خیالات کا اظہار کرتی ہے ۔ان خیالات اور بیانات کے استعمال سے وہ سمجھتی ہے کہ اسے اخلاقی برتری حاصل ہو جائے گی ۔اور سارا ملبہ دوسری طرف چلا جائے گا ۔یہ دوسری طرف والے کون ہیں ؟ یہ سیاست دان ہیں ،اچھے اور برے دونوں ، میڈیا کا ایک گمراہ طبقہ ،کچھ دانشور اور سول سوسائٹی،جو آئین اور جمہوری قدروں کاشور مچاتی رہتی ہے ۔

یہاں ایک بڑی دلچسپ صورتحال ابھرتی ہے کہ جو آئین کی بالا دستی پر یقین رکھتے ہیں وہ ایک بڑے  قومی تناظر میں کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتے ۔وسیع مذہبی ،سیاسی اور قومی  تناظر میں ایک طرف اسٹیبلشمنٹ ہے اور دوسری طرف شدت پسند ۔ لیکن ٹھہر یئے ،یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سارے شدت پسند؟

اسے کیا کہئے تضاد ، ابہام یا پیرا ڈوکس ۔لیکن ہماری نوجوان نسل کے بڑے حصے نے بھی اسی طرز احساس کو اپنا لیا ہے ۔

اب بیانیوں کی بحث پر ایک مرتبہ پھر نظر ڈالئے اور سوچئے پاکستان میں کس قسم کے متبادل بیانیوں کی ضرور ت ہے ۔کیا آئین پر عمل اور اس کی حرمت سے شدت پسندی مخالف بیانیہ فروغ پا سکتا ہے ؟ یا اس کے برعکس محض بہتر طرز حکمرانی کے نعروں سے شدت پسندی  کو شکست دی جا سکتی ہے ۔

آئین پاکستان ایک جامع عمرانی معاہدہ ہے ۔جس پر سیاسی اور مذہبی مکتب فکر کا اتفاق ہے اور ایک قومی دستا ویز جس پر سب کا اتفاق ہو لبرل ، مذہبی اور قوم پرست سب اس پر متحد ہو سکتے ہیں بیانیوں کو وہیں سے جنم لینا چاہئے اور مثبت طرز فکر کا ماخذ بننا چاہئے ۔اگر کسی کوآئین کی کسی شق پر اعتراض ہے تو وہ اس کے لئے عوامی رائے سازی کر سکتا ہے اور سب کا اتفاق ہی عمرانی معاہدے میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کا سبب بنے گا ۔

اس کے مقابلے میں اسٹیبلشمنٹ کے طرف دار کہتے ہیں کہ ایک سخت گیر نظام سماجی استحکام لا سکتا ہے ۔اس بحث میں وہ پاکستانی سماج کی بُنت اور ساخت کو بھول جاتے ہیں اور یہ بھی جہاں سخت گیر  آمرانہ نظام ہیں وہ ریاستیں زیادہ پیچیدہ مسائل کا شکار ہیں ۔اور انہیں شدت پسندی کا جوابی بیانیہ تشکیل دینے میں زیادہ مسائل کا سامنا ہے ۔

پاکستان کے پیچیدہ نظری اور فکری تناظر کو ایک طرف رکھئے ،یہاں ایسے افراد بھی پائے جاتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو کسی بھی قسم کی ردِ انتہا پسند پالیسی کی ضرورت نہیں ہے اور جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے وہ تو بہت سے ممالک میں ہو رہا ہے ۔اس بیانئے پر غور کیجئے اور سوچئے ہماری نظر میں “نارمل ” ہونے کا تصور کیا سے کیا ہو گیا ہے  ۔

یقیناً دنیا میں بہت سے ممالک ہیں ،جہاں سماجی ،سیاسی ، نظری اور معاشی صورتحال پاکستان سے بہت ابتر ہے ۔تو کیا نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ پاکستان کا موازنہ ان کے ساتھ کیا جائے ؟ یہی بیانئے ہیں جو سماجی ابتری کا باعث ہیں ۔اور ہم کہتے ہیں کہ دنیا کو ہماری فکر کیوں ہے ؟اور پھر یہ احساس ہمارے جاں گزیں ہو جاتا ہے کہ ہمارے پاس کچھ ہے جو بیانیوں سے ماورا ہے اور وہ دنیا ہم سے چھیننا چاہتی ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...