القاب کی بیساکھیاں

1,227

عربی زبان کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جب کسی کے علم و فضل کی بنیاد پر اس کے لیے مبالغے کا صیغہ استعمال کرنا ہو تو ”علّام“ کہا جاتا ہے اور جب مبالغے کی بھی انتہا ہو جائے تو ”علاّمہ“ کا لفظ بروئے کار لایا جاتا ہے۔

بعض القاب ایسے ہوتے ہیں کہ عام انسان انھیں پڑھ کر حیرت میں کھو جاتا ہوں۔ کبھی تو ایک شخص کے نام کے ساتھ اتنے ڈھیر سارے القاب ہوتے ہیں کہ اصل نام کا پتہ ہی نہیں چلتا اور سمجھ نہیں آتی کہ موصوف کو کس لفظ سے پکاریں۔ ایسے میں دل تو کہہ رہا ہوتا ہے کہ

کس نام سے پکاروں کیا نام ہے تمھارا

لیکن زبان کو یارائے اظہار نہیں ہوتا۔عامتہ الناس جن افراد کو علمائے کرام کہتے ہیں ان کے ناموں کے ساتھ شاید سب سے عجیب و غریب القاب ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں کم ازکم لقب یا خطاب یا سابقہ ان کے ناموں کے ساتھ ”علّامہ“ ہوتا ہے۔ عربی زبان کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جب کسی کے علم و فضل کی بنیاد پر اس کے لیے مبالغے کا صیغہ استعمال کرنا ہو تو ”علّام“ کہا جاتا ہے اور جب مبالغے کی بھی انتہا ہو جائے تو ”علاّمہ“ کا لفظ بروئے کار لایا جاتا ہے۔

بعض افراد واقعاً علامہ ہوتے ہیں۔ وہ نہ کہلوائیں تب بھی ہوتے ہیں۔ بقول شاعر

تصنع سے بری ہے حسنِ ذاتی

قبائے گل میں گل بوٹا کہاں ہے

ایسے اہل علم موجود ہیں کہ جن کے نام کے ساتھ ایسے کلمات سجتے ہیں لیکن اکثریت ان لوگوں کی ہے جن پر عالم یا علامہ ہونے کی تہمت ہے۔ میر دردکا یہ شعر ان کے حسب حال ہے:

تہمتِ چند اپنے ذمے دھر چلے

کس لیے ہم آئے تھے کیا کر چلے

ایسے افراد اس خوش فہمی میں ہوتے ہیں کہ لوگ واقعاً شیخ الاسلام، حجة الاسلام، علامہ وغیرہ کے القاب ان کے لیے سنجیدگی سے استعمال کرتے ہیں۔ ان کے لیے زیادہ سے زیادہ ایسے کلمات”غلط العام“ کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ باخبر لوگ جانتے ہیں کہ یہ علمی لحاظ سے معذور لوگوں کی بیساکھیاں ہیں۔ بیساکھیوں کے سہارے چند قدم چلا تو جا سکتا ہے لیکن معذور ہونے کے درد کا اس سے درماں نہیں ہوتا۔ مشکل صرف ”علما ءنما“ افراد کے حوالے سے نہیں سیاست و ریاست، منصب و قیادت اور مسند و مقام کے اعتبار سے بھی طرح طرح کے القاب بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ گاہے ان القاب کو استعمال کرنے والوں کی داخلی کیفیت یہ ہوتی ہے:

وہی معزز کہ جن سے لفظوں کی آبرو بھی پناہ مانگے

وجوب ٹھہرا ہے اُن کے ناموں سے پہلے عزت مآب رکھنا

ایک بڑے ”مولانا صاحب“ فوت ہو گئے۔ شہر کے گلی کوچوں میں ان کی وفات کی مناسبت سے ایک اشتہار لگا تھا جس پر یہ حدیث بھی لکھی تھی:

”جب کوئی عالم فوت ہو جاتا ہے تو ایک ایسا گڑھا یا خلا پیدا ہوجاتا ہے جسے کوئی اور چیز پُر نہیں کر سکتی۔“

میں غور کرتا رہا کہ آج دنیا میں یا شہر میں کونسا خلا پیدا ہوا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اس ناچیزکو کسی قسم کا کوئی خلا محسوس نہ ہوا۔ میں سوچتا رہا کہ یہ کیسا خلا ہے جو محسوس ہی نہیں ہورہا۔ دوسری طرف کتنے ہی ایسے نام صفحہ ذہن پر ابھرے جن کی ضرورت آج بھی دنیا کو محسوس ہورہی ہے اور ان میں سے کتنے ہی ہیں جنھیں ہم ”علماء“ نہیں کہتے۔ میں نے سوچا کہ یہ کیوں نہ کر لیا جائے کہ جن کے جانے سے خلا کا احساس ہو انھیں علماءسمجھ لیا جائے۔ ہاں ایسا کرنے سے عالم کی تعریف کچھ مختلف یا وسیع تر ضرور ہو جائے گی۔

اس حقیقت سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ انسانوں میں نفرتیں بانٹنے والے، مذہب کے نام پر تقسیم کرنے والے ایسے کتنے ہی عالم نما افراد ہیں جن کے زمین میں سما جانے پر ”خس کم جہاں پاک“ کا محاورہ صادق آتا ہے۔ یوں کیوں نہ کہا جائے کہ جو گڑھے انھوں نے کھودے ہوتے ہیں ان میں سے کم ازکم ایک گڑھا تو بھر جاتا ہے۔

علم کے تصور میں بھی وسعت پیدا ہو گئی ہے۔ تخصص کے اس دور میں صرف ایک شعبے کی اصطلاحوں کو جاننے والے اور کسی ایک شعبے کے ماہر کے لیے ”عالم“ کے لفظ کا استعمال اشکال سے خالی نہیں۔علامہ اقبال کے نزدیک بعض لوگ تو لغات کے ہی قارون ہوتے ہیں:

قلندر جز دو حرف لا الہ کچھ نہیں رکھتا

فقیہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا

کہتے ہیں کہ طب اور فلسفے کے امام بو علی سینا کو ان کی زندگی کے آخری ایام میں کسی نے پوچھا کہ آپ اپنے آپ کو علم کے کس مرتبے پر پاتے ہیں تو ان کاکہنا تھا کہ میں نے یہ جان لیا ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا۔

حقیقی عالم اپنی دانائی یا معرفت کا توشہ لے کر جب کائنات کی عظمتوں اور معرفت کے وسیع سمندر کے سامنے اپنے آپ کو کھڑا پاتا ہے اور اپنے علم کو ان امور کے مقابلے میں پیش کرتا ہے جنھیں وہ نہیں جانتا تو اپنے علم کو ذرہ ناچیز کے سوا کچھ نہیں پاتا اور بے ساختہ وہی کچھ کہتا جو بو علی سینا نے کہا کیونکہ وہ یہ بھی جان لیتا ہے کہ اس کے توشے میں بیشتر ظن و گمان اور تخمین و قیاس ہے ۔

کتنے کم نام ہیں جو علم کے حوالے سے تاریخ کو یاد رہ گئے ہیں اور کتنے وہ افرادہیں جن کے ناموں کے ساتھ القاب کا بھاری بوجھ لٹکا ہوتا تھا اور وہ تاریخ کی گہرائیوں میں اتر کر گم ہو گئے ہیں۔

حصول علم اور معلومات کے فرق نے بھی ہمیں مشکلات سے دوچار کررکھا ہے۔ علم تو کسی حقیقت کا سراغ لگا لینے سے عبارت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں منقول ہے کہ وہ دعا کیا کرتے تھے:

کہتے ہیں کہ طب اور فلسفے کے امام بو علی سینا کو ان کی زندگی کے آخری ایام میں کسی نے پوچھا کہ آپ اپنے آپ کو علم کے کس مرتبے پر پاتے ہیں تو ان کاکہنا تھا کہ میں نے یہ جان لیا ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا۔

اللھم ارنا الاشیاءکما ھی

اے اللہ! ہمیں اشیاءکو ایسا دکھا جیسی وہ ہیں۔

بس کسی چیز کو ویسا ہی دیکھ لینا جیسی وہ ہے، اس کے بارے میںحصول علم سے عبارت ہے۔ البتہ بہت سے افراد کو یہ وہم ہوتا ہے یا غلط اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے کسی چیز کو ویسا ہی جان لیا ہے جیسی وہ ہے۔ انھو ں نے کسی خاص حوالے یا کسی خاص پہلو سے اس چیزکو پہچانا ہوتا ہے۔

”جب کوئی عالم فوت ہو جاتا ہے تو ایک ایسا گڑھا یا خلا پیدا ہوجاتا ہے جسے کوئی اور چیز پُر نہیں کر سکتی۔“

اس کی مثال ”معرفت انسان“ کا موضوع ہے۔ علم نفسیات ہو یا انسان کے بارے میں علم طب، علم بشریات ہو یا انسانی روابط کا علم، انسانی معاشرے کی حرکیات کا علم ہو یا تاریخ کا علم اور شاید تمام رائج علوم معرفت انسانی کی مختلف شاخیں ہیں اور انسان کی تلاش کے درپے ہیں لیکن ابھی انسان ”کماھو“ دریافت نہیں ہوسکا۔

بہت سے افراد کسی خاص علم کی اصطلاحوں سے واقف ہوتے ہیں۔ بہت سے افراد معلومات کا ایک ”خزانہ“ رکھتے ہیں۔ ان سب کو ”عالم“ کہنا اگرچہ کچھ ایسا غلط بھی نہ ہو لیکن ان کی محدودیت، موضوعیت یا معروضیت کا تصور عموماً نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔

ایک بڑے ”مولانا صاحب“ فوت ہو گئے۔ شہر کے گلی کوچوں میں ان کی وفات کی مناسبت سے ایک اشتہار لگا تھا جس پر یہ حدیث بھی لکھی تھی:

عام سادہ دل اور سادہ اندیش افراد سے کیا کہنا ،بات تو اہل علم سے کہنے کی ہے۔ عالم ہونا بہت بڑا اعزاز اور بہت بڑا مرتبہ ہے لیکن عالم یا علامہ کہلوانا کتنا بڑا دعویٰ ہے۔ جب بے علم، جاہل، عالم نما اور حریص علی الدنیا اور مرتبہ و منصب کے درپے افراد اپنے آپ کو عالم یا علامہ کہلا رہے ہوں تو اہل علم کو شرم آتی ہے کہ ان کے لیے وہی القاب استعمال کیے جائیں جو بے شمار نا اہلوں کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ لقب، خطاب یا خاص طرح کا لباس کسی کو عالم نہیں بناتا۔ عالم ہوتا ہے اور وہ لقب یا لباس کا مرہون منت نہیں ہوتا۔جب حسب حال الفاظ اہل افراد کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں تویہ لفظوں کے لیے بھی اعزاز ہوتا ہے جب کہ لقب اور خطاب محروم عن الفضل افراد کے لیے بیساکھی ہے اورخاص طرح کا لباس ایسے لوگوں کا بہروپ ہے۔ رہ گئے ہر لباس میں افراد کو ان کی حقیقت کے ساتھ پہچان لینے والے لوگ تو وہ کہہ رہے ہوتے ہیں۔

کیا چل سکے گا ہم سے کہ پہچانتے ہیں ہم

تو لاکھ اپنی چال کو ظالم بدل کے چل

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...