لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ، حقیقت کچھ اور ہے!
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ 7سے 8000 میگا واٹ کے تمام منصوبے مقررہ مدت تک مکمل ہو جائیں گے تو پھر بھی یہ بجلی موجودہ ڈسٹریبیوشن سسٹم کے تحت نیشنل گرڈ میں نہیں لائی جا سکتی کیونکہ اس میں اتنی مزید بجلی شامل کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے
پاکستان آج کل شدید گرم اور خشک موسم کی زد میں ہے ،کچھ شہروں میں ریکارڈ توڑ گرمی پڑھ رہی ہے جہاں درجہ حرارت 51 سینٹی گریڈ سے بھی اوپر جا چکا ہے ۔جس کی وجہ سے بجلی کی مانگ بڑھ گئی ہے مگر دوسری جانب حکومت بجلی کی لوڈ شیڈنگ یا پھر پاور مینجمنٹ پر مجبور ہے ۔
وزیر اعظم نواز شریف نے نیلم جہلم منصوبے کا دورہ کیا اور تعمیراتی کام تیز کرنے کی ہدایت کی تاکہ جون 2015 تک اسے مکمل کیا جا سکے ۔اس منصوبے پر تعمیراتی کام کا آغاز 2008ء میں ہوا تھا اور اسے اگست 2016ء میں مکمل ہونا تھا۔مگر ابھی تک اس پر کام کی رفتار بہت سست ہے ۔واپڈا کا منگلا پاور ری فربشمنٹ پراجیکٹ بھی تاخیر کا شکار ہوا ۔اسی طرح 102 میگا واٹ کا ہائیڈرو پاور گولن گول منصوبہ جسے 2017ء میں مکمل ہونا تھا اسے بھی غیر متوقع رکاوٹوں کا سامنا ہے اور یہ بھی تاخیر کا شکار ہے
شہروں میں رہنے والے روزانہ 10 سے ب12گھنٹے لوڈ شیڈنگ کا عذاب جھیل رہے ہیں اور بعض اوقات تو انھیں معمول سے ہٹ کر بھی لوڈشیڈنگ برداشت کرنا پڑتی ہے جبکہ دیہات میں رہنے والوں کو تومعلوم ہی نہیں کہ بجلی کب آتی ہے اور کب چلی جاتی ہے ۔معمول سے ہٹ کر کئی کئی گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ سے پانی کی سپلائی بری طرح متاثر ہوتی ہے جبکہ ہسپتالوں کے معمولات بھی درہم برہم ہو جاتے ہیں جہاں پر سٹاٖ ف ، مریٖض اور تیمار دار سبھی کی حالت قابل رحم ہوتی ہے ۔بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر کئی جگہوں پر شدید مظاہرے ہوئے ہیں جن میں سے کئی پر تشدد مظاہروں میں بدل گئے ۔جبکہ دوسری جانب ملک بھر میں جاری گرمی کی لہر سے درجنوں لوگ ہلاک اور سینکڑوں بے ہوش ہو چکے ہیں ۔
حکومت کا یہ دعویٰ کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری سے منسلک اکنامک زونز کے لئے بجلی کے جو منصوبے شروع کئے گئے ہیں وہ 2017ء کے اختتام تک مکمل ہو جائیں گے ،بھی قرین قیاس نہیں لگتا۔
اس وقت ملک میں بجلی کی پیداواری صلاحیت (بشمول کے الیکٹرک ) 23،617میگاواٹ ہے لیکن کئی وجوہات کی وجہ سے یہ حاصل نہیں کی جا سکی ۔ اس وقت جو بجلی پیدا کی جارہی ہے وہ 18440میگا واٹ ہے ۔نیپرا کی سالانہ رپورٹ 2015 میں کہا گیا ہے کہ اس کی ذمہ دار وزارت پانی و بجلی ہے ۔مئی 2016ء میں بجلی کی پیداوار 16700میگاواٹ رہی جبکہ اس کی مانگ 23000میگاواٹ تھی۔چنانچہ 6000سے 7000میگاواٹ کمی کا سامنا رہا ۔
نیپرا اورNTDCکا دعویٰ ہے کہ شارٹ فال 3000میگا واٹ کا ہے جو کہ درست نہیں ہے ۔حکمران یہ دعویٰ مسلسل کر رہے ہیں کہ ایک سال میں بجلی کی پیداواری صلاحیت میں 2000میگا واٹ کا اضافہ کیا گیا ہے ۔لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے ۔ گرمیوں کی وجہ سے بجلی کی طلب میں اضافہ ہو چکا ہے ۔رمضان کی آمد آمد ہے اور ملک شدید گرمی کے موسم سے گزر رہاہے اور اس بات کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ لوگوں کو لوڈ شیڈنگ میں کمی یا پھر غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ سے نجات مل جائے ۔مگر دوسر ی جانب حکومت مسلسل یہ وعدہ کرتی نظر آتی ہے کہ عوام کو جلد لوڈ شیڈنگ سے نجات مل جائے گی اور اس مقصد کے لئے ہر بار ایک نئی ڈیڈ لائن سامنے آجاتی ہے ۔نیشنل انرجی پالیسی 2013-2018 میں کہا گیا کہ 2017ء تک لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو جائے گا جبکہ 2018ء میں بجلی سرپلس ہو گی ۔تاہم اب لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی نئی ڈیڈ لائن جون 2018ء مقرر کی گئی ہے ۔حکومت کے پچھلے تین سال جس میں بجلی کی پیداوار اور ٹرانسمشن لائن کو بہتر کرنے کے سب دعوے ہوا ہو چکے ہیں جس کی بناء پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کی نئی ڈیڈ لائن بھی گزر جائے گی ۔نیپرا پہلے ہی ایسے دعووں کو رد کرتے ہوئے کہہ چکا ہے کہ اگر تمام منصوبے بر وقت مکمل ہو بھی جائیں جو کہ نظر نہیں آتا تب بھی شاید لوڈ شیڈنگ 2018ء کے بعد بھی برقرار رہے ۔
بجلی کی پیداوار کا نظر ثانی شدہ پلان جس کے تحت کئی چھوٹے اور درمیانی درجے کے منصوبے ملک بھر میں شروع ہیں ان سے 2017ء کے موسم سرما تک 10000میگا واٹ تک بجلی نیشنل گرڈ میں آ نی چاہئے ۔اس سلسلے میں حکومت کا زیادہ انحصار 969میگاواٹ کے نیلم جہلم ہائیڈرو الیکٹرک اور 1410 میگا واٹ کے تربیلا فورایکسٹینشن پر ہے ۔وزیر اعظم نواز شریف نے حال ہی میں واپڈا کو ہدایت کی ہے کہ وہ دونوں منصوبوں کو 2017ء سے پہلے مکمل کرے ۔لیکن نیلم جہلم کے بارے میں مشکل سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی ٹائم لائن کے مطابق مکمل ہو جائے گا ۔آپ کو یاد ہو گاکہ جب 19 جون 2013ء کو وزیر اعظم نواز شریف نے نیلم جہلم منصوبے کا دورہ کیا اور تعمیراتی کام تیز کرنے کی ہدایت کی تاکہ جون 2015 تک اسے مکمل کیا جا سکے ۔اس منصوبے پر تعمیراتی کام کا آغاز 2008ء میں ہوا تھا اور اسے اگست 2016ء میں مکمل ہونا تھا۔مگر ابھی تک اس پر کام کی رفتار بہت سست ہے ۔واپڈا کا منگلا پاور ری فربشمنٹ پراجیکٹ بھی تاخیر کا شکار ہوا ۔اسی طرح 102 میگا واٹ کا ہائیڈرو پاور گولن گول منصوبہ جسے 2017ء میں مکمل ہونا تھا اسے بھی غیر متوقع رکاوٹوں کا سامنا ہے اور یہ بھی تاخیر کا شکار ہے ۔147 میگا واٹ کا پیٹرنڈ ہائیڈرو پاور منصوبہ جو کہ پرائیویٹ سیکٹر کے پاس ہے اس پر کام کی رفتار تسلی بخش ہے اور یہ اپنے معمول کے مطابق اپریل 2017ء تک مکمل ہو جائے گا ۔
نیپرا پہلے ہی ایسے دعووں کو رد کرتے ہوئے کہہ چکا ہے کہ اگر تمام منصوبے بر وقت مکمل ہو بھی جائیں جو کہ نظر نہیں آتا تب بھی شاید لوڈ شیڈنگ 2018ء کے بعد بھی برقرار رہے ۔
یہ بات باعث تسکین ضرور ہے کہ چشمہ نیو کلئیر پراجیکٹ کے دو حصے چشمہ 3 اور چشمہ 4 جن میں سے ہر ایک کی صلاحیت 430 میگاواٹ ہے وہ تکمیل کے قریب ہیں اور انھیں 2016 یا 2017ء میں نیشنل گرڈ سے منسلک کر دیا جائے گا ۔اسی طرح حکومت کا یہ دعویٰ کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری سے منسلک اکنامک زونز کے لئے بجلی کے جو منصوبے شروع کئے گئے ہیں وہ 2017ء کے اختتام تک مکمل ہو جائیں گے ،بھی قرین قیاس نہیں لگتا۔
اس فہرست میں 720 میگا واٹ کے خروٹ ہائیڈرو پاور کی تاریخ تکمیل دسمبر 2020 ء ہے اور 870 میگا واٹ کا سکھی کناری ہائیڈور پاور بھی جون 2022ء میں مکمل ہو گا ۔مگر عملی طور پر ان دونوں منصوبوں پر ابھی تک کام شروع ہی نہیں ہو سکا ۔1320 میگا واٹ کا ساہیوال کول پاور پراجیکٹ جو کہ پنجاب میں ہے واحد منصوبہ ہے جو کہ مقررہ مدت کے اندر مکمل ہو سکتا ہے ۔1320 میگاواٹ کا پورٹ قاسم الیکٹرک منصوبہ جو کہ در آمدی کوئلے سے بجلی بنائے گااس کی تاریخ تکمیل جون 2018ء ہے ۔ اینگرو تھر کول کا 660 میگاواٹ کا منصوبہ اس کی مقررہ مدت تکمیل اکتوبر 2018ء ہے مگر اس کی رفتار بھی منفی ہے ۔1000 میگا واٹ کا قائد اعظم سولر پارک منصوبہ بھی زیر تکمیل ہے ۔ 300 میگاواٹ کا گوادر کول پراجیکٹ شروع ہونے والا ہے ۔200 میگا واٹ کے ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے بھی 2018ء تک سامنے آنےچا ہیں ۔
گڈانی میں 6600 میگا واٹ کا پاکستان پاور پارک کا منصوبہ ماضی قریب میں ترک کیا جا چکا ہے ۔در آمدی کوئلے کے 1320 میگاواٹ کے دو منصوبے بھیلی (شیخو پورہ) اور حویلی بہادر(جھنگ) بھی ابھی تک شروع نہیں کئے جا سکے ۔425 میگا واٹ کے ندی پور تھرمل پاور پراجیکٹ کا حال تو سبھی کو معلوم ہے ۔
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ 7سے 8000 میگا واٹ کے تمام منصوبے مقررہ مدت تک مکمل ہو جائیں گے تو پھر بھی یہ بجلی موجودہ ڈسٹریبیوشن سسٹم کے تحت نیشنل گرڈ میں نہیں لائی جا سکتی کیونکہ اس میں اتنی مزید بجلی شامل کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے ۔حکومت نے پاور سیکٹر میں تجویز کردہ اصلاحات کو بھی کبھی گھاس نہیں ڈالی ۔جبکہ دوسری جانب پاور سیکٹر کا جاری خسارہ موجودہ مالی سال میں 337 ارب تک پہنچ گیا ہے جو کہ اس بحران میں مزید اضافے کا سبب بن رہا ہے ۔
(مصنف سٹیٹ انجنئیرنگ کارپوریشن کے سابق چئیرمین ہیں )
(بشکریہ دی نیوز ، ترجمہ : سجاد اظہر، گرافکس : حضرت بلال )
فیس بک پر تبصرے