پاک امریکہ تعلقات کی نزاکتیں
پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی ؟ اس بات کا اختیار ہمیشہ سے پاک فوج نے اپنے ہاتھوں میں رکھا ہے
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات گزشتہ تین ماہ سے تناؤ کا شکار ہیں ۔یہ بات مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے سینیٹ کو بتائی ہے ۔ 11ستمبر کی ستم گریوں کے بعد جب پاکستان نے اپنا وزن غیر مشروط طور پر امریکی پلڑے میں ڈالا تھا اس کے بعد دس سال تک دونوں ممالک کے مابین خاصی گرم جوشی رہی ۔ مشرف کو کیمپ ڈیوڈ تک لے جایا گیا جہاں امریکہ کے صرف قریبی اور باعتماد اتحادیوں کو مدعو کیا جاتا ہے ۔امریکہ نے پاکستان کو نان نیٹو اتحادی کا درجہ بھی دیا ۔ لیکن جب 2 مئی 2011ء کو ایبٹ آباد آپریشن ہوا تو دونوں ممالک کے تعلقات میں دراڑ آ گئی ۔
پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی ؟ اس بات کا اختیار ہمیشہ سے پاک فوج نے اپنے ہاتھوں میں رکھا ہے ۔امریکہ نے ایبٹ آباد آپریشن کو خفیہ رکھ کر پاکستانی فوج پر اپنے عدم اعتماد کا اظہار کر دیا تھا ۔جس پر فوج کی ناراضگی ایک فطری عمل تھا دوسری طرف امریکی انتطامیہ میں وہ لوگ جن کا یہ مؤقف رہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کا اتحادی ہونے کے باوجود ڈبل گیم کرتا رہاہے ان کو تقویت ملی ۔سیموئر ہرش کی نئی کتاب اگرچہ اس کی نفی کرتی ہے کیونکہ اس اہم امریکی صحافی کا خیال ہے کہ پاکستان کو آیبٹ آبادآپریشن سے قبل آگاہ کیا گیا تھا ۔ لیکن اس آپریشن کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں جو تناؤ آیا اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ایساکیا بھی گیا تو بھی بہت ہی آخری لمحوں میں اسے آگاہ کیا گیا ہو گا ۔
وائیٹ ہاؤس نہ چاہتے ہوئے بھی سعودی عرب اور پاکستان میں وہی “سٹیٹس کو ” برقرار رکھنا چاہتا ہے جو عرصے سے چلا آرہا ہے ۔کیونکہ اسے یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ یہاں معاملات بہت نازک ہیں ۔یہاں اٹھایا جانے والاکوئی قدم حالات کو مزید بگاڑ سکتا ہے سنوار نہیں سکتا ۔
جنرل کیانی اور اس وقت کی امریکی فوج کے سربراہ جنرل مائیک مولن میں بھی کافی دوستی تھی جب ٹائم میگزین نے انھیں 2009ء کی دنیا کی 100 اہم شخصیات میں 19واں نمبر دیا تو جنرل کیانی کا تعارف لکھنے کی ذمہ داری بھی مائیک مالن کو دی گئی ۔لیکن ایبٹ آباد آپریشن کے بعد میمو گیٹ سکینڈل بھی سامنے آیا جس میں اس وقت واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی نے ایک خط ایڈمرل مائیک مولن کو دیا جو اس وقت کے صدر آصف زرداری کی جانب سے لکھا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ایبٹ آباد آپریشن کی وجہ سے فوج حکومت کا تختہ الٹنا چاہتی ہے اس لئے حکومت کو بچانے کے لئے امریکہ اپنا کردار ادا کرے ۔کہا جاتا ہے کہ جب اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل احمد شاع پاشا واشنگٹن میں اپنے آخری دورے پر گئے تو اس میں ان کی امریکی حکام سے لڑائی ہو گئی اور وہ فائلیں پھینک کر میٹنگ سے اٹھ کر آ گئے تھے ۔
وائیٹ ہاؤس کو واشنگٹن میں پاکستان مخالف لابی کی طاقت کا اندازہ ہے اس لئے صدارتی انتخابات کے موقع پر وہ ایک حد سےزیادہ پاکستان کی حمایت میں آگے نہیں آئے گا ۔بلکہ پاکستان کو واشنگٹن سے تعلقات کی بہتری کے لئے اب نومبر میں ہونے والے 58ویں صدارتی انتخابات کے نتائج کا انتظار کرنا پڑے گا ۔
پاک امریکہ تعلقات میں یہ رخنہ اندازی ریمنڈ ڈیوس ، دتہ اور سلالہ کے واقعات سے بھی بڑھی ۔حقانی نیٹ ورک کی پشت پناہی کا الزام بھی پاکستان پر لگا ۔ جب ممبئی بم دھماکوں کا شریک ملزم اور امریکی شہری ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کو ایف بی ائی نے گرفتار کیا تو اس نے ممبئی حملوں میں لشکر طیبہ کی شمولیت کے بارے میں جو کچھ اگلا اس کی وجہ سے بھی پاک امریکہ تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوا ۔ حسین حقانی جو کہ واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر رہے ہیں اور آج کل امریکہ کے ایک تھنک ٹینک ہڈسن انسٹی ٹیوٹ سے بطور ڈائریکٹر وسطی اور جنوبی ایشیائی امور وابستہ ہیں انھوں نے حالیہ دنوں میں کچھ ایسی باتیں کی ہیں جو اس بات کا اشارہ دیتی ہیں کہ واشنگٹن کے تیور بدلے ہوئے ہیں ۔ایک بات تو انھوں نے یہ کی کہ جنرل پاشا جب اس وقت کے سی آئی اے چیف جنرل مائیک ہیڈن سے ملے تو انھوں نے کہا کہ “ممبئی حملوں میں لوگ ہمارے تھے لیکن منصوبہ ہمارا نہیں تھا بلکہ ہماری فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کچھ ریٹائرڈ لوگ اس میں شامل تھے ۔ دوسری جو سب سے خطرناک بات انھوں نے کی وہ یہ کہ پاکستانی فوج میں نیو کلیئر ہتھیاروں کو کرنل اور برگیڈئیر رینک کے افسر ہینڈل کر رہے ہیں جو کسی وقت از خود بھی یہ ہتھیار انڈیا کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں ۔
سٹریٹجک پالیسیوں کے حوالے سے امریکہ کا ہمیشہ یہ مسئلہ رہا ہے کہ وہاں بعض اوقات وائیٹ ہاؤس اور کانگریس دو متضاد سمتوں کی جانب گامزن ہوتے ہیں ۔
حسین حقانی کس کی زبان بول رہے ہیں اور یہ وہ یہ باتیں کیوں کر رہے ہیں جبکہ امریکہ کئی بار یہ بیان دے چکا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار محفوظ ہیں اور ان کا شدت پسندوں کے ہاتھ لگنے کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ بہت سے لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کو ڈیل کرنے کے لئے فوج کی جانب سے ایک الگ ادارہ سٹریٹجک پلان ڈویژن قائم کیا گیا تھا جس کے قیام اور تربیت کے لئے امریکہ نے کافی سرمایہ فراہم کیا تھا ۔ مگر اس کے باوجود امریکہ میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی مخالف لابی اتنی مضبوط ہے کہ یہ بات اوبامہ اپنے انٹرویو میں تسلیم کر چکے ہیں کہ جب انھوں نے پہلی بار صدارت کا عہدہ سنبھالا تو ایک خبر نے ان کی راتوں کی نیندیں حرام کر دیں ۔وہ خبر یہ تھی کہ پاکستان کی ایٹمی ذخیرے سے کچھ چھوٹے ہتھیار چوری کر لئے گئے ہیں جو ممکنہ طور پر القائدہ کہیں بھی امریکہ کے خلاف استعمال کر سکتی ہے ۔ لیکن جب بعد میں تحقیق کی گئی تویہ خبر بالکل بے بنیاد نکلی ۔
سٹریٹجک پالیسیوں کے حوالے سے امریکہ کا ہمیشہ یہ مسئلہ رہا ہے کہ وہاں بعض اوقات وائیٹ ہاؤس اور کانگریس دو متضاد سمتوں کی جانب گامزن ہوتے ہیں ۔کچھ کانگریس مین مسلسل یہ تاثر دے رہے ہیں کہ پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام غیر محفوظ ہے اور اس کے ہتھیار شدت پسندوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں ۔ وائیٹ ہاؤس ابھی تک اس معاملے میں کانگریس کو قائل نہیں کر سکا ۔ جس کہ وجہ سے کانگریس نے پاکستان کو ایف 16 طیاروں کی فراہمی بھی رکوا دی اور کہا کہ پاکستان جو طیارے امریکی امداد سے حاصل کرے گا وہ انڈیا کے خلاف استعمال ہو سکتے ہیں اس لئے اس کو کہا جائے کہ وہ اگر نقد رقم دے کر یہ طیارے حاصل کرنا چاہے توٹھیک ہے ورنہ طیارے نہیں دیئے جائیں گے ۔وائیٹ ہاؤس کو واشنگٹن میں پاکستان مخالف لابی کی طاقت کا اندازہ ہے اس لئے صدارتی انتخابات کے موقع پر وہ ایک حد سےزیادہ پاکستان کی حمایت میں آگے نہیں آئے گا ۔بلکہ پاکستان کو واشنگٹن سے تعلقات کی بہتری کے لئے اب نومبر میں ہونے والے 58ویں صدارتی انتخابات کے نتائج کا انتظار کرنا پڑے گا ۔جن میں اگر ڈیموکریٹک امیدوار ہیلری کلنٹن منتخب ہو گئیں تو وہ اس ریجن کے معاملات کا بخوبی ادراک رکھتی ہیں ۔
فی الحال پاک امریکہ تعلقات کو سمجھنے کے لئے سعودی امریکہ تعلقات کی موجودہ پوزیشن کو سمجھنا ہو گا ۔ کانگریس سعودی عرب کی بادشاہت سے نالاں ہے اور وہاں جمہوریت چاہتی ہے ۔کانگریس کو یہ بھی شبہ ہے کہ گیارہ ستمبر کے حملوں میں ملوث 19 مشتبہ ہائی جیکروں میں سے 15 سعودی باشندے تھے اس لئے ان حملوں میں کسی نہ کسی سطح پر سعودی حکومت ملوث ہے ۔ دوسری جانب وہی کانگریس یہ بھی سمجھتی ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو پناہ دینے میں بھی پاکستان کی فوج کا کسی نہ کسی سطح پر کردار ضرور ہے ۔حقانی نیٹ ورک کی پشت پناہی کی خبریں اس جلتی پرتیل کا کام کرتی ہیں ۔ مگر وائیٹ ہاؤس سمجھتا ہے کہ جس طرح موجودہ حالات میں سعودی حکومت کو تنہا چھوڑنے سے ریجن میں مزید ابتری آئے گی ۔ اگر سعودی عرب میں بغاوت ہوئی تو اس کی جگہ خلاء کو انتہا پسند پُرکریں گے ۔بالکل ویسے ہی جیسے لیبیا، شام اور عراق میں ہوا تھا ۔اس لئے امریکہ یہ تاریخ سعودی عرب میں دوہرانا نہیں چاہتا ۔ ویسا ہی معاملہ پاکستان کا ہے ۔اگر پاکستانی فوج کو مزید دباؤ میں لایا جاتا ہے تو وہ امریکہ سے قطع تعلق ہو جائے گی ۔وہ افراتفری میں اقتدار بھی ہتھیا سکتی ہے اور افغان مصالحتی امن کو بھی متاثر کر سکتی ہے ۔اس لئے وائیٹ ہاؤس نہ چاہتے ہوئے بھی سعودی عرب اور پاکستان میں وہی “سٹیٹس کو ” برقرار رکھنا چاہتا ہے جو عرصے سے چلا آرہا ہے ۔کیونکہ اسے یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ یہاں معاملات بہت نازک ہیں ۔یہاں اٹھایا جانے والاکوئی قدم حالات کو مزید بگاڑ سکتا ہے سنوار نہیں سکتا ۔
فیس بک پر تبصرے