آئینہ میرا دوست،تصویر میری دشمن

860

ہر فرد میں نرگسیت کی کم یا زیادہ،ایک مقدار ضرور موجود ہوتی ہے

عکس کے اندر جادوئی طاقت ہوتی ہے۔یہ طاقت کسی کو بھی احساس تفاخر میں مبتلا کرسکتی ہے یا ندامت کی گہرائیوں میں دھکیل سکتی ہے۔عکس ہمارے ساتھ کیا کھیل کھیلتا ہے اس کی وضاحت شاید دو اقوال سے ہو سکے۔ جو تصویر کشی کی ایک ویب سائٹ سے لیے گئے ہیں۔پہلا قول ہے”میں آئینے میں تو اتنا خوبصورت دکھتا ہوں،یہ تصویر میں مجھے کیا ہو جاتا ہے؟“ دوسرا قول یہ ہے کہ”کیا آئینے کی تصویر،آئینہ نہیں ہوسکتی؟“۔

پہلے قول سے تو نرگسیت صاف جھلکتی ہے لیکن دوسرا قول قدرے تہڑا ہے۔ہر فرد میں نرگسیت کی کم یا زیادہ،ایک مقدار ضرور موجود ہوتی ہے لیکن بعض دفعہ یہ اس سطح کو چھونے لگتی ہے جہاں تصویر اور آئینے کا فرق ہی ختم ہونے لگتا ہے اور ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ بھلا تصویر بھی کبھی آئینہ ہوتی ہے؟۔

یہ کوئی پیچیدہ یا بہت ہی فلسفیانہ بیانیہ نہیں ہے۔اگر آپ میڈیا پر جاری بحثیں دیکھتے ہیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ بات کیا ہورہی ہے۔میڈیا،خواہ مرکزی دھارے کا ہو،متوازی یا سماجی،ہر جگہ خبطِ عظمت ہے یا ماتم کدے۔بحث تصورِ نسواں پر ہو،غیر مسلموں یا ”کم مسلموں“ کے حقوق کی،سماجی اور مذہبی اقدار کی۔بات صرف مثالیوں(تصوراتی تصور، جن کا عکس نہیں بن سکتا) کے گرد گھومتی ہے ہمارے دلائل،انداز گفتگو اور زہر بھرے نشتر ہماری جو تصویر بناتے ہیں وہ ہم ماننے سے انکار کردیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ قصور کیمرے کا ہے ورنہ آئینے میں تو ہم بہت خوب صورت نظر آتے ہیں۔یہ عمل بڑے پیمانے پر سیاسی اور علاقائی سطح پر بھی ایسے ہی رونماءہورہا ہے۔ریاستی ادارے بھی ایسی ہی نرگیست کا شکار ہیں۔

منہ پھٹ سماجی امور کا ماہر اسے”شدید ترین اجتماعی نرگسیت کی بیماری“ سے تعبیر کرسکتا ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ سماجی سائنس ایسی صورتحال کو بیان کرنے کےلئے اصطلاحات سے تہی دامن ہے اگر”سماجی ابتری“(Social disorder) اور سماجی فوبیا کو باہم ملا کر دیکھا جائے تو ہمارے سماج کی قدرے مناسب تشخص ہوسکتی ہے۔

اربن ڈکشنری کے خلاف”سماجی ابتری“سماج کی وہ حالت ہے جو دیگر ابتریوں اور غیر مناسب چیزوں کے وقوع پذیر ہونے کی وجہ بنتا ہے۔جبکہ سماجی فوبیا ایک شدید خوف ہے جودوسروں کے آپ کے متعلق خیالات سے پیدا ہوتا ہے اور فرد ایک ایسی شرمندگی کی کیفیت میں رہتا ہے جس کا اظہار رد عمل یا غصے کی صورت میں کرتا ہے۔

سیاسی مفکرین ایسی صورتحال کو سماجی زوال(Social Decay) سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔یہ ایسی کیفیت ہے جہاں لوگ عمومی گروہ بندیوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور ہر گروہ دوسرے کو اجنبی(Stranger)پکارتا ہے اور یہ اجنبی آپس میں رابطہ انتہائی ضرورت کے وقت کرتے ہیں۔

کیا اس تعریف میں آپ کو اپنے سماج کی جھلک نظر آتی ہے؟ کیا مذہب بمقابلہ سیکولر ازم،دایاں بازو بمقابلہ لبرل،جمہوریت پسند بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ کے حامی اور اس طرح کے دیگر مباحث میں زوال کی تصویر نظر آتی ہے؟

نفسیاتی اصطلاح میں ایسی صورتحال کو ذہنی دباﺅ سے پیدا ہونے والی عملی بے ترتیبی کا نام دیا جاتا ہے۔جہاں تک باقی اثرات کا تعلق ہے تو ڈان اخبار میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں بتایا گیا ہے سماجی ترقی کے2016 کے انڈیکس میں پاکستان کی پوزیشن113ویں ہے اور ویسے اس درجہ بندی میں116ممالک شامل ہیں جبکہ برداشت اور امتیازات کی درجہ بندی میں حالت تو بہت ہی بری ہے۔جہاں پاکستان133 ممالک کے ساتھ مسابقت میں132ویں نمبر پر ہے۔دوسال پہلے تک پاکستان کا شمار غیر مقبول ترین ممالک کے اعلیٰ درجوں میں ہوتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ دو سال میں پاکستان کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے بلکہ گزشتہ دو سال سے یہ درجہ بندی ہی نہیں ہوئی۔

اب ذرا اپنی اندرونی مضبوطی کی طرف نظر دوڑاتے ہیں۔جہاں آپ کو معلوم ہوگا کہ باوجود کاوشوں کے پاکستان دنیا کے کمزور ترین ممالک کی فہرست سے نہیں نکل سکا اور ابھی تک چودھویں پوزیشن پر براجمان ہیں۔ہمیں شام اور یمن کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ اگر وہاں حالات بدتر نہ ہوتے تو ہم آج بھی بارھویں پوزیشن پر ہی ہوتے۔فنڈ فار پیس ایک تنظیم ہے جو کمزور ممالک  کی درجہ بندی کرتی ہےاور اس کےلئے چھ عوامل کو جانچتی ہے جو یہ ہیں۔آبادی کا دباﺅ،سماجی گروہوں اور اکائیوں میں انتشار اور ایک دوسرے کے خلاف تحفظات۔بیرونی اور اندرونی پناہ گزین،انسانی سرمائے کا میزانیہ اور ذہنی اخراج کی رفتار،غیر ہموار سماجی ترقی اور غربت۔سب سے آخر میں غیر ہموار معاشی ترقی۔

دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ کچھ میدانوں میں تو پاکستان کچھ نہ کچھ ترقی کررہا ہے۔دراصل یہ چھ محرکات کا آپس میں سبب اور علت کا تعلق ہے۔یعنی اگر ایک میدان میں ترقی ہورہی ہے تو باقی اس ترقی کو ہڑپ کر جائیں گے۔مثلاً دوسرا محرک جو سماجی اکائیوں میں انتشار سے متعلق ہے یہ جرم،دہشت گردی،انتہا پسندی اور دیگر پرتشدد رجحانات کی بھی پیمائش کرتا ہے۔شماریاتی تناظر میں تو لگے گا کہ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں کمی واقع ہورہی ہے لیکن کیا اس کے محرکات اور اسباب بھی ختم ہورہے ہیں؟۔

یہ چھ عوامل مل کر نحوست کا ایک چکر تشکیل دیتے ہیں جس کو توڑنے کےلئے ریاست اور سماج دونوں کو بھرپور قوت ارادی درکار ہوتی ہے جو دیر تک چل سکے اوررستے میں آنے والے چیلنجز کے سامنے کمزور نہ پڑتی جائے۔

فنڈ فار پیس کے میزانیے سے کم از کم یہ اندازہ تو لگایا جاسکتا ہے کہ ریاست اور سماج کی تصویر کشی میں کون سے عوامل شامل ہوتے ہیں۔یہ صرف دو ہیں ایک اندرونی استحکام اور دوسرا ہمسائیوں سے تعلقات۔اندرونی استحکام صرف جرائم اور دہشتگردی پر قابو پانے سے نہیں آتا بلکہ ان کی وجوہات کو ختم کرنے سے آتاہے۔جو عوامل جرم اور شدت پسندی کی پرورش کرتے ہیں وہ ریاست کی پالیسیوں میں گوندھے ہیں اور اجتماعی مزاج کا حصہ بن چکے ہیں۔

عام آدمی شدت پسندوں کو برا سمجھتا ہے لیکن جب ان جیسے ہی رویے اختیار کرتا ہے تو پہچان نہیں پاتا کہ یہی انتہا پسندی ہے اور ریاست کو تو شدت پسند اظہار سے مسئلہ ہی کوئی نہیں ہے،جب تک وہ اشرافیہ کے مفاد کو زد نہ پہنچائے۔بحیثیت مجموعی ریاست اور عوام دونوں ایسے یوٹوپیا(تصوراتی دنیا) میں رہتے ہیں جہاں نرگسیت بنیادی قدر ہے اور انہیں لگتا ہے پوری دنیا ان کی قیمتی متاع(یوٹوپیا) چھیننے کے چکر میں ہے۔

کسی بھی ریاست کے ہمسائیوں سے تعلقات،اس ریاست کی معاشی قوت،سیاسی اثر و نفوذ اور سٹریٹیجک استحکام کا تعین کرتے ہیں۔پاکستان کے معاملے میں یہ منظر نامہ تضادات سے بھرپور ہے۔پاکستان کے تین ہمسائے جن کے ساتھ اس کے تہذیبی،ثقافتی،تاریخی،سماجی اور مذہبی تعلقات ہیں۔ان سے اس کے خارجہ تعلقات اچھے نہیں۔چین جس سے ہمارے سٹرٹیجک اور معاشی مفاداتی رشتے بڑھ رہے ہیں،مختلف تہذیبی اور ثقافتی پس منظر رکھتا ہے۔یہ محض سیاسی سٹرٹیجک یا خارجہ امور کا سوال نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان کی اس کشمکش کا اظہار بھی ہے جو یہ آزاد شناخت کےلئے بھی کررہا ہے۔یہ کشمکش اور اندرونی محاذ آرائی آزادی کے بعد سے جاری ہے اور ہم اپنے جیسی سماجی،مذہبی اور ثقافتی اقدار رکھنے والوں سے تعلق پسند نہیں کرتے اور اس کے بدلے اپنے خطے سے باہر کے ثقافتی اور سماجی اثرات کو قبول کرنے کےلئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان باوجود کوشش کے”الباکستان“ نہیں بن سکتا لیکن ریاست اور سماج کی یہ کشمکش گہری ہوتی جارہی ہے اور ہم فریبِ نظر کا شکار ہورہے ہیں۔جہاںآئینہ دوست ہے اور تصویر ہماری دشمن۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...