تشویش،جوش وخروش پر بھاری ہے

835

کاروباری طبقہ زور دے رہا ہے کہ سیاستدانوں کے لیے یہ وقت ہے کہ وہ اپنے نقطہ نظر پر نظر ثانی کریں۔اپنی جعلی اخلاقیات کو چھوڑ کر ترقی کا سوچیں۔وعظ اور تقریروں سے لوگوں کے پیٹ نہیں بھرتے ،روزگارسے ہی ایسا ممکن ہوتا ہے۔

تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑے کاروباری طبقے نے مطلق العنانی کو جمہورت پر ترجیح دی۔ نواز حکومت کی پالیسوں پر تحفظات کے باوجود اس بار بزنس سیکٹر نے وزیراعظم کے خلاف مہم جوئی کی حوصلہ شکنی کی۔ ان کو یہ ادراک ہوچکا ہے کہ اس طرح کے اقدامات معیشت کو فائدے سے زیادہ نقصان پہنچانے کا موجب بنتے ہیں۔

بڑے کاروباری رہنما حکمران پارٹی کی پالیسیوں سے زیادہ خوش نہیں ہیں ،وہ سمجھتے ہیں کہ اُنہیں مضبوط وزارتِ خزانہ کی طرف سے ہدایات ملتی ہیں۔اُن میں یہ ہوس ہے کہ وہ آمدنی میں کمی کو ٹیکسوں سے پورا کرے، جب کہ کاروباری حضرات ، پہلے ہی ٹیکسوں اور یوٹیلٹی چارجز کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ۔

”صورتِ حال زیادہ سنگین ہوتی ہے جب لوگ ضرورت سے زیادہ ادراک رکھتے ہیں۔پاکستان ایک بارپھر خوف کی فضا میں گرفتار ہے۔گذشتہ دوہفتوں کے دوران رئیل اسٹیٹ کی قیمتوں نے اُونچی اُڑان بھری ہے۔سرمایہ کاردوبارہ مختصرالمدت آپشنز کو تلاش کررہے ہیں۔

ٹیکسٹائل کے بڑے تاجروں کوقابل واپسی ٹیکس کی ادائیگی کے سست عمل پر تشویش لاحق رہتی ہے ،اس سے ان کے کارو بار کی نمو پذیری متاثر ہوتی ہے،گرتی ہوئی ،برآمدات پر قابو پانے کیلئے مطلوبہ حمایت کے فقدان پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں۔موجودہ سیاسی منظر نامہ اپنے تبصروں کو قبول کرنے میں ہچکچاتا ہے مگر اس پر عوامی رائے بھی چاہتا ہے۔

وہ منتخب حکومت کے خلا ف میڈیا او ر اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے سیاسی اُبھار سے متنفر ہیں۔وہ بیرونِ ملک کمپنیوں کو مستردکرتے ہیں ،جن کے متعلق وزیرِ اعظم کے خلاف الزامات ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ اعتراضات کی عدالت کے رُوبرو کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔

وہ میڈیا پر تنقید کرتے ہیں جو عوام اور اپوزیشن جماعتوں کو اس بات پر اُکساتاہے کہ وہ اس مسئلے کو لے کر سڑکوں پرنکلیں۔وہ اس کو ایک خطرناک کھیل قرار دیتے ہیں ،جو جمہوریت کو پٹڑی سے اُتارنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔

ماہرین کو یقین ہے کہ اعلیٰ کاروباری طبقے کی صورتِ حال میں تبدیلی ،ضروری نہیں ہے کہ اس کی بنیاد اصولوں پر ہو،لیکن شاید اس کی جڑیں خوف میں اور اُن کے مفاد میں ہیں ۔ایک سابق وزیرِ تجارت کے مطابق”کاروباری طبقہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے خوف میں مبتلا ہے اورصاف ظاہر ہے ،اس کی وجوہات وسیع بنیادوں پر احتساب بن رہا ہے“

یہ معلومات کاروباری طبقے سے بات چیت کے دوران جمع کی گئی ہیں”وہ (کاروباری طبقہ)سرمایہ کاری کے لیے نئے امکانات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کررہے تھے ،جو سرمایہ کاری کی نئی راہیں پاک چین اقتصادی راہداری سے پیدا ہوئی ہیں ۔وہ سوچتے ہیں کہ سیاسی افراتفری،حکومت کی فیصلہ سازی کی مشینری کو مفلوج کرسکتی ہے ،اورنجی شعبے پر دباﺅ ہوگا کہ وہ اس منصوبے پر اپنی سرمایہ کاری کو روکے رکھیں ۔

یہ قابلِ سمجھ ہے کہ وسیع بنیادوں پر احتساب کی باتوں کی وجہ سے ، کاروباری حضرات کی صفوں میں جوش و خروش سے زیادہ تشویش ہے۔علاوہ ازیں پاکستان کے کاروباری طبقے کی نشاندہی اُس فہرست میں کی گئی ہے ،جوپاناما پیپرز میں منظرِ عام پر آئی ہے ،دوسراوہ اس کو ناپسند کرتے ہیں کہ اُن کے کاروباری اثاثوں کا حساب عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔وہ دلیل دیتے ہیں کہ اس کا اُلٹا اثرہوگا ،ایک ایسے وقت پر جب ملک نمایاں طور پر مستحکم ہورہا ہو اورتیز رفتار اقتصادی ترقی کی نمو ہورہی ہو۔ایک تیسری نسل کے صنعتکار کے مطابق ”پاکستان کو شدت سے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے ۔کوئی بھی ایسی پالیسی جو کاروبای طبقے کو خوفزدہ کردے ،اُن کی شراکت کی سطح کو دبادے گی اور اُنہیں اس پر آمادہ کرے گی کہ وہ اپنی دولت کو گڑھا کھود کراُس میں چھپا دیں“

کاروباری طبقہ زور دے رہا ہے کہ سیاستدانوں کے لیے یہ وقت ہے کہ وہ اپنے نقطہ نظر پر نظر ثانی کریں۔اپنی جعلی اخلاقیات کو چھوڑ کر ترقی کا سوچیں۔وعظ اور تقریروں سے لوگوں کے پیٹ نہیں بھرتے ،روزگارسے ہی ایسا ممکن ہوتا ہے۔اگرصنعتکاری اور زراعت کی بنیادوں کو وسیع نہیں کیا گیا تواب کوئی راستہ نہیں ہے کہ اقتصادی مرکزی دھارے میں لاکھوںشامل کیے جائیں ۔

نئے کاروبار کو درپیش چیلنجز پر بات کرتے ہوئے ایک سیمنٹ ٹائیکون کے مطابق ” پاکستان میں کاروبار بزدلوں کے لیے نہیں ہے۔جیسے ہی آپ باقی سب سے اُوپر اٹھتے ہیں (کاروبار میں دوسروں سے نمایاں کامیابی لیتے ہیں) توآپ کو تمام قسم کے مافیاز کے ساتھ مختلف صورتوں اور سطحوں سے نمٹنا پڑتا ہے۔لوگ سکیورٹی خطرات کو کیسے نظر انداز کردیں ،جب وہ اثاثوں کے عوامی اعلان کا مطالبہ کررہے ہوں؟

”کاروبای طبقہ اُمید کرتاہے کہ نظام پٹری سے نہیں اُترے گا،کیونکہ دُنیا آمرانہ حکومتوں کے لیے کم روادار بن چکی ہے“

کوئی بھی ایسی پالیسی جو کاروبای طبقے کو خوفزدہ کردے ،اُن کی شراکت کی سطح کو دبادے گی اور اُنہیں اس پر آمادہ کرے گی کہ وہ اپنی دولت کو گڑھا کھود کراُس میں چھپا دیں“

”پاکستان کے ساتھ پہلے ہی اچھوت جیسا سلوک کیا گیا ہے۔جمہوریت کو ضرورت ہے کہ اس کا دفاع کیا جائے کیونکہ ملک مغربی پابندیاں برداشت نہیں کرسکتا۔ جدید اور ایک دوسرے سے باہم منسلک دنیا میں بین الااقوامی اُصولوں کی خلاف ورزی کی قیمت بہت زیادہ ہے ۔کراچی کے ایک پریشان کاروباری شخص کا کہناتھا کہ معیشت کی لاگت کو بغیر کسی بھی نوع کے حادثے کے اُجاگر کیا جائے۔

اعزاز شیخ ،جو کوہاٹ سیمنٹ کے چیف ایگزیکٹو ہیں وہ پاناما پیپرز پر کہتے ہیں کہ”اہلِ مغرب اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایک کمزور جمہوریت مستحکم اور بہترین آمریت سے بہتر ہے ۔یہاں اس چیز کا کوئی جواز نہیں کہ آئین کے حوالے سے مہم جوئی کی جائے اور ملکی برداشت کا دوبارہ امتحان لیا جائے۔

ایک اور کاروباری شخص کے مطابق ”یہ بہت بڑی بدقسمتی ہے۔طویل عرصہ سے چیزیں اچھی نظر آرہی تھیں اور سرمایہ کار آپشن کی بجائے سرمایہ کاری کرنے کے لیے منصوبوں پر تبادلہ خیال کررہے تھے۔مجھے اُمید ہے اور اس کی خواہش ہے کہ بہتر احساس غالب رہے اور حکومت و اپوزیشن ان مسائل کو مذاکرات کی میز پر حل کریں۔اُس کاروباری شخص نے مزید کہا ”صورتِ حال زیادہ سنگین ہوتی ہے جب لوگ ضرورت سے زیادہ ادراک رکھتے ہیں۔پاکستان ایک بارپھر خوف کی فضا میں گرفتار ہے۔گذشتہ دوہفتوں کے دوران رئیل اسٹیٹ کی قیمتوں نے اُونچی اُڑان بھری ہے۔سرمایہ کاردوبارہ مختصرالمدت آپشنز کو تلاش کررہے ہیں۔یہ معیشت کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔

ایک ٹیکسٹائل ٹائیکون ،جن کا نام فہرست میں شامل ہے،بہت صاف گو ئی سے بولے ”ملک کے اندر خفیہ اثاثوں سے مالی استفادہ کرنے والوں کا کیا ہوگا؟ہر کاروباری معاملے میں جو ٹیکس اداکیا گیا ہے وہ خریدی گئی قیمت پر ہے جو کہ مارکیٹ ویلیو کا بہت کم حصہ”صرف گذشتہ تین برس سے اربوں مالیت کی جائیداد یں، کراچی،لاہوراور اسلام آباد میں ڈی ایچ اے انتظامیہ کے ہاتھوں اس کی خریدوفروخت ہوئی ہے۔

(افشاں صبوحی ڈان میڈیا گروپ سے بطور ایڈیٹر بزنس اینڈ اکنامک ریویو منسلک ہیں ، پاکستانی معیشت کے مسائل اور وسائل پر ان کی گہری نظر ہے )

بہ شکریہ ڈان….ترجمہ :احمد اعجاز

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...