قومی زبوں حالی اور ملامت گری کا رویہ
معاشرے کو مریضانہ ڈانٹ ڈپٹ کی نہیں، ہمدردی اور خیر خواہی کی ضرورت ہے۔ اندھیرے ملامت گری کے بھڑکتے شعلوں سے نہیں، بلکہ کردار کی ٹھنڈی روشنی سے دور ہوں گے۔
احمد امین مصری کا شمار بیسویں صدی کے نصف اوّل میں عالم عرب کے ان ممتاز مفکرین اور رجحان ساز اہل قلم میں ہوتا ہے جنھوں نے بدلتے ہوئے حالات میں نئی نسل کی فکری تربیت کی اور عرب معاشرے میں جدید سیاسی ومعاشرتی تصورات کی تفہیم اور فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ ادبی اور ثقافتی تحریروں کے ایک بڑے ذخیرے کے علاوہ اسلامی تاریخ کے ابتدائی ادوار کے تجزیاتی مطالعہ کے حوالے سے ان کی کتابوں فجر الاسلام، ضحی الاسلام اور ظہر الاسلام کی مثلث اہل علم میں اسی طرح مشہور ومعروف ہے جیسے ہمارے ہاں برصغیر کی مسلم فکر وتہذیب کی تاریخ کے ضمن میں شیخ محمد اکرام کی ’’آب کوثر’’، ’’رود کوثر’’ اور ’’موج کوثر ’’ سے ہر پڑھا لکھا شخص واقف ہے۔
احمد امین نے مشہور مصری مجلے ’’الہلال’’ کی فرمائش پر ’’رسالۃ الی ولدی’’ (بیٹے کے نام خط) کے عنوان سے بارہ حصوں پر مشتمل ایک سلسلہ مضامین لکھا جو ۱۹۵۰ کے مختلف شماروں میں شائع ہوا۔ تحریر کے مخاطب عمومی طور پر نئی نسل کے نوجوان تھے، تاہم اتفاق سے انھی دنوں احمد امین کا اپنا بیٹا بھی برطانیہ میں زیر تعلیم تھا اور تحریر لکھتے ہوئے مصنف نے خاص طور پر اپنے بیٹے کو بھی بطور مخاطب پیش نظر رکھا ہے۔
اس سلسلہ مضامین میں ایک جگہ احمد امین نے دیار عرب سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے یورپ جانے والے نوجوانوں کے انداز نظر اور رویوں کا تجزیہ کیا ہے جن کے تحت یہ لوگ دیار مغرب میں زندگی کا ایک حصہ گزارتے ہیں اور جب تعلیم مکمل کر کے واپس اپنے وطن پہنچتے ہیں تو ان کے کردار میں انھی رویوں کی عکاسی ہوتی ہے۔
ایک طبقہ تو وہ ہے جو یورپی ممالک میں معاشرتی آزادیوں کے سحر میں کھو جاتا ہے اور اپنا سارا وقت وہاں کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہونے میں گزار دیتا ہے۔ یہ لوگ خود کو پنجرے سے آزاد ہونے والا پنچھی محسوس کرتے ہیں اور وطن واپس آنے کے بعد بھی ان کے دل ودماغ بس دیار مغرب میں کی گئی موج مستی کی یادوں سے ہی معمور رہتے ہیں۔
دوسرا طبقہ وہ ہے جو یورپ میں قیام کے دوران میں خالصتاً کتابی تعلیم وتدریس میں منہمک رہتا ہے اور اس کی غرض محض یہ ہوتی ہے کہ مقررہ نصاب پڑھ کر اور تدریسی ضروریات مکمل کر کے مطلوبہ ڈگری حاصل کرے اور وطن واپس لوٹ جائے۔ یہ طبقہ علم اور معلومات میں تو اضافہ کر کے لوٹتا ہے، لیکن اس کے انداز فکر اور سوچ کے زاویوں میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔
تیسرا طبقہ ان لوگوں کا ہے جو خود کو رسمی تعلیم تک محدود نہیں رکھتے، بلکہ یورپی معاشرے میں حیات اجتماعی کا مطالعہ کرنے اور ان کی عظمت وقوت کا راز جاننے میں بھی دلچسپی لیتے ہیں۔ چنانچہ مغربی تعلیمی اداروں کے ماحول کے علاوہ یہ لوگ وہاں کی خاندانی زندگی، سماجی مجلسوں اور بازاروں اور سڑکوں پر روز مرہ کی زندگی کا بھی بغور مشاہدہ کرتے ہیں اور یہ متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے اپنے معاشرے، مغربی معاشروں سے کن چیزوں میں استفادہ کر سکتے ہیں اور کن چیزوں میں استفادہ ممکن نہیں۔
احمد امین نے اس تیسرے طبقے کے لیے اپنی پسندیدگی ظاہر کی ہے، تاہم ساتھ ہی یہ کہا ہے کہ اس طبقے کے بیشتر لوگ جب اپنے وطن واپس آتے ہیں تو دونوں معاشروں کے موازنہ اور تقابل سے بہت جلد مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ابتدا میں وہ تبدیلی اور اصلاح کے لیے کچھ کاوش کرتے ہیں، لیکن بہت جلد مایوس ہو کر ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور ان پر غم کی گہری کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ احمد امین اپنے بیٹے کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ میں تمھیں ان جیسا نہیں دیکھنا چاہتا۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ جب تم یورپ سے بہت سی چیزیں سیکھ کر اپنی قوم کے پاس واپس آو تو ان کے عیوب دیکھ کر ان کے ساتھ ہمدردی محسوس کرو اور جس حد تک ممکن ہو، اصلاح کی کوشش کرو۔ اگر عمومی اصلاح ممکن نہ ہو تو اپنے محدود ماحول میں، اپنے زیر تعلیم طلبہ میں، اپنے ہم منصب اساتذہ میں، اپنے گھر میں اور اپنے دوستوں میں اصلاح کی کوششیں جاری رکھو۔ ہاں، جب تمھیں کسی مرحلے پر معاشرے میں کوئی اہم اور بڑا کردار ادا کرنے کا موقع ملے تو اپنی اصلاحی مساعی کا دائرہ بڑھا دو اور بڑے پیمانے پر تبدیلی لانے کی کوشش کرو۔
احمد امین کے اس تجزیے کی روشنی میں اگر ہم آج اپنے معاشرے میں پائے جانے والے مختلف فکری رویوں کا مطالعہ کریں تو صورت حال میں ایک خاص نوعیت کا ارتقا دکھائی دے گا۔ احمد امین کے زمانے میں مغربی معاشروں کی سماجی ترقی اور اس کے مختلف مظاہر سے واقفیت کا تجربہ مشرقی معاشروں کے ان چند افراد تک محدود تھا جنھیں کسی خاص غرض سے دیار مغرب کا سفر کرنے کا موقع ملتا تھا۔ یہ لوگ جب دونوں معاشروں کے طرز زندگی میں زمین آسمان کا فرق دیکھتے تو یہ ان کا ایک انفرادی اور داخلی احساس ہوتا تھا جو بہت جلد ماحول کے زیر اثر یا تو دب جاتا یا مایوسی اور ناامیدی کی صورت اختیار کر لیتا تھا۔ آج ہم جانتے ہیں کہ فرق کا یہ احساس انفرادی تجربے سے بڑھ کر مسلم معاشروں کے اجتماعی شعور کا حصہ بن چکا ہے اور اس کا رد عمل خاموشی یا مایوسی کی صورت میں نہیں، بلکہ شدید احساس ناکامی اور باہمی ملامت گری کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ ہر ہر طبقہ قومی پستی اور زبوں حالی کا ذمہ دار اپنے حریف طبقے کو ٹھہرا رہا ہے اور مختلف طبقوں کے احساسات کی نمائندگی کرنے والے فصیح وبلیغ خطیبوں اور قلم کاروں کے ہاتھوں ملامت گری کے اسالیب ایک مستقل فن کا درجہ اختیار کر چکے ہیں۔ محرومی اور پچھڑے پن کے احساس نے قوم کے ذہین ترین عناصر سے بھی صبر اور تحمل کی صفات چھین لی ہیں۔ ہر طبقے کی معراج فکر یہی ہے کہ وہ اپنے حریف طبقے کو اس صورت حال کے پیدا ہونے کا بنیادی ذمہ دار اور بہتری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت کر دے۔
ظاہر ہے کہ اس انداز فکر میں ساری توانائیاں باہمی الزام تراشی میں صرف ہو جاتی ہیں اور صبر وتحمل کے ساتھ اصلاح وتعمیر کی جتنی کوششیں ہو سکتی ہیں، کسی زود اثر اور تیر بہدف نسخے کی اجتماعی خواہش ان کی طرف متوجہ ہی نہیں ہونے دیتی۔ تاہم یہ سامنے کی حقیقت ہے کہ نہ تو مایوسی کا راستہ کوئی راستہ ہے اور نہ غم وغصہ کی کیفیت میں ملامت گری کا انداز کسی بھی مشکل کا حل نکال سکتا ہے۔ راستہ ایک ہی ہے۔ معاشرے میں کسی بھی سطح پر کوئی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھنے والا ہر شخص اپنے محدود ماحول کو اپنا ہدف بنائے اور اس میں جو اصلاح کر سکتا ہے، پورے احساس ذمہ داری کے ساتھ کرنے کی کوشش کرے۔ معاشرے کو مریضانہ ڈانٹ ڈپٹ کی نہیں، ہمدردی اور خیر خواہی کی ضرورت ہے۔ اندھیرے ملامت گری کے بھڑکتے شعلوں سے نہیں، بلکہ کردار کی ٹھنڈی روشنی سے دور ہوں گے۔
فیس بک پر تبصرے