شمالی افغانستان کی مخدوش معیشت ، لوگ افلاس کا شکار

803

“اگر دنیا نے اسی طرح افغانستان کو نظر انداز کیا تو ہم دوبارہ خانہ جنگی کا شکار ہو جائیں گے ۔جس طرح کے 1992 ء میں ہوا تھا”۔ اس نے مکہ لہراتے ہوئے خبر دار کیا کہ “اگر ہمارے ملک کو طالبان سے خطرہ ہوا تو میں دوبارہ ہتھیار اٹھانے کو تیار ہوں “۔

ہیراتان  میں افغانستان اور ازبکستان کو باہم منسلک کرنے والا پل کئی کئی دن  اس بات کا منتظر رہتا ہے کہ یہاں سے کسی ٹرین  کا گزرہو ۔یان  یہاں پر  ایک کسٹم آفیسر ہے ۔شاہراہ ِ ریشم پر واقع سرحدی قصبہ حیراتان جس میں کبھی  خوب چہل پہل رہتی تھی  مگر آج یہ شمالی  افغانستان کی معاشی  زبوں حالی پر نوحہ کناں ہے ۔

اوٹھی کام میں مصروف ہے جہاں اس کا  قافلہ  چلنے کو ہے  ۔کہا جاتا ہے کہ صوفی شاعر رومی بلخ کے صوبے میں پیدا ہوا تھا ،جہاں حیراتان واقع ہے اور جہاں سے ازمنہ قدیم کی اہم تجارتی شاہراہِ ریشم گزرتی تھی ۔اوٹھی  رومی  کی شاعری گنگنا رہا ہے  “وہ کہتا ہے کہ ہم مسافر کیوں  بھٹک جاتے ہیں “۔

افغانستان کی معیشت کی حالت دگر گوں ہے ۔اس کی منڈی اس کو شش میں ہے کہ وہ غیر تربیت یافتہ نوجوانوں کی کھپت کیسے کرے ۔افرادی قوت کی وزارت کے مطابق بیروزگاری کی شرح 22 فیصد ہے  جبکہ 16 فیصد ایسے کام کرنے پر مجبور ہیں جو ان کی مرضی سے مطابقت نہیں رکھتا۔جنگ زدہ افغانستان کے کچھ ہی حصوں میں زعفران ،کپاس اور انگور پیدا ہوتے ہیں ،باقی علاقوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے ۔

آٹھ صدیاں بعد بھی بلخ خوابیدہ  ہے  بھٹکا ہوا ہے ۔حیراتان میں  اب چند ہی مسافر نظر آتے ہیں۔مقامی لوگ اور سیاستدان  اس صورتحال کی وجہ  عدم تحفظ اور غیر ملکی افواج کی واپسی کو قرار دیتے ہیں ۔”تین سال پہلے آپ کو اپناسامان  ازبکستان سے دریائے آمو کے اِس پار لانے کے لئے  کشتی کا پانچ چھ دن انتظار کرنا پڑتا تھا تا کہ آپ کی باری آئے ۔ایک تاجر اور درآمد کنندہ افضل جوئیہ  کا کہنا ہے کہ”مقام افسوس ہے کہ یہاں آج  یہاں  کوئی کشتی موجود ہی نہیں ۔وہ حیرتان کے نزدیک سب سے بڑے شہر مزار شریف میں بیٹھ کر حالات پر آہ و زاری کرتا رہتا ہے ۔

“اگر دریا کے اس پل سے روزانہ دو ٹرینیں بھی گزریں تو یہ پیرو بن جائے “۔یہ بات حیراتان ریلوے کے ایک چیف نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کہ شرط پر ہمیں بتائی ۔اس کے پیچھے  ٹرک کھڑے تھے  جن پر روسی زبان میں کچھ الفاظ کنندہ تھے  جویہاں سامان اٹھانے کے انتظار میں کھڑے تھے ۔

حیراتان ،افغانستان اور ازبکستان کو ملانے والا واحد راستہ ہے  جو آج شمالی افغانستان میں معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے بدشگونی سے تعبیر ہو چکا ہے ۔اس کے مقابلے پر تاجکستان اور ازبکستان کی سرحد پر چار دیگر داخلی راستے بھی ہیں جہاں سے افغانستان میں تعمیراتی سامان ،آٹا اور گھریلو استعمال کی اشیاء  لائی جاتی ہیں ۔

کہ جتنے گاہک تین چار سال پہلے تھے اب اتنے نہیں رہے کیونکہ لوگوں کے پاس روزگار نہیں ۔جو لوگ اکھٹا 50 کلو آٹا خریدتے تھے وہ اب چار چار کلو خرید رہے ہیں “۔

افغانستان کی معیشت کی حالت دگر گوں ہے ۔اس کی منڈی اس کو شش میں ہے کہ وہ غیر تربیت یافتہ نوجوانوں کی کھپت کیسے کرے ۔افرادی قوت کی وزارت کے مطابق بیروزگاری کی شرح 22 فیصد ہے  جبکہ 16 فیصد ایسے کام کرنے پر مجبور ہیں جو ان کی مرضی سے مطابقت نہیں رکھتا۔جنگ زدہ افغانستان کے کچھ ہی حصوں میں زعفران ،کپاس اور انگور پیدا ہوتے ہیں ،باقی علاقوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے ۔

بلخ چیمبر آف کامرس کے نائب صدر میر عبد الوہاب دلسوز کے مطابق جو تھوڑی بہت اشیاء بر آمد بھی کی جاتی ہیں ان پر وسطی ایشیائی ممالک کی جانب سے “بھاری ٹیکس” عائد کئے گئے ہیں۔ وہ افغانستان کے ہمسائیوں پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ ہماری اشیاء کو اسٹیشنن اور بندرگاہوں پر روکے رکھتے ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ ہماری اشیاء بھی مارکیٹ میں ان کا مقابلہ کریں ۔جس کی وجہ سے جو صورتحال سامنے آتی ہے وہ تشویشناک ہے ۔

دلسوز کا کہنا ہے کہ “وسطی ایشیاء اور افغانستان کے درمیان تجارت 2010 ء کے مقابلے میں 2015ء میں 60 فیصد کم ہو چکی ہے “۔اس مایوس کن معاشی صورتحال کی وجہ سے  ہزاروں افغان شہری اپنا گھر بار چھوڑ کر یورپ کا انتہائی پُر خطر سفر کرنے پر مجبور  ہو  چکے ہیں ۔اس کساد بازاری کی واضح جھلک مزار شریف کی مارکیٹ میں بھی دیکھی جا سکتی ہے جہاں پر حسیب اللہ ازبکستان اور حیراتان کے راستے قزاقستان سے گندم در آمد کر کے بیچتا ہے ۔وہ شکایت کرتا ہے کہ جتنے گاہک تین چار سال پہلے تھے اب اتنے نہیں رہے کیونکہ لوگوں کے پاس روزگار نہیں ۔جو لوگ اکھٹا 50 کلو آٹا خریدتے تھے وہ اب چار چار کلو خرید رہے ہیں “۔

کاروباری اور سیاسی لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ  وہ معیشت جو 2001 ء میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد متحرک ہوئی تھی  وہ 2014 ء کے اواخر سے جب سے افغانستان میں نیٹو مشن کا اختتام ہوا ہے تب سے اس کی معیشت کا جنازہ نکل گیا ہے ۔

تعمیراتی سامان در آمد کرنے والے حاجی والد اکبر زادہ  جو ازبکستان سے سریا اور دھاتی اشیاء در آمد کرتے ہیں ان کے بقول  فوجوں کی واپسی کے ساتھ ہی ترقیاتی کام ٹھپ ہو چکے ہیں ۔”اس سے پہلے غیر ملکی کئی امدادی پروگرام چلا رہے تھے وہ اپنی عمارتیں بناتے تھے ۔لیکن جب سے وہ گئے ہیں یہ سارے کام بند ہو گئے “۔اس کا ٹرن اوور 70 فیصد  تک کم ہو چکا ہے جس کی وجہ سے اس نے اپنے 26 میں سے 20 ملازمین کو فارغ کر دیا ہے ۔

دلسوز کا کہنا ہے کہ “2014ء میں نیٹو کی واپسی کے بعد افغانستان کی معیشت تیزی سے گری ہے بالخصوص بلخ میں “۔”ہماری آمدن آدھی رہ گئی ہے ۔یہ صورتحال طلباء کے لئے  انتہائی  بھیانک ہے ہے کیونکہ جب وہ پڑھائی سے فارغ ہوں گے تو حکومت انھیں نوکریاں نہیں دے سکے گی ۔”

عدم تحفظ کی اس صورتحال میں اگرچہ حیرتان سے مزار شریف تک 80 کلومیٹر شاہراہ ابھی تک محفوظ ہے تاہم طالبان جو ہمیشہ بہار کے مہینے میں سرگرم ہوتے ہیں ان کی افغان سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں ملک بھر میں شروع ہیں بالخصوص مشرقی علاقوں میں ،جہاں دولت اسلامیہ بھی اپنے قدم جمانے میں مصروف ہے ۔

سابق جنگی کمانڈر محمد عیسیٰ امیری  جو اب امپورٹ ایکسپورٹ کے کاروبار سے منسلک ہیں  ان کا کہنا ہے کہ اس عدم تحفظ کی وجہ سے وہ ازبک تاجر بھی خوف زدہ ہیں جو کہ کبھی حیرتان تک بھی نہیں آئے ۔وہ کہتے ہیں کہ “وہ اب طالبان اور دولت اسلامیہ کی وجہ سے ہم پر بھی اعتماد نہیں کرتے ۔وہ افغانستان کے ساتھ کوئی لین دین  نہیں کرنا  چاہتے “۔

“اگر دنیا نے اسی طرح افغانستان کو نظر انداز کیا تو ہم دوبارہ  خانہ جنگی کا شکار ہو جائیں گے ۔جس طرح کے 1992 ء میں ہوا تھا”۔ اس نے مکہ لہراتے ہوئے خبر دار کیا کہ “اگر ہمارے ملک کو طالبان سے خطرہ ہوا تو میں دوبارہ ہتھیار اٹھانے کو تیار ہوں “۔

(بشکریہ  اے ایف پی : ترجمہ : سجاد اظہر )

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...