ریاست کا سافٹ ویئر کرپٹ ہو چکا ہے؟
بھئی مت بھولئے جب1973ءکے آئین میں آرٹیکل6 رکھا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ اس کا اطلاق23 مارچ1956ءسے ہوگا تو اس وقت جنرل ایوب خان بھی زندہ تھے اور جنرل یحییٰ خان بھی لیکن مقدمہ تو کیا ایف آئی آر تک درج نہ ہوئی۔
ہم تسلیم کریں یا نہ کریں ہماری ریاست کا ہارڈ ویئر تو1971ءکے جھٹکے کے باوجود کچھ نہ کچھ قائم و دائم ہے لیکن اس کا سافٹ ویئر خوب کرپٹ ہو چکا ہے اس سافٹ ویئر کی بحالی کی بات ہوتی ہے تو اس پر کوئی غیر جمہوری اینٹی وائرس چلا دیا جاتا ہے جو ہارڈ ویئر کو بھی ہلا کر رکھ دیتا ہے۔اگر69 سالہ پرانا یہ سارا کچھ چل رہا ہے تو یہ ہارڈ ویئر کا کمال ہے یا پھر اس کے اصلی مالکان۔عوام کا۔وگرنہ یہاں ہر شے کریش کرنے کےلئے کیا کچھ نہیں ہوا۔سچ پوچھیں تو پاکستانی خواب کو تعبیر آشنا کرنے کےلئے اگر کوئی واقعی مخلص ہے تو وہ یہاں کے افتادگان خاک ہیں۔امراءاور طبقہ اشرافیہ کو تو دو مہلک امراض یعنی ذوق تھانیداری اور شوق ٹھیکیداری لاحق ہیں۔ذوقِ تھانیداری کا یہ عالم ہے کہ اس میں سرحدوں کی بھی کوئی قید نہیں اور شوق ٹھیکیداری کے تو کیا کہنے۔ہر چیز سے سونا نکل آتا ہے۔بدقسمت تو فقط عوام ہیں جنہیں اچھے برے حکمرانوں پر خرابی حالات کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرتے چلے جاتے ہیں لیکن یہ کیا کہ عوام تو مشکلات کی گرداب میں بھی خوش لیکن طبقہ اشرافیہ کی نازک مزاجی دیکھے اِدھر اقتدار سے دور ہوئے،اُدھر “ون پونی “بیماریاں ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں،خیر بات دوسری طرف نکل جائے گی۔آئیے آج پاکستان کے چار خواب اور چار واہموں کی بات کرتے ہیں جنہوں نے ہمارے تمام سافٹ ویئر خراب کر رکھے ہیں۔
پہلا خواب:ہمارے سارے سیاستدان تو کرپٹ ہیں، لیکن ایک دن اللہ میاں نے فرشتوں کے ہجوم کو آخر کار ہماری بہتری کےلئے مقرر کردینا ہے اور ہمارا سب کچھ ٹھیک ہو جانا ہے،شاید ایسا ہی ہو کیونکہ ہم نے اتنا کچھ برباد کرلیا ہے کہ بہتری انسانوں کے بس کی بات نہیں رہی۔
دوسرا خواب: ہمارے پاس قدرت کا عطا کردہ سبھی کچھ ہے بس مسئلہ یہ ہے کہ وہ سارا کچھ زیر زمین ہے یا پھر فضا میں مافوق الفطرت۔ جب پوری دنیا بھوکی ننگی ہو جائے گی اور کوئی بھی ہمیں قرض دینے کے قابل نہیں رہے گا تو ہم اپنے زیر زمین خزانے نکال کر خوب موج مستی کریں گے۔
تیسرا خواب:ہمارے ملک سے لوٹے ہوئے اربوں ڈالر سوئس بنکوں میں پڑھے ہیں،اب ہمیں کام کرنے کے کیا ضرورت بس ایک دو احتساب کے کلہاڑے چلائیں گے اور سبھی کچھ ہماری جیب میں آجائے گا اور پھر ہم دنیا میں امیر ترین ہو جائیں گے اور غریب ملکوں کو قرضہ دیا کریں گے۔
چوتھا خواب: جب ہماری جیو اسٹریٹجک اہمیت اتنی زیادہ ہے تو ہر سرد اور گرم جنگ میں ریاض،واشنگٹن اور بیجنگ ہمارے لئے اتنا کچھ سوچ رہے ہیں تو ہمیں یہ روگ پالنے کی کیا ضرورت،ہم جو ٹھہرے عالمی محصول چونگی ،ہم تو”راہداری“ وصول کرتے رہیں گے۔
آئیے اب ان چار واہموں کی بھی بات کرلیں جن کی وجہ سے ہمارے چاروں خوابوں کی تعبیر ہم سے دور ہے۔
پہلا واہمہ:ہم سب سے اچھے ہیں اور ہمارے پاس سب کچھ ہے لیکن پوری دنیا ہمارے خلاف سازشیں کررہی ہیں۔
دوسرا واہمہ: ہم بہت آگے نکل جائیں اگر اس ملک کو جمہوری سیاست کا عارضہ اور اتنا درد نہ ہوتا۔
تیسرا واہمہ: اگر ہم اس ملک سے سیاستدانوں کا خاتمہ کردیں تو ہم ترقی کی عالمی100 میٹر دوڑ میں ریکارڈ کامیابی حاصل کرلیں۔
چوتھا واہمہ: اگر ہم100 فیصد مذہبی ہو جائیں تو ہر گرہ خود بخودکھل جائے گی۔
بھئی ذرا اپنے گریبان میں تو جھانکیے یہاں ہر قدم پر مذہب کی کوئی نہ کوئی دکان ہے،ہم نے ہر کسی کی پراکسی لڑنے کےلئے ایڈوانس پکڑ رکھا ہے اور رہی بیچاری جمہوریت اور سیاست تو وہاں بھی ہم نے اچھے برے پتلی تماشوں سے بڑھ کر کسی چیز کی اجازت نہیں دی۔ تو پھر یہ بد حالی کیسی؟
شاید اب حقائق سے بغلگیر ہونے کا وقت آچکا ہے۔خوابوں اور واہموں کی دنیا کو طلاق دینا ہوگی کیونکہ20 کروڑ آبادی والے ملکوں کو واہموں،خوابوں اور سرابوں کے ساتھ نہیں چلایا جاسکتا۔سرکار کی رٹ بحال کیجئے اور عوام کی زندگی میں کوئی روشنی کا چراغ جلائیے اور یہ سبھی کچھ عوام کے حق حکمرانی کو تسلیم کرتے ہوئے جمہوری فضا میں ہی ہوسکتا ہے۔
آخری بات: آج کل پاکستان میں بہت سارے لوگ خفا ہیں کہ احتساب صرف سیاستدانوں کا ہوتا ہے دیکھیں سابقہ فوجی حکمران تو آرٹیکل6(سنگین غداری) سے بھی جان بچا کر بھاگ نکلے۔ کیسا انصاف،کیسا معاشرہ۔بھئی مت بھولئے جب1973ءکے آئین میں آرٹیکل6 رکھا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ اس کا اطلاق23 مارچ1956ءسے ہوگا تو اس وقت جنرل ایوب خان بھی زندہ تھے اور جنرل یحییٰ خان بھی لیکن مقدمہ تو کیا ایف آئی آر تک درج نہ ہوئی۔بنیادی طور پر یہ آرٹیکل ایک آئینی دھمکی تھا۔جسے1977ءمیں جنرل ضیاءاور1999ءمیں جنرل مشرف نے محسوس تک نہ کیا۔اس بار کم از کم کچھ پیش رفت تو ہوئی۔باقی کون سا ہم نے ہر منزل پا لی ہے جو یہ رہ گئی تو خسارہ ہی خسارہ ہے۔
بس یہی دعا کیجئے کہ اچھی بری جمہوریت کا سفر چلتا رہے۔ اب معلوم نہیں اس دعا کا شمار خوابوں میں کریں یا واہموں میں۔
فیس بک پر تبصرے