قرآن تو ریاست پڑھائے گی! سمجھائے گا کون ؟

948

پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ وفاقی حکومت نے تدریس قرآن کو نصاب میں شامل کرنے کا فیصلہ مذہبی طبقے کے دبائو میں نہیں بلکہ ازخود کیا ہے کیونکہ ماضی قریب میں مذہبی طبقے کی جانب سے ایسا کوئی مطالبہ سامنے آیا ہے اور نہ فیصلہ کسی منظم تحریک کا نتیجہ ہے ۔

کسی بھی ریاست میں تعلیمی نصاب مستقبل سے متعلق ریاستی ترجیحات کی سمت کا تعین کرتا ہے کہ وہ آئندہ نسل میں کن خصلتوں کو دیکھنا چاہتی ہے ۔اگریہ کہا جائے کہ پاکستان کے موجودہ سماج کی فکر ی ساخت ،  ماضی کی مجموعی تعلیمی نصابی ترجیحات کا نتیجہ ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ ریاست نے نصابی سرگرمی کے طور پر قرآن پڑھانے کافیصلہ کرلیا ہے ۔یہ سیکولر ریاست کیلئے جدوجہد کرنے والوں کیلئے بری جبکہ مذہبی وابستگی رکھنے والوں کیلئے ایک اچھی خبر کے طور پر سامنے آئی ہے ۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانامحمدخان شیرانی اوروزیر مملکت برائے تعلیم و فنی تربیت بلیغ الرحمن نے مشترکہ پریس کانفرنس میں اس فیصلے سے آگاہ کیا۔ وزیرمملکت کے مطابق پہلی سے پانچویں جماعت تک تمام بچوں کوقرآن پاک ناظرہ پڑھایا جائے گا، چھٹی سے بارہویں جماعت تک طلبا کو قرآن پاک کی ترجمہ کے ساتھ تعلیم دی جائے گی۔ ساتویں سے دسویں جماعت تک قرآن مجید میں بیان کئے گئے واقعات پڑھائے جائیں گے۔دسویں سے بارہویں تک مسلمانوں کو دیئے گئے احکامات پر مشتمل صورتیں ترجمے کے ساتھ پڑھائی جائیں گی۔بلیغ الرحمان کا کہنا تھا کہ ہرجماعت میں قرآن مجید کی تعلیم کے لئے 15 منٹ کاخصوصی پیریڈ مختص کیا جائے گا۔ قومی نصاب کونسل کے اجلاس میں صوبوں کو تجاویز فراہم کردی ہیں صوبے تجاویز کاجائزہ لینے کے بعد اپنے فیصلے سے آگاہ کریں گے۔

 اس وقت جس مذہبی انتہا پسندی اور دہشتگردی کا سامنا ہے۔ اس کی بڑی وجہ مدارس کی مذہبی تعلیم پر اجارہ داری ہے اور ماضی میں ریاستی پالیسیاں ہیں۔جہاں ذولفقار علی بھٹو نے مذہبی طبقے کو استعما ل کیا اسی طرح ضیا الحق مرحوم نے مذہبی طبقے کی حمایت کے عوض مدارس کو سالانہ امداد دی

پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ وفاقی حکومت نے تدریس قرآن کو نصاب میں شامل کرنے کا فیصلہ مذہبی طبقے کے دبائو میں نہیں بلکہ ازخود   کیا ہے کیونکہ ماضی قریب میں مذہبی طبقے کی جانب سے ایسا کوئی مطالبہ سامنے آیا ہے اور نہ فیصلہ کسی منظم تحریک کا نتیجہ ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن )کے منشور میں بھی نصاب میں تدریس قرآن کی شمولیت کا کوئی وعدہ شامل نہیں رہا ہے ۔ اکثر و بیشتر ریاستوں میں اشرافیہ اور مقتدر حلقے ذاتی مفادات یا ان کے مطابق” قومی مفادات” کے حصول کیلئے پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں تاہم تاثر یہی دیا جاتا ہے کہ ریاستی فیصلے مفاد عامہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے کئے جار ہے ہیں ۔پاکستان میں مذہب کو سیاسی مفادات کے حصول میں استعمال کرنے کی ایک طویل تاریخ موجود ہے۔ ملک کو اس وقت جس مذہبی انتہا پسندی اور دہشتگردی کا سامنا ہے۔ اس کی بڑی وجہ مدارس کی مذہبی تعلیم پر اجارہ داری ہے اور ماضی میں ریاستی پالیسیاں ہیں۔جہاں ذولفقار علی بھٹو نے مذہبی طبقے کو استعما ل کیا اسی طرح ضیا الحق مرحوم نے مذہبی طبقے کی حمایت کے عوض مدارس کو سالانہ امداد دی۔افغانستان میں سویت یونین نے چڑھائی کی تو مدارس نے مجاہدین مہیا کئے ۔ اسی طرح ہر حکومت کیلئے مذہبی طبقے کی حمایت ضروری گردانی جاتی ہے۔

ریاستی سطح پر تدریس قرآن کا فیصلہ اُس مذہبی شدت پسند طبقے کو ایک پیغام دینا مقصود ہوسکتا ہے جو بزور طاقت شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں کہ ریاست مذہب اور مذہبی تعلیم سے غافل نہیں۔

تدریس قرآن کی تعلیمی نصاب میں شمولیت کا فیصلہ حکومت نے کن معرو ضی حالات کے پیش نظر کیا ہے اس حوالے سے حتمی طور پر کچھ کہاجانا ممکن نہیں تاہم کچھ عوامل ضرور ہیں جن کی مناسبت سے اس فیصلے کو سمجھا جاسکتا ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ حکومت کے کوئی سیاسی مقاصد نہیں ہیں تو یہ ہضم کرنا ذرا مشکل ہوگا۔پاکستان مسلم لیگ (ن)  کو پاکستان پیپلز پارٹی کی نسبت مذہبی طبقوں میں قابل قبول جماعت سمجھی جاتی ہے جبکہ (ن) لیگ کے دور حکومت میں ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد مذہبی طبقے میں مقبولیت کا گراف نیچے گرا اور شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ تدریس قرآن سے ان کی ہمدردیاں دوبارہ حاصل کرنے کی ایک کوشش ہوسکتی ہے۔پنجاب اسمبلی میں تحفظ نسواں کے قانون پر مذہبی طبقے کی جانب سے شدید تنقید کی گئی اور تاثر یہ سامنے آیا کہ حکومت مغربی ایجنڈے پر ملک کو لبرل ازم کی جانب لے جانا چاہتی ہے ۔پانامہ پیپرز کے بعد خاصی دبائو کا شکار حکومت تدریس قرآن کی تعلیمی نصاب میں شمولیت کے فیصلے سے دبائو میں کمی لانا بھی مقصود ہوسکتا ہے ۔ ریاستی سطح پر تدریس قرآن کا فیصلہ اُس مذہبی شدت پسند طبقے کو ایک پیغام دینا مقصود ہوسکتا ہے جو بزور طاقت شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں کہ ریاست مذہب اور مذہبی تعلیم سے غافل نہیں۔ ریاستِ پاکستان جن کے ساتھ بر سرپیکار ہے جن کے خلاف ” ضرب عضب ” چل رہی ہے ۔ حکمرانوں کے ذہنوں میں یہ بات بھی ہوسکتی ہے کہ اگر ریاست مذہبی تعلیم کی ذمہ داری اٹھالے تو مدارس کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

حکومتی فیصلے کی روشنی میں مدارس سے فارغ التحصیل مولویوں کو تدریس قرآن کیلئے سرکاری سطح پر ملازمتوں کے مواقع مل سکتے ہیں ، جو ایک مرتبہ پھر سماج کو شدت پسندی کی جانب لے جا سکتا ہے ۔ تدریس قرآن کیلئے مرتبہ نصاب میں سماجی برائیوں کے خاتمے ، اخلاق سازی ، رواداری ، عدم تشدد، اصلاح معاشرہ ، محبت و اخوت، بھائی چارے کے فروغ پر مبنی مضامین شامل کئے گئے تو مثبت نتائج بھی حاصل کئے جاسکتے ہیں ۔ 

سیاسی طور پر حکومت کو جو بھی فوائد حاصل ہوں کچھ امور ضرور توجہ طلب ہیں۔ تعلیمی نصاب میں تدریس قرآن کی تجاویز وزارت تعلیم و فنی تربیت کی جانب سے مرتب کی گئیں ہیں جو اٹھارویں ترمیم کے بعد معرض وجود میں آئی جس پر وفاقیت کے حامی حلقو ں کی جانب سے شدید تنقید ہوتی رہتی ہے جبکہ نصاب کی تشکیل جو خصوصی طو رپر صوبوں کی صوابدید  ہے اور آئینی طور پر وفاق کا نصاب سازی کے حوالے سے کوئی اختیار نہیں ہے ۔ وزارتِ تعلیم و تربیت کے فیصلے پر صوبوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور ممکنہ طور پر صوبے نصاب سازی کے حوالے سے اعتراض عائد کرسکتے ہیں اور وزارت تعلیم و فنی تربیت کی تجاویز پر علمدرآمد صوبوں پر لازم نہیں ہے اور اگر کسی ایک صوبے کی جانب سے اعتراض سامنے آگیا تو فیصلے کا ملک گیر نفاذ  مشکل ہو جائے گا بلکہ ایک نیا تنازع شروع ہو سکتا ہے ،صوبائی حکومتوں کیلئے فیصلہ انتہائی مشکل ہوگا۔

سب سے اہم سوال یہ ہے کہ نصاب میں تدریس قرآن کی ذمہ داری تو ریاست نے اٹھائی ہے تاہم نہیں بتایا گیا کہ سمجھائے گا کون ؟ کیا شخصی فہم ، تفہیم قرآن کیلئے کافی ہے؟

تدریس قرآن کی نصاب میں شمولیت کے فیصلے سے اگر یہ کہا جائے کہ مذہبی اور خصوصی طور پر قرآن کی تدریس پر مدارس کی اجارہ داری کا خاتمہ ممکن ہو جائیگا تویہ دیوانے کا خواب ہی ہوسکتا ہے۔حکومتی فیصلے کی روشنی میں مدارس سے فارغ التحصیل مولویوں کو تدریس قرآن کیلئے سرکاری سطح پر ملازمتوں کے مواقع مل سکتے ہیں ، جو ایک مرتبہ پھر سماج کو شدت پسندی کی جانب لے جا سکتا ہے ۔ تدریس قرآن کیلئے مرتبہ نصاب میں سماجی برائیوں کے خاتمے ، اخلاق سازی ، رواداری ، عدم تشدد، اصلاح معاشرہ ، محبت و اخوت، بھائی چارے کے فروغ پر مبنی مضامین شامل کئے گئے تو مثبت نتائج بھی حاصل کئے جاسکتے ہیں ۔ کہا گیاکہ نصاب میں شامل صورتوں کا ترجمہ بھی پڑھایا جائے گا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ترجمہ کس مکتب فکر کے مترجم کا ہوگا ، کیونکہ ایک مکتب فکر کا ترجمہ دوسرے مکتب کیلئے قابل قبول نہیں ہے اور اگر کسی ایک مکتب فکر کے ترجمے کو شامل کیا گیا تو ایک مرتبہ پھر مسلکی و فرقہ وارنہ مخاصمت کو ہوا مل سکتی ہے۔سب سے اہم سوال یہ ہے کہ نصاب میں تدریس قرآن کی ذمہ داری تو ریاست نے اٹھائی ہے تاہم نہیں بتایا گیا کہ سمجھائے گا کون ؟ کیا شخصی فہم ، تفہیم قرآن کیلئے کافی ہے؟ معقولات سے نا آشنا تعلیمی نصاب ، پڑھنے والوں کے فہم و فراست پر کیا اثرات مرتب کریگا ؟ تفہیم سے نابلد ذہن قرآن سے کیا سمجھے گا،کیا سیکھے گا؟ اور پھر اگر مقصود تفہیم نہیں ہے تو اتنی مشقت کیوں؟

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...