کیا یہ عید نئے نوٹوں کے بغیر ہی گزارنی پڑے گی؟

939

ایک شہری30 مختلف شناختی کارڈ کی کاپیوں کے ساتھ فریش کیش وصول کررہا ہے۔جب اس سے پوچھا گیا تو اس نے کہا ہمارا تو بزنس ہے یہ۔بینک میں کھڑے دوسرے فرد نے بتایا کہ یہ فریش کیش کے ڈیلر ہیں یہ مختلف افراد کے شناختی کارڈ کی کاپیاں پہلے ہی سے جمع کرلیتے ہیں

پاکستان میں عیدالفطر کے پرمسرت موقع پر عیدی کے طور پر کرارے نوٹ دینے کی روایت بہت پرانی ہے۔شاید میری عمر سے بھی پرانی کیونکہ مجھے اچھی طرح یاد ہے مجھے بھی بچپن میں عیدی میں کرارے نوٹ ہی ملتے تھے اور یہ نوٹ لے کر ہم خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے ۔ ان نوٹوں کی بار بار گنتی کی جاتی تھی کہ کہیں کم تو نہیں ہوگئے اور جب ان کو خرچ کرنے کی باری آتی تھی تو وہ بھی آہستہ آہستہ خرچ کیے جاتے کہ کہیں جلدی کم نہ ہو جائیں۔

سٹیٹ بینک آف پاکستان ہر سال عید کے موقع پر فریش کرنسی نوٹ مہیا کرنے کا انتظام کرتا ہے تاکہ شہری اپنے پیاروں کوعیدی نئے نوٹوں کی شکل میں دے سکیں۔گزشتہ کئی سالوں سے سٹیٹ بینک ہر بینک کی برانچ کو کرنسی نوٹ جاری کرتا تھا جہاں سے کوئی بھی شہری اپنے شناختی کارڈ کی کاپی دے کر اپنی مرضی سے فریش کرنسی نوٹ حاصل کرسکتا تھا۔لیکن پچھلے سال عیدالاضحی سے سٹیٹ بینک آف پاکستان نے نیا نظام متعارف کروایا جس کے تحت ہر شہری اپنا شناختی کارڈنمبر لکھ کر سٹی اور برانچ کوڈ کے ساتھ8877پر میسج کرے گا۔اس کے چارجر2روپے بمعہ ٹیکس ہوں گے۔اس نئے نظام کے تحت شہری سٹیٹ بینک کی صرف منتخب کردہ برانچوں سے ہی کیش وصول کرسکتے ہیں۔

لیکن پچھلے سال عیدالاضحی سے سٹیٹ بینک آف پاکستان نے نیا نظام متعارف کروایا جس کے تحت ہر شہری اپنا شناختی کارڈنمبر لکھ کر سٹی اور برانچ کوڈ کے ساتھ8877پر میسج کرے گا۔اس کے چارجر2روپے بمعہ ٹیکس ہوں گے

جب مختلف طبقہ فکر کے لوگوں سے اس نظام کے بارے میں سوال پوچھا گیا تو ان سب کی یہ عام شکایت تھی کہ ملازم پیشہ طبقہ کے پاس اتنا ٹائم نہیں،خصوصاً رمضان میں روزہ کی حالت میں کہ پہلے منتخب کردہ برانچ کو تلاش کریں اور پھرآفس ٹائم میں جا کر وہاں سے کیش وصول کریں۔دوسری شکایت جو لوگوں کی زبان پر تھی کہ جب اس نمبر پر میسج بھیجا جاتا ہے تو جواب میں میسج آرہا ہے کہ یہ برانچ اپنی بکنگ لمٹ کراس کر چکی ہے۔کوئی دوسری برانچ منتخب کریں،اس بارے میں جب مختلف بینکوں کے آفیسرز سے رائے لی گئی تو انہوں نے بھی اس شکایت کو دہرایا کہ تین چار برانچ کوڈ کے ساتھ میسج کر چکے ہیں لیکن سب سے یہی جواب آرہا ہے کہ یہ برانچ اپنی لمٹ کراس کر چکی ہے۔اس وجہ سے  ہم اپنے لیے ایک کاپی بھی حاصل نہیں کرسکے۔اس سلسلے میں جب منتخب کردہ برانچ کو وزٹ کیا گیا تو دیکھا گیا کہ ایک شہری30 مختلف شناختی کارڈ کی کاپیوں کے ساتھ فریش کیش وصول کررہا ہے۔جب اس سے پوچھا گیا تو اس نے کہا ہمارا تو بزنس ہے یہ۔بینک میں کھڑے دوسرے مرد نے بتایا کہ یہ فریش کیش کے ڈیلر ہیں یہ مختلف افراد کے شناختی کارڈ کی کاپیاں پہلے ہی سے جمع کرلیتے ہیں اورsms کردیتے ہیں اور سب سے پہلے زیادہ سے زیادہ فریش کیش جمع کرلیتے ہیں جو یہ بعد میں پورے سال زیادہ پیسے لے کر یہی فریش کیش عوام کو فروخت کرتے ہیں۔

اگر ہم پہلے والے اورموجودہ نظام کا تقابلی جائزہ لیں کر دیکھیں تو اس نظام کا سب سے زیادہ فائدہ فریش کرنسی نوٹ کا کاروبار کرنے والے وہی ڈیلر حضرات اٹھا رہے ہیں جبکہ عام شہری کو صرف چند منتخب کردہ بانچوں سے کیش وصول کےلئے دشواری کا سامنا ہے جبکہ پہلے والے نظام کے تحت ہر شہری کو وقت پر آسانی اور سہولت کے ساتھ فریش کیش مہیا ہورہا تھا۔ دوسرا یہ کہ عام شہری کےلئے اپنے گھر یا آفس کی قریبی برانچ کوVisit کرنا بھی آسان تھا دوسرا وہ روزہ کی حالت میں لمبی لائنوں کی زحمت سے بھی بچ جاتا تھا۔پہلے والے نظام کے تحت ہر برانچ میں فریش کیش مہیا تھا تو اس وجہ سے رش پیدا نہیں ہوتا تھا جبکہ دوسرے نظام کے تحت عام شہری کےلئے فریش کرنسی نوٹ کا حصول کٹھن اور دشوار مرحلہ ہے۔جس میں زیادہ تر شہریوں کو کامیابی نہیں مل رہی اور زیادہ تر کیش  ڈیلرز کی طرف ہی جارہا ہے جو یہ کا کاروبار کرتے ہیں

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...