منحوس ماری عوام

1,090

افسران و ملازمین کی بہت بڑی تعداد کرپٹ ثابت نہیں ہوتی۔ کیونکہ کرپٹ ثابت ہونے کے لیے چہرے پہ نحوست کا ہونا ضروری ہے۔

صدر پاکستان جناب ممنون حسین صاحب نے بددیانت اور ایماندار میں ایمان افروز فرق بتایا ہے جو پڑھنے کے بعد کم از کم میں جھوم اٹھا ہوں اور اہل ایمان بھی ضرور جھومے ہوں گے۔

انہوں نے فرمایا: ”جو جتنا کرپٹ اس کے چہرے پر اتنی ہی نحوست ہوتی ہے“ فرماتے ہیں: ”کرپٹ لوگوں میں بھی مختلف درجات ہیں کوئی بہت زیادہ کرپٹ ہے کوئی درمیانہ کرپٹ ہے بہت زیادہ کرپٹ لوگ منحوس ہوتے ہیں ان کے چہروں سے نحوست ٹپک رہی ہوتی ہے اللہ کی لعنت اُن کے چہروں پر ہوتی ہے۔“

صدر صاحب کی پیش کردہ تعریف کے مطابق حکمران سیاست دان بیورو کریٹس آرمی مین اور واپڈا، ٹیلی فون، گیس، ڈویلپمنٹ اتھارٹی، ایف آئی اے، پی آئی اے، دفتر خارجہ، و داخلہ، پولیس اور پٹوار کے افسران و ملازمین کی بہت بڑی تعداد کرپٹ ثابت نہیں ہوتی۔ کیونکہ کرپٹ ثابت ہونے کے لیے چہرے پہ نحوست کا ہونا ضروری ہے۔ کم از کم میری معلومات کے مطابق مندرجہ بالا طبقوں کے چہرے اعلیٰ خوراک، ماحول اور لباس کی وجہ سے ہمیشہ روشن، ہشاش بشاش اور نورانی رہتے ہیں۔ ہاں اس ملک کا ایک طبقہ ہے جس کے چہرے پہ 24 گھنٹے نحوست چھائی رہتی ہے اور وہ عوام ہے۔ عوام میں سے بشمول میرے جب کوئی ٹیلی فون، گیس اور واپڈا کے دفتر میں داخل ہوتا یا باہر نکلتا ہے اس کے چہرے سے ایسی نحوست ٹپک رہی ہوتی ہے جو دیکھنے کے قابل بھی نہیں ہوتی۔ میں نے واپڈا کے دفتر اس منحوس عوام کو دربدر کی ٹھوکریں کھاتے دیکھا ہے۔کئی محکمے ایسے ہیں جہاں اعلیٰ افسران رشوت سرِعام لے رہے ہیں اور عوام دینے پر مجبور ہے۔

نحوست کی جو تعریف صدر صاحب فرما رہے ہیں وہ نحوست اکثر غریبوں کے چہرے پہ نظر آتی ہے۔ ان کی پریشانیاں انہیں وقت سے پہلے بوڑھا کر دیتی ہیں، جھریاں چہرے پہ ظاہر ہو جاتی ہیں، دھوپ اُن کے جسم و چہرہ کو جھلسا کر رکھ دیتی ہے۔ بھوک اور مفلسی اُن کی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے

صدر پاکستان نحوست کی تعریف اور خدوخال کی وضاحت کر دیتے تو ان کی بات سمجھنے میں مزید آسانی ہوتی۔ نحوست کی جو تعریف صدر صاحب فرما رہے ہیں وہ نحوست اکثر غریبوں کے چہرے پہ نظر آتی ہے۔ ان کی پریشانیاں انہیں وقت سے پہلے بوڑھا کر دیتی ہیں، جھریاں چہرے پہ ظاہر ہو جاتی ہیں، دھوپ اُن کے جسم و چہرہ کو جھلسا کر رکھ دیتی ہے۔ بھوک اور مفلسی اُن کی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے۔ وہ حسِ جمال اور حسِ لطافت سے بالکل محروم ہوتے ہیں۔ اُن کے حالات اذیت بن کر اُن کے چہرے سے جھلک رہے ہوتے ہیں۔ اس کے مقابل وہ لوگ جو ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں جون کی گرمی میں بھی تھری پیس سوٹ پہن کر بیٹھتے ہیں۔ اُن کے گھروں میں شاندار ماحول ہوتا ہے جب وہ باہر نکلتے ہیں ڈرائیور مرسیڈیز سمیت ان کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ وہ بدعنوانی سے کمائی ہوئی دولت کے ذریعے امریکہ اور یورپ کے دورے کرتے ، خوشحال اور نہال رہتے ہیں۔

صدر صاحب کی تعریف کے مطابق اب یہ تو طے پا گیا کہ نوازشریف، عمران خان، مولانا فضل الرحمن، آصف علی زرداری، رحمان ملک، شیخ رشید، بالکل کرپٹ نہیں ہیں۔ اگر چہروں سے کرپٹ افراد کی تقسیم کرنی ہے تو چند بے گناہ افراد کی فہرست میں نے بنا دی ہے باقی درجہ بندی کے ساتھ آپ فہرست تیار کرتے جائیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...