سانحہ آرلینڈو ۔۔۔۔امریکی مسلمانوں میں بڑھتی ہو ئی شدت پسندی
امریکہ کے مردم شماری کے بیورو کے مطابق امریکی مسلمانوں کی تعداد 27 لاکھ ہے جو کہ امریکہ کی آبادی کا 0.9فیصد ہے ۔ جبکہ بعض ذرائع یہ تعداد 65 لاکھ بتاتے ہیں ۔کیونکہ امریکہ میں صرف پاکستانی کمیونٹی کی تعداد سات لاکھ سے زائد ہے ۔جبکہ عرب اور افریقی مسلمان پاکستانیوں سے بڑا گروپ ہیں ۔
امریکہ کی تاریخ میں قتلِ عام کے حوالے سے 12 جون6201 ء ایک اور اندوہناک دن ہے جہاں ایک ہی واقعہ میں 50 افراد کو اس وقت گولیوں سے بھون دیا گیا جب وہ ہم جنسی کے ایک کلب میں رقص و سرود میں محو تھے ۔اس کا مرتکب ایک افغانی نژاد 29 سالہ امریکی شہری عمر متین کو قرار دیا گیا ہے جو کہ پرائیویٹ سیکورٹی آفیسر تھا۔
عمر متین نیویارک میں پیدا ہوا۔اس کے والد صدیق متین کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ خود بھی طالبان کے حمایتی رہے ہیں اور 2015ء میں افغانستان کے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے والے امیدواروں میں سے ایک تھے ۔ان کا کہنا ہے کہ کچھ ماہ پہلے جب وہ فلوریڈا کے شہر میامی میں تھے وہاں دو مردوں کو آپس میں بوس و کنار کرنے پر ان کے بیٹے کو بہت غصہ آیا تھا کیونکہ وہ ایسا اس کی بیوی اور بیٹے کے سامنے کر رہے تھے ۔عمر متین کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اس کی پہلی شادی ازبکستانی نژادایک لڑکی سے 2009 میں ہوئی تھی تاہم وہ بیوی پر تشدد کرتاتھا جس پر 2011میں دونوں کے مابین علیحدگی ہو گئی تھی جس کے بعد عمر متین نے ایک اور شادی کر لی جس سے اس کا ایک بیٹا بھی ہے ۔عمر متین کے باپ کے بقول اس واقعہ کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں تاہم عمر متین نے واقعے سے قبل خود پولیس کو فون کر کے اپنا تعلق دولت اسلامیہ سے بتایا اور اسی تنظیم نے اس واقعہ کی ذمہ داری بھی قبول کر لی ہے ۔
امریکہ میں مسلمانوں کی تاریخ تو خاصی قدیم ہے ۔کہا جاتا ہے کہ کولمبس سے بھی بہت پہلے افریقی مسلمان غلاموں کو امریکہ لا کر بیچا جاتا تھا ۔امام سراج وہاج جو کہ امریکہ کے ایک جید عالم دین ہیں ان کے بقول امریکہ کی تعمیر میں افریقی غلاموں کا بڑا کردار ہے جن میں سے اکثریت کا تعلق اسلام سے تھا مگر اسلام سے واجبی رغبت کی وجہ سے ان کے بچے اپنا تعلق اسلام سے برقرار نہ رکھ سکے
امریکہ میں سر عام فائرنگ کر کے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے واقعات تسلسل کے ساتھ رونما ہوتے رہتے ہیں جس کی ایک وجہ دماغی امراض کو قرار دیا جاتا ہے ۔ایک مطالعہ کے مطابق دنیا بھر میں قتل عام کے جتنے واقعات ہوتے ہیں اس کا ایک تہائی امریکہ میں ہوتے ہیں ۔1966ء سے 2012 ء تک دنیا بھر میں ایسے 292 واقعات ہوئے جن میں سے صرف امریکہ کے اندر ہونے والے واقعات کی تعداد 90ہے ۔امریکہ دنیا کی آبادی کا 5 فیصد ہے مگر دنیا بھر میں ہونے والے قتل عام کے تناسب میں اس کا حصہ 31 فیصد ہے ۔امریکہ کی آبادی 32 کروڑ ہے اور وہاں اسلحہ کی تعداد 31 کروڑ ہے ۔چونکہ امریکی آئین میں اسلحہ رکھنے کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے اس لئے امریکہ میں قانونی طور پر کسی بھی شہری سے یہ حق چھینا نہیں جا سکتا ۔مگر گزشتہ چند سالوں میں جس تیزی سے ان واقعات میں اضافہ ہوا ہے اس کو دیکھتے ہوئے خود صدر اوبامہ اس بات کے حامی ہیں کہ اسلحہ رکھنے کے اس حق کو محدود کیا جائے مگر امریکی آئین میں ترمیم ایک انتہائی مشکل چیز ہے اس لئے اسلحہ کی ممانعت کی کوششوں کو ابھی تک پزیرائی نہیں مل سکی ۔
امریکہ میں مسلمانوں کی تاریخ تو خاصی قدیم ہے ۔کہا جاتا ہے کہ کولمبس سے بھی بہت پہلے افریقی مسلمان غلاموں کو امریکہ لا کر بیچا جاتا تھا ۔امام سراج وہاج جو کہ امریکہ کے ایک جید عالم دین ہیں ان کے بقول امریکہ کی تعمیر میں افریقی غلاموں کا بڑا کردار ہے جن میں سے اکثریت کا تعلق اسلام سے تھا مگر اسلام سے واجبی رغبت کی وجہ سے ان کے بچے اپنا تعلق اسلام سے برقرار نہ رکھ سکے اور انھوں نے اپنا مذہب تبدیل کر لیا ۔کہا جاتا ہے کہ دنیا میں ایک عرصے تک بلند ترین عمارت کا اعزاز رکھنے والی عمارت ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ کی تعمیر میں بھی مسلمان غلام ہی شریک تھے ۔
امریکی مسلمانوں کے اندر شدت پسندی تیزی سے پھیل رہی ہے ۔2002ء سے 2016 کے درمیان امریکہ کے اندر 10 جہادی حملوں میں 95 افراد ہلاک ہوئے جبکہ صرف 2015ء کے دوران 81 امریکی مسلمان پر تشدد حملوں کے منصوبوں میں شریک پائے گئے ۔یہ تعداد 9/11 کے حملوں کے بعد کسی بھی سال میں سب سے زیادہ ہے ۔
امریکہ کے مردم شماری کے بیورو کے مطابق امریکی مسلمانوں کی تعداد 27 لاکھ ہے جو کہ امریکہ کی آبادی کا 0.9فیصد ہے ۔ جبکہ بعض ذرائع یہ تعداد 65 لاکھ بتاتے ہیں ۔کیونکہ امریکہ میں صرف پاکستانی کمیونٹی کی تعداد سات لاکھ سے زائد ہے ۔جبکہ عرب اور افریقی مسلمان پاکستانیوں سے بڑا گروپ ہیں ۔امریکہ میں مسلمانوں کی اسلام سے وابستگی بھی زیادہ ہے جس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ امریکی معاشرے میں انھیں ہنوز قبول نہیں کیا گیا اور مسلمانوں کی یہ تنہائی 9/11 کے بعد بڑھی ہے ۔پیو کے ایک سروے کے مطابق 69 فیصد امریکی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اسلام ان کی زندگی کا سب سے اہم جزو ہے ۔65 فیصد روزانہ نماز ادا کرتے ہیں ۔70 فیصد امریکی مسلمانوں کا جھکاؤ ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب ہے ۔جبکہ اس کے مقابلے میں ریپبلکن سے وابستگی صرف 14 فیصد ہے اس لئے امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف رائے عامہ تیزی کے ساتھ ہموار ہو رہی ہے جس کا فائدہ ریپبلکن پارٹی کے موجودہ صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اٹھانے کی کوشش میں ہیں۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ اس لئے کہا جا رہا ہے کہ آرلینڈو کے سانحہ کا اثر امریکہ کے صدارتی انتخابات پر بھی ہو سکتا ہے ۔
23 اکتوبر 2015ء کو ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کومی نے یہ کہہ کر سب کو حیران کر دیا کہ 50 امریکی ریاستوں میں ایسے 900 شہری گرفتار ہیں جن پر دہشت گردی کی کوششوں کا الزام ہے اور ان میں سے اکثریت کا تعلق دولت اسلامیہ سے ہے ۔
امریکی مسلمانوں کے اندر شدت پسندی تیزی سے پھیل رہی ہے ۔2002ء سے 2016 کے درمیان امریکہ کے اندر 10 جہادی حملوں میں 95 افراد ہلاک ہوئے جبکہ صرف 2015ء کے دوران 81 امریکی مسلمان پر تشدد حملوں کے منصوبوں میں شریک پائے گئے ۔یہ تعداد 9/11 کے حملوں کے بعد کسی بھی سال میں سب سے زیادہ ہے ۔ان میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی تھی جو شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ سے ہمدردی رکھتے تھے اور انھوں نے اس تنظیم میں شمولیت کے لئے عراق یا شام جانے کی کوشش کی ۔41 امریکی مسلمانوں نے النصری ٰ فرنٹ میں شمولیت اختیار کر لی ۔ان میں سے کئی صومالیہ میں الشباب سے بھی جاملے جو کے القائدہ کا حمایت یافتہ گروپ ہے ۔جنوری 2015ء میں پاکستان میں ڈرون حملے میں القائدہ برصغیر کا نائب امیر احمد فاروق مارا گیا جو امریکی شہری تھا ۔امریکی مسلمانوں میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کی حمایت بڑھ رہی ہے مارچ 2015ء میں ایسے 404 ٹوئٹر اکاونٹس کا پتہ چلایا گیا جن کا ٹائم زون امریکہ تھا اور وہ دولت اسلامیہ کے حمایتی تھے ۔تاہم 23 اکتوبر 2015ء کو ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کومی نے یہ کہہ کر سب کو حیران کر دیا کہ 50 امریکی ریاستوں میں ایسے 900 شہری گرفتار ہیں جن پر دہشت گردی کی کوششوں کا الزام ہے اور ان میں سے اکثریت کا تعلق دولت اسلامیہ سے ہے ۔
9/11 کے بعد امریکہ کی سیکورٹی کافی سخت کی گئی اور کہا گیا کہ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ 9/11 کے بعد دہشت گرد کوئی اور کارروائی کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ۔اس مقصد کے لئے ایف بی آئی کا سالانہ بجٹ 40 ارب ڈالر کے قریب ہے مگر دیکھا گیا ہے کہ جن واقعات کو انھوں نے میڈیا میں پیش کیا ان میں سے زیادہ تر وہ تھے جن میں دہشت گردی کے محرک خود ایف بی آئی کے ایجنٹ تھے ۔یعنی پہلے انھوں نے ایسے لوگوں کو شناخت کیا جو دہشت گردی کی طرف مائل ہو سکتے تھے پھر ان کا حامی بن کر ان کی ذہن سازی کی اور جب انھوں نے دہشت گردی کی کارروائی کی منصوبہ بندی کی تو انھیں گرفتار کر لیا گیا ۔ اس حکمت عملی سے ایف بی آئی یہ سمجھتی رہی کہ اس طرح امریکی مسلمانوں میں خوف و ہراس کی جو فضاپیدا ہو رہی ہے اس سے انھیں ایسے واقعات سے روکا جا سکتا ہے ۔ یہ حکمت عملی دس سال تک کارگر رہی مگر اس کے بعد ایسے واقعات تسلسل سے ہونے لگے ہیں جس کی وجہ دولت اسلامیہ کے نظریا ت کو قرار دیا جا رہا ہے ۔
امریکہ میں مسلمانوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی کو ئی کوشش نہیں کی گئی ۔وہ اب خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں کیونکہ انھیں کام والی جگہوں پر نسلی اور مذہبی تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔امریکی آجر انھیں ملازمتیں دینے میں بھی امتیاز برتتے ہیں جس کی وجہ سے اب وہاں ایسی آبادیوں میں اضافہ ہو رہا ہے جہاں مسلمان محلوں کی صورت میں اکھٹے ہو رہے ہیں ۔
امریکہ میں مسلمانوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی کو ئی کوشش نہیں کی گئی ۔وہ اب خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں کیونکہ انھیں کام والی جگہوں پر نسلی اور مذہبی تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔امریکی آجر انھیں ملازمتیں دینے میں بھی امتیاز برتتے ہیں جس کی وجہ سے اب وہاں ایسی آبادیوں میں اضافہ ہو رہا ہے جہاں مسلمان محلوں کی صورت میں اکھٹے ہو رہے ہیں ۔ نیویارک میں بروکلین ،کوئینز اور برونکس کے کئی اضلاع اس کی بڑی مثالیں ہیں ۔اسی طرح امریکہ بھر سے مسلمان ہیوسٹن ، شکاگو، لاس اینجلس اور ڈیلس میں اکھٹے ہو رہے ہیں ۔جس کی بڑی وجہ عدم تحفظ اور امریکی معاشرے میں عدم قبولیت قرار دی جا سکتی ہے ۔کیونکہ اکثر واقعات کے مرتکب مسلمان نوجوان ایسے تھے جوامریکہ میں ہی پیدا ہوئے ۔جب معاشرے نے انھیں قبول نہیں کیا تو وہ اسلامی جہادی تحریکوں کی طرف مائل ہوئے ۔ایسے واقعات روز بروز بڑھ رہے ہیں ۔اور ان کی وجہ جہاں عالم اسلام کی مجموعی صورتحال ہے وہاں امریکہ خود بھی اس کا ذمہ دار ہے کہ وہ مسلمانوں کو اپنے معاشرے کا حصہ بنانے میں ناکام رہا ہے ۔اور اس بات کا خدشہ ہے کہ ایسے واقعات سے امریکی مسلمانوں کے اندر عدم تحفظ اور تنہائی کا احساس بھی بڑھے گا جس سے حالات مزید خراب ہوں گے ۔
فیس بک پر تبصرے