کیا عمران خان اپنے وزیر اعلی کے ہاتھوں یرغمال بن چکے؟
کیا تحریک انصاف کے سربراہ اپنی صوبائی حکومت پر الزامات کی کوئی سادہ سی انکوائری کروا پائیں گے؟
ہماری اقتدار کی سیاست میں ابھرتی ہوئی جماعت،تحریک انصاف کی قیادت،اِن دنوں ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے تنظیمی ڈھانچہ میں پنپنے والے تنازعات کو سلجھانے میں سرگرداں تھی کہ خیبر پختون خوا سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے پانچ ایم این ایز پہ مشتعمل گروپ،جنہیں حکومتی ڈھانچہ میں بیٹھی کئی طاقتور شخصیات کی حمایت حاصل ہے،نے وزیراعلی پرویز خٹک کی مبینہ کرپشن اور پارٹی کے اساسی نظریات سے انحراف کی پالیسی کے خلاف مزاحمتی تحریک برپا کر دی،اس سے پہلے بلدیاتی اداروں کے وہ نو منتخب ناظمین اور کونسلرز بھی سراپا احتجاج تھے جنہیں ایک سال گزر جانے کے باوجود اختیارات ملے نہ ترقیاتی فنڈ،مقامی ہوٹل میں پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران داور کنڈی،امیر اللہ مروت،جنید اکبر خان،ساجد نواز خان اور خیال زمان آفریدی نے کہا کہ وزیراعلی خود روایتی سیاست کے شناور اور بدعنوانوں کے دیوتا واقع ہوئے ہیں،انہوں نے کرپشن کے خاتمہ کی کوشش کے برعکس ایم پی ایز کو ترقیاتی فنڈ جاری کر کے اس ابھرتی ہوئی سیاسی قوت کو بھی بدعنوانی کے اس روایتی دھارے کا جز بنا دیا،جسے روکنے کی خاطر اس پارٹی کو منظم کیا گیا تھا،صوبائی حکومت نے پارٹی منشور کے تحت 90 دنوں کے اندر بلدیاتی الیکشن کروانے کا وعدہ پورا کرنے کی بجائے پہلے تو دو سال کی پس پش کے بعد انتخابات کرائے اور اب کامل ایک سال گزر جانے کے باوجود بلدیاتی اداروں کو فنڈ ریلیز کرنے اور اختیارت کی منتقلی میں لعت و لعل سے کام لیا جا رہا ہے،انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ایم پی ایز کے کارنامے بتاتے ہوئے شرم آتی ہے لیکن صوبائی ممبران اسمبلی نچلی سطح پہ کرپشن و بدعنوانی کی سرپرستی وزیراعلی کی آشیرواد سے کرتے ہیں،اگر کرپش کی لہر کو روکا نہ گیا تو یہ پارٹی بدعنوانی کے سیلاب میں بہیہ جائے گی، پارٹی پالیسی کے مطابق ممبران اسمبلی کو ترقیاتی فنڈ سے الگ رکھنے کی بجائے صوبائی حکومت نے ایم پی اے کی منہ بھرائی کے لئے بلدیاتی فنڈ سے 80 فیصد کٹوتی کر لی،جس سے ایک طرف کرپشن بڑھی تو دوسری جانب بلدیاتی ادارے مفلوج ہو کے رہ گئے ،انہوں کہا، عمران خود وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں۔
وزیر اعلی نے اسی ترقیاتی فنڈ کی ترسیل کے ذریعے جے یو آئی(ف) پیپلز پارٹی،اے این پی اور مسلم لیگ کے ایم پی ایز کو تو اپنا ہمنوا بنا لیا لیکن اپنی جماعت کی بنیادیں کھوکھلی کر کے آئندہ الیکشن میں پارٹی کے مستقبل کو تاریک بنا دیا،تحریک انصاف کی اعلانیہ پالیسی کے تحت ترقیاتی فنڈ ممبران اسمبلی کی بجائے بلدیاتی اداروں کی وساطت سے خرچ ہونا تھے اور انہی بلدیاتی نمائندوں کی وساطت سے نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی یقینی بنائی جانی تھی لیکن صورت حالات اسکے برعکس ہے، منتخب بلدیاتی نمائندے اختیارات اور فنڈ کے حصول کی خاطر اپنی ہی حکومت کے خلاف سڑکوں پر محو احتجاج ہیں اور اسی کارن صوبائی حکومت کی ناک کے نیچے پی کے 8 پشاور میں پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، 2013ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے جس منشورکوعوام نے ووٹ دیا وہ اب اقتدار کی مصلحتوں کی دھند میں گم ہو چکا ،گزشتہ تین سالوں میں پارٹی منشور کی ایک شق پر عمل درآمد نہیں کیا جا سکا،پچھلی حکومتوں کی طرح آج بھی ترقیاتی کاموں کے ٹھیکوں پہ رنگ وصول اور ہسپتالوں کی نوکریاں فروخت ہو رہی ہیں،سکولوں میں علامتی بہتری آئی لیکن سڑکیں خستہ حال ، پینے کے صاف پانی کی فراہمی میں ناکامی اور حفظان صحت کے اداروں کی ابترحالت دیکھ کے رونا آتا ہے،انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایم پی ایز کو ترقیاتی فنڈ فراہمی بند کی جائے کیونکہ ایم پی ایز کا کام گلیوں،نالیوں کی مرمت اورمویشی منڈیوں کے ٹھیکوں کی نیلامی نہیں بلکہ قانون سازی ہے ،ترقیاتی فنڈ معاشرے کی شراکت سے بلدیاتی اداروں کی وساطت سے خرچ ہوں گے تو ترقی کے ثمرات پسماندہ علاقوں کے محروم طبقات تک پہنچ پائیں گے لیکن صوبائی حکومت نے ان تین سالوں میں خیبر پختون خوا میں ترقیاتی کاموں کے لئے جو 450 ارب مختص کئے ان میں سے 200 ارب روپے واٹر پمپوں کی تنصیب کے نام پہ بدعنوانی کی نظر ہوگئے،انہوں نے کہا کہ تبدیلی فریب نظر ہے، اسی فرسودہ نظام کی آبیاری کی جا رہی ہے جسے بدلنے کا ہمیں مینڈیٹ ملا۔کوہاٹ سے ممبر قومی اسمبلی جنید خان نے کہا کہ بیس سال سے تحریک انصاف سے وابستہ ہوں،ہم عمران خان کے خلاف نہیں انکی ایک کال پہ آدھ گھنٹہ میں استعفی پیش کر دیا لیکن ہماری صوبائی حکومت خان کے وویژن اور منشور سے متصادم راہوں پہ گامژن اور حکومتی ایوانوں میں چور لٹیروں کی موجودگی پارٹی منشور پر عمل درآمد کی راہ میں حائل ہو گئی ہے، اسلئے ہم عوام سے کرپشن کے خاتمہ کے وعدہ ایفا نہیں کر سکے۔
حیرت ہے بدعنوانوں کے کڑے احتساب کے منشور کی حامل پی ٹی آئی حکومت کے عہد میں ڈی جی احتساب اور ڈائریکٹر انٹی کرپشن کے عہدے خالی قرار دیکر احتساب کے رہے سہے نظام کو بھی مقفل کر دیا گیا،یہ اسلئے کیا گیا کہ خود وزیراعلی احتساب کی زد میں آتے تھے،تحریک انصاف کے حامی اداروں کی مضبوطی پر یقین رکھتے ہیں لیکن صوبائی حکومت اداروں کو عضو معطل بنا کے شخصیات کو بالادست بنانا چاہتی ہے،حکومت نے تمام یونیورسٹیز اور لوکل گورنمنٹ سسٹم میں پری آدٹ کے نظام کی بساط لپیٹ کے سرکاری محکموں کو مادرپدر آزاد کر دیا،صوبہ بھر کے وسائل نوشہرہ اور مردان پہ خرچ کر کے پسماندہ علاقوں کے عوام سے تفریق برتی گئی،امیرنواز مروت نے کہا ہمیں پارٹی لیڈر شپ سے گلہ نہیں خرابی صرف ایک شخص میں ہے جسے پرویز خٹک کہتے ہیں،پشاور سے ایم این ساجد نواز نے کہا وزیراعلی نے سرکاری وسائل کی بندر بانٹ سے فرینڈلی اپوزیش بنائی،جو انکی کرپشن پہ لب کشائی تو نہیں کرتی مگر یہ طرز عمل پارٹی کے مستقبل کو تباہ کر دے گا،ہنگو سے رکن قومی اسمبلی خیال زمان نے کہا ہم علی بابا چالیس چوروں کی حکومت کو تسلیم کرتے ہیں نہ قومی وسائل پر کسی کو ذاتی شکوہ کا محل تعمیر کرنے دیں گے،بلدیاتی نظام کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا تمام وسائل بلدیاتی اداروں کے ذریعے عوام کی منشاء کے مطابق خرچ ہونے چاہیں،تحریک انصاف کے منشور کے مطابق ہر ضلع میں یونیورسٹی کا قیام، صوبہ بھر میں موٹر ویز ،پارکوں،کھیل کے میدانوں ، ماڈل سٹیز اور انڈسٹریل زون کے قیام کے ذریعے فلاحی معاشرے کی تشکیل کرنا تھی لیکن حکومت نے منشور کو پس پشت ڈال دیا ،پٹواری کلچر کے خاتمہ کا دعوی کرنے والوں کے عہد میں پٹواری ہر مشتری سے دو قسمیں لیتا ہے، ایک رقم لینے کی اور دوسری شکایت نہ کرنے کی۔
اس موقعہ پہ ولیج کونسل اتحاد کے عہدیداروں نے بھی ایم این ایز کی پارٹی بچاؤ تحریک کا ساتھ دینے کا اعادہ کیا،برگشتہ ممبران قومی اسمبلی نے عزم ظاہر کیا کہ احتسابی عمل کی بحالی اور بلدیاتی اداروں کو اختیارت کی منتقلی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے ۔واقفان حال کا کہنا ہے کہ ایم این ایز کے بعد ایم پی اے یٰسین خلیل اور قربان خٹک کی قیادت میں پی ٹی آئی کے 16 ایم پی ایز بھی صوبائی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والے ہیں تاہم پرویز خٹک مطمعن ہیں کہ انہیں اپوزیش بنچوں کی موثرحمایت حاصل رہے گی،ایک صوبائی وزیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پہ بتایا کہ اگر پوری پی ٹی آئی وزیراعلی کے خلاف ہو جائے تو بھی اپوزیشن ممبران کے علاوہ انہیں صرف چار اراکین کی حمایت درکا ہو گی اور وہ چار ووٹ خود انکے اپنے گھر کے ہوں گے۔اس میں شک نہیں کہ دھواں وہاں سے اٹھتا ہے جہاں آگ لگی ہو،یہ جو اتنا شور برپا ہے، کچھ تو ہو گا، قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبران کی مخالفت سے قطع نظر،صوبہ بھر کی یونیورسٹیز میں پری آڈٹ سسٹم کی بساط لپیٹ لینے کے علاوہ احتساب کمشن کو غیر موثر بنانے اورڈائریکٹر انٹی کرپشن ضیاء الدین طورو کو منصب سے ہٹا کے انسداد رشوت ستانی کے ادارہ کو مفلوج بنانے کی وجوہات ہوں گی جنہیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے،خیبر پختون خوا کی 9 یونیورسٹیوں کے وائس چانسلز کی تعیناتی کے عمل میں بے قاعدگیوں کے افشاں کے بعد ہائر ایجوکیشن کمشن کی سیکریٹری فرح حامد کو ہٹانے سے قبل اس سیکرٹری انڈسٹریز کو بھی بے آبرو کر کے صوبہ بدر کیا گیا جس نے دہشت گردی سے متاثرہ کاروباری اداروں کو حکومتی امداد کی فراہمی میں اربوں کے گھپلوں کی نشاندہی کی تھی،عمران خان ان الزمات کی کوئی سادہ سی انکوائری کرانے کے متحمل ہو پائیں گے؟ ۔
فیس بک پر تبصرے