بارش کا بدھا رخصت پر ہے

804

کہا جاتا ہے کہ مستقبل کی جنگیں پانی کے لئے ہوں گی اور پانی پر لڑی جائیں گی۔

پاکستان کی آبادی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اس سے زیر زمین پانی کے ذخائر ختم  ہو رہے ہیں ۔ہر پانچ سال میں زیر زمین پانی 15 سے 20 فٹ مزید نیچے جا رہا ہے ۔اس سال پاکستان میں پانی کی کمی کی وجہ سے کپاس کی پیداوار ملکی ضروریات سے کم ہو گی جس کی وجہ سے پاکستان اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے 4 ارب ڈالر کی کپاس در آمد کرے گا ۔

اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے روزانہ ایک ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے اور اندازہ ہے کہ 2040 ء تک یہ نقصان بڑھ کر 34 ارب ڈالر سالانہ ہو جائے گا ۔

اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کو اپنے آبی وسائل کو بہتر طور پر بروئے کار لانے کے لئے فوری طور پر کچھ کرنا پڑے گا ۔بھارت جہاں 33 کروڑ افراد قحط سالی سے  متاثر ہ ہیں اس نے مستقبل کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے اپنے دو دریاؤں گنگا اور برہماپترا کا رخ موڑنے کے منصوبے کا آغاز کر دیا ہے ۔مگر ہمارے ہاں پانی کی تقسیم صوبوں کے درمیان اس قدر متنازعہ ہو چکی ہے کہ ہم منگلا اور تربیلا کے بعد کوئی بڑا ڈیم نہیں بنا سکے ،جس کی وجہ سے ہمیں ہر دو چار سالوں میں ایک ایسے سیلاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے ہماری معیشت کو چھ سے آٹھ ارب ڈالر کا نقصان ہو جاتا ہے ۔

پاکستان اپنے مسائل حل کرنے کی استعداد سے محروم ہو رہا ہے ۔یہاں ہر مسئلے کو مذہب ، علاقے ، فرقے اور سیاست کی نظر کر دیا جاتا ہے ۔پانی کا مسئلہ بھی ان مسئلوں میں سے ایک ہے ۔ برسوں پہلے پاکستان کے محکمہ موسمیات نے قحط سالی سے متاثرہ علاقوں میں مصنوعی بارشیں برسانے کے تجربات کا آغاز کیا تھا ۔مجموعی طور پر 48 تجربات کئے گئے جن میں سے 32 کامیاب ہوئے مگر پھر یہ سلسلہ اچانک روک دیا گیا ۔جس کی دو وجوہات تھیں ۔ایک تو یہ کہ کچھ باثر جاگیر دار جو ممبران پارلیمنٹ تھے انھوں نے حکومت سے کہا کہ ان کی زمینوں پر بھی مصنوعی بارش برسائی جائے کیونکہ ان کے مخالفین کی زمینیں مصنوعی بارش سے سیراب کی جا چکی ہیں ۔تیکنیکی طور پر ایسا ممکن نہیں تھا کیونکہ جہاں بادل ہو گا وہیں “کلاؤڈ سیڈنگ ” کی جا سکتی ہے ۔جہاں باد ل ہی نہ ہو وہاں بارش نہیں ہو سکتی ۔ پھر ایک مسئلہ یہ درپیش ہوا کہ کچھ بااثر علمائے کرام نے محکمہ موسمیات کو دھمکی دی کہ وہ مصنوعی بارش برسا کر خدائی امور میں مداخلت کے سرزد ہو رہے ہیں اگر یہ سلسلہ فوراً نہ روکا گیا تو وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔دوسری طرف سانگھڑ میں  ہندؤں کے ایک مندر میں پاکستان کے محکمہ موسمیات کا  افسر کو جو اس مہم کا انچارج تھا اُس کا بت بنا کر رکھا گیا اور اسے بارش کے بدھا سے منسوب کیا گیا ۔

مولویوں اور سیاستدانوں کے خوف سے یہ  بدھا پاکستان سے اپنا تبادلہ کر اکر سعودی عرب چلا گیا اور اپنی ریٹائرمنٹ تک وہیں مقیم رہا ۔

میں جب یہاں پر قحط سالی ، بدعنوانی ، بد امنی ، اقربا پروری ،افلاس ، دہشت گردی اور بدحالی کو دیکھتا ہوں تو مجھے یہی لگتا ہے ہمارے تما م بدھا رخصت لے کر جا چکے ہیں ۔

ہم دو گھونٹ پانی کے لئے لڑ رہے ہیں ،ہمارے پاس پانی نہیں مگر آگ اگلتی مشینیں ضرور ہیں ۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...