سائکس – پیکو معاہدے کے سو سال اور عرب دنیا

960

سوال یہ نہیں ہے کہ یورپ نے عربوں کے ساتھ کیا کیا؟ سوال یہ بھی ہے کہ خود عرب مسلمانوں نے خلافت عثمانیہ کے ساتھ کیا کیا؟جو ایک طرف عربوں نے اپنوں کے ساتھ کیا وہی کچھ غیر وں نے ان کے ساتھ کیا۔

سائکس اور پیکو   برطانیہ اور فرانس کے وزراء خارجہ تھے جنہوں نے  1916 کے موسم بہار میں   جنگ عظیم اول کے دوران میں خفیہ طور پر ایک معاہدہ طے کیا تھا۔ اس معاہدے میں برطانیہ اور فرانس نے وہ  عرب ممالک جنہیں زرخیز ہلال کے ممالک(عراق ،شام،لبنان،اردن،فلسطین اور اسرائیل) بھی کہا جاتا ہے کو اپنے قبضے میں لانے کا فیصلہ کیا جو ایران اور بحیرہ روم کے درمیانی مستطیل علاقے میں واقع تھے۔فرانس نے شام کا مغربی حصہ موصل کے صوبے کے ساتھ پایا اور برطانیہ عظمی نے بغداد سے لے کر خلیج فارس تک عراق کے علاقے پر قبضہ جما لیا۔درمیانی صحرا میں جو عرب مملکت قائم ہونے والی تھی اس کا شمالی حصہ فرانسیسی قبضہ میں اور جنوبی حصہ  برطانوی حدود میں شامل تھا۔رہا فلسطین تو شامیوں کو اس پر اصرار تھا کہ پورا شام جس میں اس کا  وہ جنوبی حصہ بھی شامل ہے جو فلسطین کے نام سے مشہور ہے ان کے حصے میں آنا  چاہیے۔اہل برطانیہ جو نہر سویز کے اتنے قریب فرانسیسیوں کے قبضہ کے خواہاں نہ تھے ان کو بین الاقوامی علاقہ بنانے پر زور دے رہے تھے اور حیفہ اور عکہ پر اپنا قبضہ جمانے کے منصوبے بنا  رہے تھے۔اس طرح عربی ممالک کے حصے بخرے ہو گئے اور عربوں کو صحرا میں بند کر دیا گیا۔

اس غیر اخلاقی دستاویز کی ذمہ داری برطانیہ پر ہی عائد ہوتی ہے کیونکہ برطانیہ نے ہی ایک سال پہلے ان علاقوں کی آزادی کا  عہد کیا تھا جنہیں وہ اب ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں مدددے رہا تھا خصوصا مکہ کے شریف حسین کے ساتھ یہ طے کیا تھا کہ ان کی امارت میں ایک بڑی عرب سلطنت قائم کی جائے گی لیکن برطانیہ نے عربوں کے ساتھ اپنی شرائط  اتحاد فرانس سے پوشیدہ رکھیں تھیں اور سائکس پیکو  معاہدے کی ہر اطلاع عربوں  سے مخفی رکھی تھی۔  

نومبر 1915 میں اس معاہدے سے متعلق گفت و شنید شروع ہو گئی تھی اور جنگ عظیم کے دوران جب خلافت عثمانیہ کمزور پڑ گئی اور آخری سانسیں لینے لگی تو مراکش کے محمد الخامس نے جرمنی کے تعاون سے جہاد کا اعلان کر دیا ،ادھر دو بڑی طاقتیں فرانس اور برطانیہ بھی مدد کے لیے پوری طرح  تیار تھیں،انہوں نے اپنے دو تجربہ کار سفارتکار منتخب کیے اور اور انہیں مشرق وسطی کی تقسیم کا ایجنڈا دیا جسے ان دونوں کے نام سے ہی منسوب کیا گیا،فرانسیسی ڈپلومیٹ کا نام فرنسو جارج پیکو تھا جبکہ برطانوی ڈپلومیٹ مارک سایکس تھا۔

یہی وہ معاہدہ ہے جس کی بنیاد پر اسرائیل کے ناپاک وجود کی بنیاد ڈالی گئی جس کا آج فلسطین میں 68واں یوم نکبہ منایا جا رہا ہے۔

1916ء میں ہونے والے اس معاہدے کو آج سو سال کا عرصہ گذر چکا ہے آج بھی عرب دنیا کی حالت کچھ مختلف نہیں، اگر کچھ فرق ہے تو  صرف پیٹرول کی دریافت کا ہے  جو اس صدی کی دریافت ہے جس کی وجہ سے استعمار ایک مرتبہ پھر مشرق وسطی کو تر نوالہ بنانا چاہتا ہے۔وہی تقسیم در تقسیم اور قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔داعش نے بھی سائکس پیکو معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے  مشرق وسطی کی حدود میں تبدیلی لانے کا عندیہ دیا ہے۔اب یہ عیاں ہے کہ سرحدیں ختم کرنے کے منصوبے کے پیچھے کون ہے؟اپنے مفاد کے حصول کے لیےاس معاہدے کی بنیاد رکھنے والے ہی آج اپنے مفاد ہی کی خاطر اسے تبدیل کرنے جا رہے ہیں ۔اور ایک مرتبہ پھر لسانی اور مسلکی اور مذہبی  بنیادوں پر خطے کو تقسیم کیاجا رہا ہے،کہیں  سنی اسٹیٹ تو کہیں شیعہ،کہیں  اسلامک  اسٹیٹ تو کہیں مسیحی  اور کرد، اس تقسیم کے بعد اسرائیل کے یہودی اسٹیٹ بننے میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی۔اگر غور کیا جائے  تو اسرائیل کی بنیاد رکھنے والا یہ معاہدہ  مسلمانوں کی خواہی ناخواہی اپنی سنچری مکمل کرنے پر اپنے ہدف کے تکمیلی مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔آج بھی عرب ممالک کی نظریں انہیں سامراجی طاقتوں پر لگی ہوئی ہیں جنہوں نے سو سال قبل انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا۔اگر عرب ممالک اپنی تاریخ بدلنا چاہتے ہیں تو انہیں دوسروں پر انحصار ختم کرنا ہو گا۔

سوال یہ نہیں ہے کہ یورپ نے عربوں کے ساتھ کیا کیا؟ سوال یہ بھی ہے کہ خود عرب مسلمانوں نے خلافت عثمانیہ کے ساتھ کیا کیا؟جو ایک طرف عربوں نے اپنوں کے ساتھ کیا وہی کچھ غیر وں نے ان کے ساتھ کیا۔

غیر کی تقلید  پہ  رضامند  ہوا  تو مجھ کو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں ہے

پوری ایک صدی گزرنے کےبعد آج پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے،سو سال  قبل زرخیز ہلال کے خوبصورت   نام سے موسوم علاقوں میں تباہی  مچائی گئی تو آج اسی خطے کو عرب بہار کا نام دے کر بربادی کی طرف دھکیل  دیا گیا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...